مودی نہیں تو کون؟ انڈیا کے طاقتور حکمران کی جانشینی کا سوال جو اب ان کے حامی بھی پوچھ رہے ہیں

پان کی دکان ہو یا چائے کی دکان، ٹوٹی پھوٹی سڑک پر ٹمپو کی ہچکولے یا بادلوں کے پار اڑنے والے طیارے، برسوں سے نریندر مودی کے حامیوں میں یہ سوال رہا ہے کہ مودی نہیں تو کون؟

پان کی دکان ہو یا چائے کی دکان، ٹوٹی پھوٹی سڑک پر ٹمپو کی ہچکولے یا بادلوں کے پار اڑنے والے طیارے، برسوں سے نریندر مودی کے حامی بھی یہ سوال کر رہے ہیں کہ ’مودی نہیں تو کون؟‘

پہلے یہ سوال پوچھا جاتا تھا کہ اپوزیشن میں کون ہے جو مودی کی جگہ لے سکتا ہے، اب یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ بی جے پی میں کون ہے جو ان کی جگہ لے سکتا ہے۔

تیسری بار وزیراعظم بننے والے نریندر مودی اگلے سال 75 سال کے ہو جائیں گے اور ان کے بارے میں مختلف بیانیے گشت کر رہے ہیں۔

رواں سال مئی میں دہلی کے وزیر اعلیٰ اور عام آدمی پارٹی کے رہنما اروند کیجریوال تہاڑ جیل سے ضمانت پر باہر آئے تو انھوں نے بی جے پی کے بارے میں کئی سوال کیے۔

ایک سوال ایسا تھا جس پر وزیر داخلہ امِت شاہ اور وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی اپنا مؤقف پیش کرنا پڑا۔

یہ تمام بیانات 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج آنے سے پہلے کے ہیں کیونکہ نتائج کے بعد بی جے پی کا 400 کو پار کرنے کا خواب ٹوٹ گیا ہے۔

تو کیا انتخابی نتائج کے بعد اب بی جے پی ایک نئے رہنما کے بارے سوچ رہی ہے؟ بی جے پی کے اندر نریندر مودی کی جگہ کون لے سکتا ہے اور اس میں آر ایس ایس یعنی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا کیا کردار ہو گا؟

خیال رہے کہ آر ایس ایس کو عرف عام میں سنگھ کہا جاتا ہے۔ آر ایس ایس یعنی سنگھ کا کردار اس لیے بھی اہم ہے کہ ماہرین کے مطابق جب بی جے پی کمزور ہوتی ہے تو پارٹی میں آر ایس ایس کا کردار بڑھ جاتا ہے۔

بہت سے سیاسی ماہرین اور واقعات نے ان قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے کہ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے درمیان سیاسی رسہ کشی جاری ہے۔

مودی
Getty Images
انڈین وزیر اعظم اگلے سال 75 سال کے ہونے والے ہیں

75 سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ کی بات کہاں سے آئی؟

جب نریندر مودی 2014 میں وزیر اعظم بنے تو ایل کے اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی جیسے سرکردہ لیڈروں کو پارلیمانی بورڈ یا کابینہ میں جگہ نہیں دی گئی۔ دونوں لیڈروں کو ’مارگدرشک منڈل‘ یعنی رہنمائی کرنے والے گروپ میں رکھا گیا۔ اڈوانی اس وقت 86 اور جوشی 80 سال کے تھے۔

جون 2016 میں مدھیہ پردیش کابینہ کی توسیع کے دوران 75 سالہ بابولال گوڑ اور سرتاج سنگھ کو وزرا کے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ اسی طرح 80 سالہ سابق لوک سبھا سپیکر سمترا مہاجن کو بھی کوئی ذمہ داری نہیں دی گئی، ہماچل پردیش کے تجربہ کار لیڈر شانتا کمار کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔

امت شاہ نے اس وقت کہا تھا کہ ’پارٹی میں نہ تو ایسا کوئی اصول ہے اور نہ ہی روایت ہے کہ 75 سال کی عمر کو عبور کرنے والے لیڈروں کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہ دی جائے۔‘

کرناٹک کے یدیورپا اس معاملے میں ایک مثال ہیں جو 80 سال کی عمر عبور کرنے کے بعد بھی ریاست میں بی جے پی کی قیادت کر رہے تھے۔

