’انڈیا پر حد سے زیادہ انحصار‘ سمیت وہ عوامل جنھوں نے شیخ حسینہ کے خلاف بغاوت میں کردار ادا کیا

بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ 1975 میں شیخ مجیب الرحمان اور ان کے خاندان کے قتل کے بعد عوامی لیگ بھی اسی تباہ کن صورتحال سے دوچار ہوئی تھی۔ لیکن یہ ساری صورتحال اس نہج پر کیسے اور کیوں پہنچی کہ بنگلہ دیش کے ہزاروں لوگ جنگ آزادی کی قیادت کرنے والی جماعت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔
Getty Images
Getty Images

رواں سال پانچ جون کو جب بنگلہ دیش کے ہائی کورٹ کے ایک بنچ نے کوٹہ سسٹم ختم کرتے ہوئے 2018 میں جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کو خارج کر دیا تو اس وقت کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ فیصلہ اگلے دو ماہ میں بنگلہ دیش کی سیاست میں ایک غیر معمولی واقعے کا سبب بنے گا۔۔۔ اور بالآخر یہ شیخ حسینہ کی 15 سالہ مسلسل حکمرانی کے خاتمے کا باعث بنا۔

اُس دن تو ہائی کورٹ کے حکم کو اخبارات کی شہہ سرخیوں میں زیادہ توجہ نہیں ملی لیکن اگلے پانچ ہفتوں بعد اس پر اٹھنے والے احتجاج کی وجہ سے شیخ حسینہ کو خفیہ طور پر ملک سے فرار ہونا پڑا۔ ان پر حزب اختلاف کو مسلسل دبانے کا الزام تھا۔

طلبہ تحریک شروع میں کوٹہ اصلاحات کے گرد مرکوز تھی لیکن بعد میں مختلف عمر کے لاکھوں لوگوں نے اس میں حصہ لینا شروع کر دیا۔

مصنف محی الدین احمد اسے ’عوامی بغاوت‘ کہتے ہیں۔ احمد کا کہنا ہے کہ ’آخر میں یہ معاملہ کوٹہ تحریک تک محدود نہیں رہا۔ ایک موقع پر ملک کے ہر سطح کے لوگوں نے تحریک میں حصہ لیا، یا اسے حمایت دی۔‘

ڈھاکہ یونیورسٹی کے پروفیسر اور سیاسی مبصر سراج الاسلام چودھری کا خیال ہے کہ ایک طویل عرصے سے مختلف وجوہات کی بنا پر لوگوں میں غصہ تھا اور لوگ اس غصے کو نکالنے کا موقع ڈھونڈ رہے تھے۔

سراج الاسلامکا کہنا ہے کہ ’کوٹہ اصلاحات کی تحریک نے انھیں ایک موقع فراہم کیا، انھوں نے اس تحریک کے تحت اپنے طویل عرصے سے دبے ہوئے درد اور غصے کا اظہار کیا۔‘

بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ 1975 میں شیخ مجیب الرحمان اور ان کے خاندان کے قتل کے بعد عوامی لیگ بھی اسی تباہ کن صورتحال سے دوچار ہوئی تھی۔ لیکن یہ ساری صورتحال اس نہج پر کیسے اور کیوں پہنچی کہ بنگلہ دیش کے ہزاروں لوگ جنگ آزادی کی قیادت کرنے والی جماعت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔

بنگلہ دیش کی سیاست میں 40 سال سے زیادہ عرصے سے اہم کردار ادا کرنے والی شیخ حسینہ کو ملک سے کیوں بھاگنا پڑا؟

طویل عرصے سے دبا ہوا غصہ

Getty Images
Getty Images

عوامی لیگ نے 29 دسمبر 2008 کے انتخابات میں دو تہائی نشستیں جیت کر حکومت بنائی۔ تب سے پارٹی اقتدار سے باہر نہیں آنا چاہتی تھی۔

یک طرفہ یا مبینہ دھاندلی پر مبنی انتخابات، اپوزیشن اور اختلاف رائے کو دبانا، بے ضابطگیاں اور بدعنوانی، بیوروکریسی اور انتظامیہ پر پارٹی کا انحصار اس زوال کی چند اہم وجوہات ہیں۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل بنگلہ دیش کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر افتخار الزمان کہتے ہیں کہ ’عوامی لیگ نے ان 15 سالوں میں زیادہ تر آئینی اداروں کو تباہ کر دیا، حالانکہ یہ ادارے حکومت کے کنٹرول میں تھے۔ کوئی ادارہ ٹھیک کام نہیں کر رہا تھا۔‘