بی جے پی نے سنہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں 91 سالہ اڈوانی اور 86 سالہ جوشی کو ٹکٹ نہیں دیا۔

اپریل 2019 میں دی ویک کو دیے گئے ایک انٹرویو میں امت شاہ نے کہا تھا کہ ’75 سال سے زیادہ عمر کے کسی شخص کو بھی ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ یہ پارٹی کا فیصلہ ہے۔‘

ایک اور پرانی ویڈیو میں شاہ یہ کہتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ ’75 سال سے زیادہ عمر کے لیڈروں کو ذمہ داری نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔‘

حالانکہ ماضی میں کلراج مشرا، نجمہ ہپت اللہ اور اب جیتن رام مانجھی 75 سال کی عمر عبور کرنے کے بعد بھی مودی کابینہ میں جگہ بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ ان میں مانجھی کا تعلق بی جے پی سے نہیں ہے لیکن ان کی پارٹی حکمراں اتحاد کا حصہ ہے۔

مرلی منوہر جوشی، لال کرشن اڈوانی اور نریندر مودی
Getty Images
2019 کے انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کے بعد مرلی منوہر جوشی، لال کرشن اڈوانی اور نریندر مودی

کیا مودی خود ’75 سال کی حد‘ پر عمل کریں گے؟

مودی کی انتخابی حکمت عملی سے ماضی میں تعلق رکھنے والے پرشانت کشور نے ایک انٹرویو میں کہا: ’مودی جی نے یہ اصول بنایا ہے، اس لیے یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ اس اصول پر عمل کریں گے یا نہیں؟‘

آر ایس ایس اور بی جے پی کے نظریے کے حامی ڈاکٹر سرووکمل دتہ نے بی بی سی کو بتایا: ’75 سال کے ہونے کے بعد، یہ وزیر اعظم پر منحصر ہے کہ وہ اس پر غور کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ یہ ان کی ذاتی رائے ہو گی، اس میں تنظیم یا نظریے کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔‘

سینیئر صحافی وجے ترویدی نے بی جے پی، آر ایس ایس، اٹل بہاری واجپئی اور یوگی آدتیہ ناتھ پر کتابیں لکھی ہیں۔

وجے ترویدی نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ ’ایسا نہیں لگتا کہ مودی 75 سال کی عمر میں اپنی مدت پوری نہ کریں یا آر ایس ایس بھی کسی اور کو چاہتا ہے۔‘

جبکہ صحافی راکیش موہن چترویدی کا کہنا ہے کہ ’نریندر مودی اس وقت کافی سرگرم ہیں، ایسا لگتا ہے کہ 2029 تک کنٹرول نریندر مودی کے ہاتھ میں رہے گا۔‘

تاہم سیاست اتفاقات سے بھری پڑی ہے۔ خاص طور پر بی جے پی اور آر ایس ایس کے معاملے میں تو کچھ بھی ہونے کی تیاری بہت پہلے سے شروع ہو جاتی ہے۔

’سنگھم شرنم گچھامی‘ کتاب کے مصنف وجے ترویدی کہتے ہیں: ’ابھی نمبر ون کی لڑائی نہیں چل رہی۔ میرے خیال میں تلاش شروع ہو گئی ہو گی۔ آر ایس ایس کے بارے میں ہم جو سمجھتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ دوررس فیصلوں اور پالیسیوں پر انحصار کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آر ایس ایس بھی مودی کے علاوہ کسی اور قیادت کی تلاش میں ہے۔‘

تو کیا واقعی آر ایس ایس نے تیاری شروع کر دی ہے اور یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ گذشتہ 10 سالوں میں آر ایس ایس، بی جے پی اور نریندر مودی کے درمیان تعلقات کیسے رہے ہیں۔

آر ایس ایس، بی جے پی اور مودی

’وہ آسمان میں جتنی چاہیں چھلانگ لگا لیں لیکن انھیں زمین پر واپس آنا پڑے گا‘

یہ بات آر ایس ایس کے دوسرے سربراہ سرسنگھ چالک مادھو راؤ گولوالکر نے ان رضاکاروں کے لیے کہی جو نئی تشکیل شدہ سیاسی جماعت ’جن سنگھ‘ میں شامل ہوئے تھے۔