'لہذا عوام کو کسی تحریک یا چنگاری کی ضرورت تھی۔ اور اس کا آغاز طلبہ کی تحریک سے ہوا۔‘

اس کے نتیجے میں جب حکومت مخالف تحریک زور پکڑنے لگی تو اس تحریک کے گرد لوگوں کا غصہ بھی ابھرنے لگا اور پھر فوج، کرفیو یا پولیس کی پروا کیے بغیر مختلف طبقوں اور پیشوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔

سیاسی تجزیہ کار محی الدین احمد کا کہنا ہے کہ ’15 سال سے جاری غصے، اشیا کی قیمتوں، پبلک ٹرانسپورٹ کی بدانتظامی، لوٹ مار، بینکنگ کی بے ضابطگیوں سے ناراض عوام کوٹہ تحریک کے موقع پر تبدیلی کی امید کے ساتھ سڑکوں پر اتر آئے۔‘

اس تحریک میں حصہ لینے والی تہمینہ اختر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے سرکاری نوکری کی ضرورت نہیں، میری عمر بھی نہیں کہ نوکری کے لیے درخواست دے سکوں۔ لیکن ہم ان جھوٹوں کا خاتمہ چاہتے ہیں اور ہمیں جس تکلیف اذیت اور خوف میں رکھا جا رہا ہے ہم اس کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ اسی لیے میں آج سڑک پر آئی ہوں۔‘

تجزیہ کار عوامی بغاوت کے ذریعے شیخ حسینہ کی حکومت کا تختہ الٹنے کے پیچھے کچھ اور وجوہات بھی دیکھ رہے ہیں۔

ووٹ دینے اور اظہار رائے کا حق

جمہوری عمل میں انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آنے کے باوجود، عوامی لیگ بعد میں ایک حقیقی ’آمرانہ‘ حکومت بن گئی۔

2008 کے بعد بنگلہ دیش میں حقیقی معنوں میں کوئی منصفانہ انتخابات نہیں ہوئے۔ اس عرصے میں ہونے والے تین قومی انتخابات میں سے دو بڑے پیمانے پر یک طرفہ انتخابات تھے۔

اگرچہ بی این پی اور دیگر سیاسی جماعتوں نے 2018 کے انتخابات میں حصہ لیا تھا لیکن اس انتخاب پر بڑے پیمانے پر دھاندلی اور بے ضابطگیوں کے الزامات لگے اور اسے بہت سے لوگوں نے ’رات کے انتخابات‘ کے طور پر بیان کیا۔

بلدیاتی انتخابات میں بھی عوامی لیگ نے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا۔ وہ انتخابات بھی زیادہ تر یک طرفہ رہے۔ جہاں بی این پی یا دیگر سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا وہاں بے ضابطگیوں یا دھاندلی کے الزامات لگائے گئے ہیں۔

نتیجتاً گذشتہ 15 سالوں میں عوام کو ووٹنگ کے ذریعے اپنے نمائندے چننے یا اپنی رائے کا اظہار کرنے کا کوئی حق نہیں ملا۔

پروفیسر سراج الاسلام چوہدری کہتے ہیں کہ عوامی لیگ نے طاقت کے ذریعے آمرانہ حکومت قائم کی۔ انھوں نے عوام کا کوئی فیصلہ نہیں مانا۔ نتیجتاً عوام کی حمایت ان کے پیچھے نہیں رہی، وہ انتظامیہ کا استعمال کرتے ہوئے جعلی انتخابات کروا کر اقتدار میں آئے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے شکایت کی ہے کہ عوامی لیگ کے دور حکومت میں اپوزیشن جماعتوں کو سختی کے ساتھ دبایا گیا۔

ان جماعتوں کے مرکزی رہنماؤں سمیت سینکڑوں کارکن لاپتہ ہو گئے یا پھر وہ مختلف مقدمات یا سزاؤں کے ساتھ جیلوں میں نظر بند ہیں۔ کئی کارکنوں کو گرفتار کر کے برسوں سے نظر بند رکھا گیا ہے۔

ڈاکٹر افتخار الزمان کا کہنا ہے کہ ’جو ملک عوام کے حق رائے دہی کو دبانے کے خلاف تحریک کی وجہ سے آزاد ہوا اس ملک کے لوگوں سے 15 سال سے ووٹ کا حق چھین لیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اظہار کی آزادی، اظہار رائے، اور میڈیا کی آزادی بھی چھین لی گئی۔ اور اگر وہ ہیں بھی تو ان پر بہت ساری پابندیاں ہیں اور ان کی نگرانی کی جاتی ہے۔‘

بنگلہ دیش میں گذشتہ 15 سالوں میں سیاسی میدان میں بھی اپوزیشن جماعت بی این پی کو پولیس کی اجازت کے بغیر جلسے کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

بنگلہ دیش
Getty Images

انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور خوف کا کلچر

انسانی حقوق کی تنظیموں نے عوامی لیگ کی حکومت پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بہت سے الزامات عائد کیے ہیں۔

رواں سال کے شروع میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ٹرک نے شکایت کی تھی کہ انسانی حقوق کے مسائل کی وجہ سے بنگلہ دیش کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔

نا صرف سیاسی مخالفین بلکہ مخالف میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی پابندیاں عائد کی گئیں۔ مخالف میڈیا کو یا تو بند کر دیا گیا ہے یا ان پر قبضہ کیا گیا ہے یا انھیں کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

بنگلہ دیش میں کئی سالوں سے سوشل میڈیا پر شیخ حسینہ یا شیخ مجیب کے خلاف بیانات پوسٹ کرنے پر مقدمات اور گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔ اس کو دبانے کے لیے ڈیجیٹل سکیورٹی ایکٹ، سائبر سکیورٹی ایکٹ جیسے قانون متعارف کرائے گئے۔

حکومت کے خلاف بولنے کی وجہ سے لوگ مہینوں تک جیل میں بند رہے اور ان کی درخواست ضمانت مسترد کر دی گئی۔

پروفیسر سراج الاسلام چودھری کا کہنا ہے کہ ’انھوں نے خوف کا کلچر پیدا کیا، سائبر سکیورٹی کے نام پر جھوٹے مقدمات درج کرنے سے لوگ خوف کی حالت میں تھے۔‘

بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ شیخ حسینہ کی حکومت اور پولیس فورسز نے پورے ملک کو ایک مافیا سٹیٹ بنا دیا ہے۔ اور ان سب کے لیے حکومتی انتظامی مشینری، پولیس، آر اے بی، اور انٹیلی جنس فورسز حتیٰ کہ عدلیہ کو بھی استعمال کیا گیا ہے۔

حکومت کی تبدیلی کے بعد ان سیاسی جماعتوں کے سینکڑوں کارکنان ان مقدمات میں ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں جن کی گذشتہ 16 برسوں میں ضمانت نہیں ہوئی تھی۔ جج نے ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ بہت کچھ ہے جو ہم نہیں کہہ سکتے۔

برسوں کے دوران بہت سے اختلاف کرنے والے پکڑے گئے یا تو غائب کر دیے گئے یا حراست میں لے لیے گئے۔ حکومت کی تبدیلی کے بعد کچھ ایسے افراد کو رہا کر دیا گیا جو آٹھ سال سے زائد عرصے تک بغیر کسی الزام کے خفیہ طور پر قید تھے۔

نتیجتاً تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ لوگ گھٹن والی صورتحال اور خوف سے نجات کے لیے طلبہ تحریک کی حمایت میں اتر آئے۔

ڈاکٹر افتخار الزمان نے کہا کہ ’روز بروز لوگ حکومت یا عوامی لیگ کے خلاف ہوتے جا رہے تھے اور وہ بس انھیں روکنے کے ایک موقعے کی تلاش میں تھے۔‘

Getty Images
Getty Images

پولیس اور انتظامیہ پر انحصار کرنے والی جماعت

مختلف ممالک کی تاریخ میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ طاقت کے زور پر اقتدار میں آنے والی جماعتیں یا سیاسی افراد بیوروکریٹس، انتظامیہ یا پولیس کے محتاج ہو جاتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش بھی اس سے مستثنی نہیں۔

ان کے مطابق طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے کے نتیجے میں پارٹی کے رہنما اور کارکنان عوام سے الگ ہو گئے حالانکہ یہ کبھی فیلڈ میں کام کرنے والی سیاسی جماعت تھی۔ خاص طور پر پارٹی انتظامیہ اور بیوروکریسی پر مکمل طور پر انحصار کر نے لگی۔