اپریل 1980 میں ’جن سنگھ‘ کی جگہ بھارتیہ جنتا پارٹی وجود میں آئی۔

گولوالکر کے بیان کو کئی دہائیاں گزر چکی ہیں، لیکن آر ایس ایس نے ماضی میں اپنے لیڈروں کو ’آسمان سے زمین پر‘ لانے کی کئی مثالیں پیش کی ہیں۔

بلراج مدھوک، جسونت سنگھ، لال کرشن اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی ایسی ہی کچھ مثالیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب یہ بڑے لیڈر آر ایس ایس پر بوجھ بننے لگے تو آر ایس ایس نے انھیں نیچے لانے میں دیر نہیں کی۔

آر ایس ایس کا اب بھی وہی موقف نظر آتا ہے۔ اس بابت آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے حالیہ دو بیانات پر غور کریں۔

موہن بھاگوت کے یہ دونوں بیان لوک سبھا انتخابی نتائج کے بعد آئے ہیں۔

ان بیانات میں کہیں بھی پی ایم مودی کا نام نہیں لیا گیا ہے، آر ایس ایس سے آنے والے پیغامات روایتی طور پر ایسے ہیں کہ یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کس کے ہیں، لیکن یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ ان بیانات کا پی ایم مودی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

آر ایس ایس سے جڑے کئی لوگوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ان انتخابات میں آر ایس ایس نے بی جے پی کے لیے وہ کام نہیں کیا جیسا کہ اس نے پہلے کیا تھا۔

آر ایس ایس کا سب سے اہم کام ووٹروں میں ایسی رائے اور ماحول بنانا ہے جو بی جے پی کے حق میں جائے۔

یہ آر ایس ایس ہی تھا جس کی رضامندی سے نریندر مودی سنہ 2013 میں وزیر اعظم کے عہدے کی دوڑ میں خود کو آگے لانے میں کامیاب ہوئے تھے۔

پھر آر ایس ایس سربراہ کے بیانات میں کچھ لوگوں کو نریندر مودی کے لیے اشارے نظر آئے اور فاصلے بڑھنے کی قیاس آرائیاں ہونے لگیں کہ آر ایس ایس نے 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی اتنی مدد کیوں نہیں کی جتنی اس نے 2019 یا 2014 میں کی تھی؟

موہن بھاگوت
Getty Images
آر ایس ایس یعنی سنگھ کے موجودہ سربراہ موہن بھاگوت

آر ایس ایس اور مودی کے درمیان دوری کی بات کہاں سے آگئی؟

مئی 2024 میں بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈّا نے 'انڈین ایکسپریس' کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا: 'شروع میں ہم میں کم صلاحیت ہوگی، ہم کچھ کم ہوں گے۔ آر ایس ایس کی ضرورت تھی، آج ہم بڑے ہو گئے ہیں۔ اگر ہم قابل ہیں تو بی جے پی خود چلاتی ہے۔'

ماہرین کا کہنا ہے کہ نڈّا کے اس بیان پر آر ایس ایس میں کافی غصہ ہے۔

ایک اخبار کے ایڈیٹر نے بی بی سی کو بتایا: 'اس بار نڈّا کے بیان کی وجہ سے آر ایس ایس میں غصہ تھا۔ انتخابات کے دوران ہونے والا تربیتی کیمپ بھی اس بار ملتوی نہیں کیا گیا۔ اگر آپ آر ایس ایس کے کسی فرد سے بات کریں گے تو وہ آپ کو بتائے گا۔ انھووں نے مدھیہ پردیش میں سخت محنت کی کیونکہ شیوراج سنگھ چوہان نے ہمیشہ ان کی عزت کا مظاہرہ کیا ہے۔'

لیکن ناراضگی صرف اس تک محدود نہیں ہے۔

سات جون سنہ 2024 کو نتیش کمار نے پرانی پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں کہا تھا: 'ہماری پارٹی جے ڈی یو وزیر اعظم کے عہدے کے لیے بی جے پی پارلیمانی پارٹی کے لیڈر نریندر مودی کی حمایت کرتی ہے۔

کیا اس بار بی جے پی کی پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ ہوئی، جس میں نتیش مودی کے لیڈر ہونے کی بات کر رہے تھے؟