پارٹی میں مختلف سطحوں پر جن رہنماؤں کو عہدے دیے گئے ان پر الزامات ہیں کہ انھیں یہ عہدے میرٹ کے بجائے اقربا پروری یا پیسے کے عوض دیے گئے۔

بہت سے ایسے لوگوں کو جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا انھیں سیاسی عہدہ یا الیکشن کے مواقع دیے گئے۔ ان میں سے کئی نے ان پوسٹوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا ہے۔

صحافیوں سمیت پیشہ ور تنظیمیں ایسا متعصبانہ رویہ اختیار کر چکی ہیں کہ یہ تنظیمیں اپنی اصلی خصوصیات کھو چکی ہیں۔

سیاسی مبصر محی الدین احمد کا کہنا ہے کہ ’عوامی لیگ نے اپنی پارٹی کو کمزور کرنے کے لیے گذشتہ 15 سالوں میں ریاستی طاقت کا استعمال کیا، نااہل اور ناقابل لوگوں کو پارٹی کے اعلیٰ عہدوں پر بٹھایا جس کے نتیجے میں ان کے پاس سب کچھ ہونے کے باوجود انھیں اچھی ٹیم نہ مل سکی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’چھاتر (طلبہ) لیگ، جوبو لیگ، عوامی لیگ کے نام پر ان کے لیڈروں اور کارکنوں نے ہر گاؤں میں جو کچھ کیا، عوام کا غصہ ایسی سطح پر چلا گیا جس کا اظہار ایک ساتھ ہوا اور لوگوں میں گولی اور فائرنگ سے موت کا خوف بھی جاتا رہا۔‘

عدم اطمینان صرف عام لوگوں میں ہی نہیں بلکہ ان قوتوں میں بھی پیدا ہوا جن پر حکومت کا اقتدار میں رہنے کے لیے انحصار تھا کیونکہ اعلیٰ عہدوں پر موجود افراد نے افواج کو کمانڈ کرنے کے لیے اپنے عہدوں کا استعمال کیا اور وہ قوانین یا ضابطوں کی پابندی نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح بہت سے لوگوں پر کرپشن کے ذریعے دولت حاصل کرنے کے الزامات بھی لگے۔

پروفیسر سراج الاسلام چودھری کہتے ہیں کہ ’اس چیز نے ان میں طاقت کا احساس پیدا کیا، ان کا خیال تھا کہ 15 سال گزر گئے اور وہ مزید 15 سال اقتدار میں رہیں گے۔ ان کا کوئی احتساب نہیں ہوا، انھوں نے سوچا کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ سب ٹھیک ہے۔‘

عوامی لیگ کی خاندانی تاریخ یا حکومت سے قربت رکھنے والے افراد کو اعلیٰ یا اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا۔

مبینہ طور پر تھانے کے او سی سے لے کر کمشنر تک کی تقرریاں سیاسی وفاداری کی بنیاد پر کی گئیں۔ دوسری جانب کئی عہدیدار اہلیت کے باوجود پارٹی سے وابستگی نہ ہونے کی وجہ سے نظر انداز کیے گئے۔

ان وجوہات کی بنا پر پولیس اور فوج میں بہت سے لوگوں میں عوامی لیگ مخالف رویہ پیدا ہوا۔

اس کا اظہار شیخ حسینہ کے فرار کے بعد ماتحت پولیس افسران کو جاری کیے گئے ایک سرکلر سے ہوتا ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’سینیئر افسران کو سیاسی فائدے کے لیے ان کی مرضی کے خلاف استعمال کیا گیا۔ وہ ان احکامات کو ماننے پر مجبور تھے۔‘

مصنف محی الدین احمد کہتے ہیں کہ ’ریاست اور پارٹی ایک ہو گئی۔ ملک پر ایک شخص کی حکومت تھی، ایک خاندان کی حکومت تھی اور وہ خاندان پوری ریاستی طاقت استعمال کرتا تھا۔ وہاں تاجر، بیوروکریسی، پولیس، فوج سب اکٹھے تھے۔ پھر تاش کے محل کی طرح وہ ٹوٹ کر بکھر گئے۔‘

Getty Images
Getty Images

کرپشن اور امیروں کی جنت ’بیگمپارہ‘

اگرچہ عوامی لیگ کی حکومت نے اپنے منشور اور قائدین کی تقاریر میں بدعنوانی کے خلاف اپنے موقف کا اعلان کیا ہے لیکن گذشتہ تین ادوار میں پارٹی کے چھوٹے سے لے کر مرکزی قائدین اور حکومتی عہدیداروں پر زیادہ تر کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات لگائے گئے ہیں۔