بی جے پی-آر ایس ایس اتحاد کی کوریج کرنے والے ایک سینیئر صحافی نے بی بی سی سے بات چیت میں دعویٰ کیا: ’چار جون کی شام کو بی جے پی تنظیم کے ایک اعلیٰ رہنما اور کابینہ کے ایک سینیئر وزیر دہلی میں آر ایس ایس کے دفتر سے ملنے گئے۔ کہا گیا کہ آپ پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلائیں اور اپنا لیڈر منتخب کریں۔ پھر اسے آر ایس ایس کی جانب سے ایک اشارہ سمجھا گیا۔‘

اس کے بعد بی جے پی پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ نہیں بلائی گئی لیکن این ڈی اے کی میٹنگ ہوئی۔

بی جے پی کی ویب سائٹ پر 2024 کے انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد این ڈی اے کی میٹنگ سے متعلق ایک پریس ریلیز جاری کی گئی لیکن اس سے قبل سنہ 2019 میں 303 سیٹیں جیتنے کے بعد انتخابی نتائج کے اگلے دن 24 مئی کو بی جے پی پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ ہوئی تھی نہ کہ این ڈی اے کی میٹنگ۔

ذرائع کے مطابق ’آر ایس ایس کے لوگ غیر رسمی طور پر کہتے ہیں کہ 240 سیٹوں میں سے 140 ایم پی ہمارے ہیں۔ اگر بی جے پی کی میٹنگ ہوتی تو شاید وہ منتخب نہ ہوتے، اسی لیے انھوں نے وہ میٹنگ نہیں بلائی۔ اگلے دن چندرا بابو نائیڈو اور نتیش کو بلایا گیا اور این ڈی اے کا معاملہ شروع کیا گیا۔ آر ایس ایس کو یہ بات پسند نہیں آئی کہ آپ نے خود کو مسلط کیا ہے۔‘

آر ایس ایس کی ناراضگی اور منانے کی کوشش

اگر آر ایس ایس کو سمجھنے والوں پر یقین کیا جائے تو آر ایس ایس فرد سے زیادہ تنظیم کو اہمیت دیتا ہے۔

سینیئر صحافی اور 'دی آر ایس ایس: آئیکونز آف انڈین رائٹ' نامی کتاب کے مصنف نیلنجن مکوپادھیائے نے بی بی سی ہندی کو بتایا: 'ایک بات جو واضح ہے وہ یہ ہے کہ مودی جی سے ناراضگی ہے۔ لیکن سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ آر ایس ایس مودی کا نام لیے بغیر تنقید کر رہا ہے۔'

لیکن یہ ماننا درست نہیں ہوگا کہ مودی اور آر ایس ایس کے درمیان فاصلے بہت بڑھ گئے ہیں۔

2024 کی انتخابی مہم کے دوران مودی کے 10 سال میں پہلی بار ناگپور میں رات گزارنے کی خبریں آئی تھیں۔

مکوپادھیائے کہتے ہیں: 'تنظیم سے زیادہ فرد کو اہمیت دینا، اور مودی کلٹ کو فروغ دینا ناراضگی کی ایک بڑی وجہ ہے۔'

جے پی نڈّا کو مودی اور شاہ کا آدمی سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں نڈا کے بیان کو بھی سنجیدگی سے لیا گیا اور اسے ان کا مکمل ذاتی بیان نہیں سمجھا گیا۔

تاہم، جولائی 2024 میں بی جے پی کی طرف سے آر ایس ایس کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے کی کوشش بھی دیکھنے میں آئی۔

مودی حکومت نے سرکاری ملازمین پر آر ایس ایس یعنی آر ایس ایس کا رکن بننے پر لگائی گئی پانچ دہائیوں پرانی پابندی کو ہٹا دیا۔

آر ایس ایس-بی جے پی سے جڑے ذرائع نے کہا: ’بی جے پی یہ دکھانا چاہتی ہے کہ کم سیٹوں کی وجہ سے کچھ نہیں بدلا ہے۔ نہ کوئی وزیر بدلا ہے، نہ سپیکر بدلا ہے، نہ صدر بدلا ہے، لیکن بی جے پی جانتی ہے کہ آر ایس ایس ناراض ہے۔ اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے، بی جے پی نے ’تھوڑا سا پچکار دیا ہے۔‘

آر ایس ایس کے ترجمان سنیل امبیکر نے بھی حکومت کے قدم کی تعریف کی۔

لیکن شاید آر ایس ایس کا غصہ اتنا تھا کہ 9 جولائی کو جاری ہونے والے اس حکم کے بعد بھاگوت نے 18 جولائی کو سپرمین اور بھگوان کی طرح بیان جاری کر دیا۔

مکوپادھیائے کہتے ہیں: ’اس پابندی کو ہٹانے کے بعد بھاگوت کے بیان سے لگتا ہے کہ مودی جی کو وہ فائدے نہیں ملے ہیں جو ملنا چاہیے تھے۔ آر ایس ایس کے بیانات کو غور سے دیکھتے رہنے کی ضرورت ہے۔ دیکھا جائے کہ تنقید کب کسی اور کو بٹھانے کی کھلی دعوت میں بدل جاتی ہے۔‘

راہل گاندھی اور اکھلیش یادو
Getty Images
حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی اور سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو

تلاش، تیاری اور تکرار

ایک طرف آر ایس ایس کی طرف سے ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ وہ نریندر مودی سے ناراض ہیں تو دوسری طرف ملک کے قومی سیاسی سٹیج پر راہل گاندھی، اکھلیش یادو جیسے لیڈروں کا ابھرنا ہے۔

مودی کی بڑھتی عمر کے تقاضے کے ساتھ عوام کے بدلتے رجحانات اور وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کا اپنے اتحادیوں کے تعاون سے چلنے جیسی چیزیں سامنے آئی ہیں۔

اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ فی الحال تو مودی کو ہٹانے جیسا کچھ نہیں ہوگا لیکن اگلے چہرے کی تلاش اور تیاریاں شروع ہو چکی ہیں۔

یوگی آدتیہ ناتھ کے بارے میں ماضی میں اتر پردیش میں کی جانے والی قیاس آرائیوں سے اسے مزید تقویت ملی ہے۔

اترپردیش میں بی جے پی کے ایک ایم ایل اے نے بی بی سی ہندی کو بتایا: 'آج چوراہے پر بیٹھا آدمی بھی جانتا ہے کہ بابا (یوگی آدتیہ ناتھ) کوئی کام کرتے ہیں تو دہلی کا نمبر 2 (امت شاہ) انھیں پریشان کرتا ہے۔'

الہ آباد یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ڈاکٹر پنکج کمار نے بی بی سی کو بتایا: 'امت شاہ بھی سوچ رہے ہیں کہ یوگی کو کیسے ہٹایا جائے۔ انھیں مناسب موقع نہیں مل رہا۔ امت شاہ کے پاس انتظامی اختیارات ہوں گے لیکن عوام کی نظر میں شاہ ٹھیک نہیں ہیں۔'

بی جے پی پر نظر رکھنے والے ایک سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ ’بی جے پی کو پسند کرنے والے ووٹرز کے نزدیک مودی کے بعد یوگی ہی ہیں۔ نہ صرف یوپی بلکہ دیگر ریاستوں میں بھی۔ یوگی کی اپیل امت شاہ سے زیادہ ہے۔ یہ بات یوگی کو بھی معلوم ہے۔'

یوگی آدتیہ ناتھ بی جے پی کے سٹار پرچارکوں میں شامل ہیں۔ ناتھ فرقہ گورکھ دھام مٹھ کے مہنت ہونے کی وجہ سے یوگی ملک کے مختلف حصوں میں بھی مقبول ہیں۔

آر ایس ایس کی طرف جھکاؤ رکھنے والے ڈاکٹر سرووکمل دتہ کہتے ہیں: 'کسی بھی فعال پارٹی میں اسے صحت مند مقابلہ کہا جاتا ہے، لڑائی نہیں۔ یہ ضروری اور مثبت ہے۔'

یوگی بمقابلہ شاہ؟

ہم نے آر ایس ایس، بی جے پی، ذرائع اور کئی سینیئر صحافیوں سے بات کی۔ زیادہ تر لوگوں کا کہنا ہے کہ اس وقت لڑائی یوگی اور شاہ کے درمیان چل رہی ہے۔