گلوبل فنانشل انٹیگریٹی (جی ایف آئی) کے مطابق بنگلہ دیش سے ہر سال اوسطاً 64000 کروڑ روپے باہر جاتے ہیں۔ اس کے مطابق 15 سالوں میں بنگلہ دیش سے تقریباً 10 لاکھ کروڑ روپے کی سمگلنگ ہوئی ہے۔

بنگلہ دیش سے سمگل کی گئی رقم سے کینیڈا میں ’بیگمپارہ‘ (امیروں کی جنت) تعمیر کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔ عوامی لیگ کی حکومت پر الزام ہے کہ اس کے بہت سے لیڈروں، وزرا، ایم پیز، حکومت کے قریبی تاجروں نے ملک سے پیسہ سمگل کرکے، بیگمپارہ میں سرمایہ کاری کی ہے اور گھر بنائے ہیں۔

سابق آئی جی پی بینظیر احمد جیسے کئی سابق سرکاری افسران کے ہزاروں کروڑ روپے کی دولت بنانے کی خبریں میڈیا میں شائع ہو چکی ہیں۔ سرکاری دفاتر میں رشوت خوری ایک عام کلچر بن چکا ہے۔

عوامی لیگ کے کئی رہنماؤں اور وزرا پر بیرون ملک ہزاروں کروڑ روپے کے اثاثے رکھنے اور سرمایہ کاری کی سکیموں سے دوسرے ممالک کی شہریت لینے کا الزام ہے۔

پروفیسر سراج الاسلام چودھری نے کہا کہ ’اتنی کرپشن ہوئی ہے جو لوگوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوگی۔ کرپشن کے بارے میں لوگوں میں خوف اور تشویش پیدا ہوئی۔ جہاں بنگلہ دیش کے لوگ مشکلات میں زندگی گزار رہے ہیں وہیں بیرون ملک میں لیڈروں اور وزرا کی بے تحاشہ دولت و اثاثے بنانے کی خبروں نے عوام کو پریشان اور مشتعل کردیا ہے۔

سرکاری ملازمتیں بدعنوانی کی وجہ سے اس قدر منافع بخش ہو گئی ہیں کہ درجہ چہارم کی نوکریوں پر بھی لاکھوں روپے کی رشوت دینے اور لینے کا الزام لگایا جاتا ہے۔

سینٹر فار پالیسی ڈائیلاگ کے اعزازی فیلو مستفیض الرحمان نے کہا ’لوگ اچھی ملازمتیں حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ معاشی طور پر محفوظ رہ سکیں۔ اس سے پہلے پرائیویٹ سیکٹر میں بہت سی نچلی سطح کی نوکریاں تھیں جو اب کم ہو گئیں ہیں۔۔ نتیجتاً سب سرکاری نوکری حاصل کرنا چاہتے تھے۔‘

لیکن انھیں اس کے حصول میں بے ضابطگیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

’معاشی پریشانی‘ کا تناؤ اور حکومت کے انڈیا پر حد سے زیادہ انحصار پر تنقید

بنگلہ دیش میں مہنگائی گذشتہ دو سالوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ راتوں رات ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ہر چیز پر اثر پڑا۔ روزمرہ استعمال کی تمام اشیا کی قیمتیں بڑھ گئیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ذخائر کی کمی، بدعنوانی، ملک سے بڑے پیمانے پر رقوم کی سمگلنگ اور بینکنگ سیکٹر میں ہزاروں کروڑ روپے کے قرضوں کی بے ضابطگیوں کی خبریں یکے بعد دیگرے میڈیا میں شائع ہوتی رہی ہیں۔

لیکن عام لوگوں کی زندگی دن بہ دن مشکل ہوتی گئی اور نتیجتاً ان میں حکومت مخالف رویے دن بدن پروان چڑھتے چلے گئے۔

عوامی لیگ نے مسلسل تین ادوار میں پدما پل، میٹرو ریل، ٹنل، پائرہ پورٹ، پائرہ پل، ریل لنک جیسی کئی مہنگے ترقیاتی کام کیے۔ اس نے جنوبی بنگال جیسے کئی مقامات پر معاشی تبدیلیاں بھی کیں۔ لیکن ساتھ ہی مہنگائی بھی بڑھ گئی ہے۔