ایسے میں آر ایس ایس کہاں نظر آتا ہے؟

ایک روزنامہ کے ایڈیٹر نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ ’آر ایس ایس یوگی کے ساتھ ہے۔ نمبر-2 چاہتا ہے کہ اگر یوگی دست بردار ہو جائے تو لڑائی ختم ہو جائے گی۔ لیکن یوگی کے ساتھ آر ایس ایس کا ہاتھ اتنا مضبوط ہے کہ ان کے لیے ہٹنا مشکل ہے۔'

بی جے پی سے وابستہ ذرائع کا کہنا ہے کہ ’مودی چاہتے ہیں کہ امت شاہ ان کی جگہ لیں۔ یہاں سے شاہ یوگی کے کام میں مداخلت کرتے ہیں۔ دوسری طرف یوگی ان کے اپنوں کو جھٹکا دیتے ہیں۔'

ان میں اعلیٰ انتظامی عہدیداروں کے معاملے میں رسہ کشی۔ یوپی میں سمارٹ میٹر لگانے کی ریس میں اڈانی کی موجودگی کے باوجود ان کا ٹینڈر منسوخ ہونا شامل ہے۔

یہ کچھ ایسے واقعات ہیں، جن کے ذریعے یوگی بمقابلہ مودی حکومت کے درمیان فاصلے کی نشاندہی ہوتی ہے۔

سینیئر صحافی راکیش موہن چترویدی کا کہنا ہے کہ 'اب جو نام ہیں ان میں یوگی اور شاہ کا نام آتا ہے'۔ یوگی ہندوتوا کا چہرہ ہیں جبکہ امت شاہ نے مودی کے منصوبوں کو نافذ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

بی جے پی سے متعلق بڑے فیصلوں کے پیچھے آر ایس ایس کا ہاتھ رہا ہے۔ اب چاہے 2009 میں نتن گڈکری کو بی جے پی کا صدر بنانا ہو، یوگی کو یوپی میں سی ایم بنانا یا جون 2005 میں محمد علی جناح کو سیکولر کہنے کے بعد اڈوانی سے بی جے پی صدر کی کرسی چھیننا۔

یوگی اور شاہ کا تذکرہ کرتے ہوئے صحافی وجے ترویدی کہتے ہیں: ’میرا خیال ہے کہ جب بھی کوئی فیصلہ لیا جائے تو آر ایس ایس کی رضامندی، رہنما اصولوں اور باہمی بات چیت سے فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔'

موہن بھاگوت
Getty Images
آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت

سنگھ کس طرف ہے؟

ایسے میں اب سوال یہ ہے کہ اگر یوگی بمقابلہ شاہ کے بارے میں قیاس آرائیاں درست مان لی جائیں تو آر ایس ایس کس طرف جھکے گا؟

آر ایس ایس ان مسائل پر سرکاری یا عوامی سطح پر کوئی تبصرہ نہیں کرتی ہے۔

آر ایس ایس میں ایک اہم عہدہ پر فائز ایک شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی ہندی کو بتایا: 'وقت آنے پر بی جے پی فیصلہ کرے گی کہ کس پر اتفاق رائے ہو گا۔ اگر بی جے پی کو ان تمام معاملات میں کسی حمایت کی ضرورت ہے تو آر ایس ایس کے عہدیدار ان سے رابطے میں رہتے ہیں۔ وہ اس موضوع پر بات کریں گے۔ جو بھی تجاویز دینے کی ضرورت ہے، وہ تجاویز دی جائیں گی۔ حتمی فیصلہ بی جے پی کو کرنا ہوگا۔'

انھوں نے کہا کہ ہمیں نہیں لگتا کہ کوئی تبدیلی ہو رہی ہے۔ لوگ باتیں کرتے رہیں گے اور اپنے اندازے لگاتے رہیں گے۔

ہم نے آر ایس ایس کے حامی ڈاکٹر سرو کمل دتہ سے اس اندازے کے بارے میں پوچھا۔

انھوں نے کہا: 'بنیادی طور پر، میرے خیال میں مہنت یوگی آدتیہ ناتھ جی ہیں۔ ان کے علاوہ ہیمنتا بسوا سرما، شیوراج سنگھ چوہان، پیوش گوئل، انوراگ ٹھاکر جیسے کئی اور لیڈر ہیں۔