اگرچہ شیخ حسینہ اور ان کے وزرا نے بارہا ان پیش رفتوں کی تعریف کی، لیکن عام لوگوں کو ان کی خاندانی یا ذاتی زندگی میں زیادہ جھلک نظر نہیں آئی۔ نتیجتاً وہ بھی تبدیلی چاہتے تھے۔

پروفیسر سراج الاسلام چودھری کہتے ہیں کہ ’معیشت کی حالت ابتر ہو چکی تھی جس میں بہتری تو ہوئی لیکن اس سے عام لوگوں کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ کھوکھلی ترقی تھی۔ کیونکہ کوئی روزگار نہیں تھا۔ ترقی کے نتائج کی تقسیم بھی مناسب نہیں تھی۔ بہت کم لوگوں نے اس کا فائدہ اٹھایا ہے۔‘

اس کے ساتھ ساتھ لیڈران، اضافی مراعات حاصل کرنے والے سرکاری افسران، کرپشن، رشوت خور، چھوٹے تاجر اور خدمات لینے جانے والے ہر شخص کو رشوت دینے پر مجبور کیا گیا ہے۔

بینکنگ سیکٹر میں سیاسی رابطوں کا استعمال کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ دوسری جانب سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرکے ہزاروں افراد اپنی جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ حکومت کے قریبی لوگوں پر کرپشن کے بے پناہ الزامات لگائے گئے ہیں۔

لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی، کسی کا احتساب نہیں ہوا۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ان تمام چیزوں سے لوگوں کا غصہ بڑھ گیا۔

ڈاکٹر افتخار الزمان کہتے ہیں ’اس سب کا بوجھ عام لوگوں پر پڑا ہے، جن کے لیے روزمرہ اشیا کی قیمتیں بڑھ گئی ہے، زندگی گزارنے کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ ان کی قوت خرید کم ہو گئی ہے، جینا مشکل ہو گیا ہے۔‘

’لوگ حکومت سے ناراض تھے۔ انھوں نے ان تمام چیزوں کے لیے وزیر اعظم شیخ حسینہ کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔‘

سراج الاسلام چوہدری کا خیال ہے کہ ان کے علاوہ بہت سے لوگوں کو حکومت کا انڈیا پر حد سے زیادہ انحصار پسند نہیں آیا۔

کیونکہ گذشتہ چند سالوں میں بنگلہ دیش نے انڈیا کے ساتھ جو معاہدے کیے ہیں ان پر تنقید کی جا رہی ہے کہ وہ بنگلہ دیش کے مقابلے میں انڈیا کے لیے زیادہ سازگار ہیں۔

چوہدری کہتے ہیں ’حسینہ کا انڈیا پر انحصار، انھوں نے جو سودے کیے ہیں انھیں انڈیا کے حق میں جاتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ قرضہ بڑھتا جا رہا ہے اور لوگ ناراض ہوتے گئے۔‘

Getty Images
Getty Images

حسینہ کو حقیقت سمجھ ہی نہیں آئی

بہت سے لوگوں نے سوچا کہ حکومت نے سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ اصلاحات کا مطالبہ کرنے والی تحریک میں گولیوں اور گرفتاریوں جیسی طاقت کا سہارا کیوں لیا؟

یہ واضح تھا کہ عوامی لیگ نے شروع سے ہی اس تحریک پر بحث کرنے میں کوئی دلچسپی یا لچک نہیں دکھائی۔ بلکہ پچھلی تمام تحریکوں کی طرح اسے بھی طاقت سے دبانے کی کوشش کی گئی ہے۔

سب سے پہلے انھوں نے اپنی طلبا قوتوں کو عام طلبا کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی، پھر پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں سے تحریک کو دبانے کی کوشش کی جو ناکام ہوئی۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کی لاپرواہی، فائرنگ سے پانچ ہفتوں میں پانچ سو سے زائد افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ صورتحال سے نمٹنے کے لیے انٹرنیٹ بند کیا گیا، کرفیو نافذ ہوا اور عام تعطیل کا اعلان کرنا پڑا۔

پھر جب حالات کسی حد تک قابو میں ہوتے نظر آئے تو سینکڑوں مقدمات درج کر کے طلبا کو گرفتار کر کے رات کے وقت جیل بھیج دیا گیا۔

رنگپور کے ابو سعید کی موت کے واقعے میں پولیس کی فائرنگ کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد بھی پولیس نے الزام طلبہ پر ڈالا اور ایک معصوم طالب علم کو پھنسانے کی کوشش کی۔

طلبہ تحریک کے چھ لیڈروں کو ہسپتالوں اور گھروں سے اٹھایا گیا اور بغیر کسی وجہ کے کئی دن تک انٹیلی جنس آفس میں نظر بند رکھا گیا، ڈرا دھمکا کر بیانات دینے پر مجبور کیا گیا۔

پولیس، بی جی بی اور پارٹی کے بندوق برداروں کی فائرنگ کی تصاویر اور ویڈیوز سامنے آنے کے بعد بھی عوامی لیگ کے وزرا اور رہنما جھوٹے بیانات دیتے رہے، عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے رہے، مشتعل افراد کو دھمکیاں دیتے رہے۔

حکومتی وزرا نے یہاں تک کہا کہ ’پولیس والوں کے لباس میں ملبوس دہشت گردوں نے فائرنگ کی۔‘ انٹرنیٹ بند کرنے کے بارے میں بہت ساری غلط معلومات پھیلائی گئیں۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ان چیزوں نے لوگوں میں مزید غصہ پیدا کیا۔

ڈاکٹر افتخار الزمان کہتے ہیں ’اعلیٰ سطح کے لیڈروں نے جس طرح کی تقریریں کیں اور طلبہ تحریک کو اہمیت نہیں دی۔ اس سے لگتا ہے انھوں نے تاریخ سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔‘

جس طرح انھوں نے پچھلی تمام تحریکوں کو دبایا تھا، اس بار بھی انھوں نے ایسا ہی کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن جیسے ہی طلبا نے احتجاج جاری رکھا ان کے لیے عوامی حمایت سامنے آئی۔ طاقت کے ناجائز استعمال اور تحریک کو دبانے کے لیے طاقت کے استعمال سے عوام میں ناراضگی پیدا ہوئی ہے۔ اس کے نتیجے میں عام لوگوں نے بے ساختہ حکومت کے خلاف احتجاج میں حصہ لیا۔

عوامی لیگ کے رہنماؤں اور وزرا نے ہمیشہ یہ دعویٰ کر کے حقیقت سے انکار کیا ہے کہ تحریک کے پیچھے ’جماعت کا کیمپ‘ ہے۔ یہاں تک کہ انھوں نے عجلت میں جماعت اسلامی کو کالعدم قرار دے دیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے ایسے الزامات لگائے کہ طلبہ تحریک کو غیر ممالک سے مدد مل رہی ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت نے اپوزیشن کے ساتھ جو سلوک روا رکھا تھا، ان کے مخالفین نے اس تحریک میں پس پردہ کردار ادا کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں تحریک نے زور پکڑا اور تشدد پورے ملک میں پھیل گیا۔

بعد میں حکومت نے مذاکرات کی بات کی لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ تب تک یہ کوٹہ اصلاحات کی تحریک سے آگے بڑھ کر عوامی غصے کی تحریک میں تبدیل ہو چکی تھی۔

شیخ حسینہ کے بیٹے اور ان کے سابق انفارمیشن ٹیکنالوجی ایڈوائزر سجیب واجد جوئے نے بھی بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کوٹے کی تحریک حکومت کا تختہ الٹنے کا باعث بنے گی۔‘

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عوامی لیگ کی اعلیٰ قیادت شروع میں طلبہ کے مطالبات کو خاطر میں نہیں لائی، بعد میں عام لوگوں کے مطالبات ان مطالبات کے ساتھ شامل ہو گئے اور وہ بھی اس تحریک کا حصہ بن گئے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق عوامی لیگ کی حکومت کی اعلیٰ قیادت کی بے حسی، غلط فیصلے اور تبصرے اس ساری صورتحال کو تباہ حالی تک لانے کے لیے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ عوامی لیگ کی مختلف تنظیموں، میڈیا اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے حکومت کے غیر معقول اور غیر دانشمندانہ فیصلوں کی حمایت کی ہے۔

ڈاکٹر افتخار الزمان کہتے ہیں ’عوامی لیگ کے لوگوں اور مختلف تنظیموں نے دن بہ دن حکومت کی غیر منصفانہ سرگرمیوں کی حمایت کی اور یہی چیز سب کے لیے تباہی کا باعث بنی۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US