آپ نے کئی نام لیے، لیکن امت شاہ کا نام نہیں لیا؟

اس سوال پر ڈاکٹر دتہ جواب دیتے ہیں: ’میرے خیال میں امت شاہ جی مودی جی کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں، پورے ملک میں انھیں پہچانا جاتا ہے۔ ان کی شبیہ، یو ایس پی ایک انتہائی کٹر لیڈر کی ہے۔ انھیں دوسری صف میں شمار کرنا مناسب نہیں۔'

یوگی اور شاہ: سنگھ کے نقطہ نظر سے

بی جے پی تنظیم میں امت شاہ کی مضبوط گرفت ہے۔

ذرائع کے مطابق شاہ کا خیال ہے کہ تنظیم میں ان کے اپنے لوگوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد ہونی چاہیے تاکہ کل ضرورت پڑنے پر پارٹی میں زیادہ سے زیادہ لوگ شاہ کے حق میں بات کریں۔

شاہ اور مودی کو الگ الگ نہیں دیکھا جا سکتا۔ دونوں پرانے دوست ہیں۔

تاہم، شاہ کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ ذات پات یا مقبولیت کے عوامل نہیں ہیں، جو یوگی کے ساتھ ہیں۔

سینیئر صحافی پردیپ سنگھ نے بی بی سی کو بتایا: 'یوگی آدتیہ ناتھ تنظیم سے اٹھنے والے فرد نہیں ہیں۔ بی جے پی میں ان کا کبھی کوئی دخل یا کردار نہیں رہا۔ تنظیم کے عہدیدار یوگی کو قبول نہیں کر پا رہے ہیں۔'

اتل چندر اور شرت پردھان اپنی کتاب میں یوگی آدتیہ ناتھ کے پیچھے آر ایس ایس کے کردار پر تفصیل سے لکھتے ہیں۔

اپنی کتاب 'یوگی آدتیہ ناتھ' میں وہ لکھتے ہیں کہ 'ہندوتوا کی آواز اور مضبوط آواز ہونے کے ناطے یوگی آدتیہ ناتھ کو آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کا آشیرواد حاصل ہے۔'

کتاب کے مطابق: 'سنہ 2017 میں بھاگوت نے ہی مودی کو قائل کیا تھا کہ بھگوا پوش مہنت یوگی آدتیہ ناتھ یوپی میں آئی آئی ٹی گریجویٹ لیڈر منوج سنہا سے بہتر سیاسی داؤ ثابت ہوں گے۔ اس سے یوپی میں پارٹی کا ہندوتوا ایجنڈا واضح ہوگا۔

یوگی یوپی اور انڈیا کو ہندو راشٹر بنانے یا بنائے جانے کے بارے میں بیانات دیتے رہے ہیں۔

کتاب 'مایا، مودی، آزاد' کے مصنفین اور سیاسی ماہرین سدھا پائی اور سجن کمار نے 2017 میں ایک مضمون لکھا تھا۔

اس آرٹیکل کے مطابق: 'بی جے پی-آر ایس ایس کا مقصد صرف الیکشن جیتنا نہیں ہے بلکہ انڈیا کو مزید ہندو بنانا ہے۔ اس کا مقصد بڑے فسادات کے بغیر ہندوتوا کو عام لوگوں کی نظروں میں قابل قبول بنانا اور مسلمانوں کو دوسرے کے طور پر پیش کرنا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ یہ کام کامیابی سے کر رہے ہیں۔ ایسے میں آر ایس ایس نے یوگی کو اس معاملے میں ایک کامیاب شخص مانا۔'

صحافی وجے ترویدی کہتے ہیں: 'بی جے پی نے یوگی کو پورے ملک میں انتخابی مہم کے لیے بھیجا۔ ساتھ ہی یوپی میں اقتدار کی کشمکش میں آر ایس ایس یوگی کے ساتھ کھڑا نظر آیا۔ ایسے میں یوگی کے امکانات بہتر نظر آ رہے ہیں۔'

لیکن یوگی اور شاہ کے امکانات کے درمیان کچھ اور ناموں اور بدلتی سیاست پر بھی غور کرنا پڑے گا۔

ہندوتوا یا ذات پات؟

لوک سبھا انتخابات 2024 میں ذات پات ایک اہم مسئلہ رہا ہے۔ راہل گاندھی سمیت اپوزیشن کے کئی رہنما اب بھی ذات پات کی مردم شماری کا مسئلہ مسلسل اٹھا رہے ہیں۔

یوپی کے نتائج میں پسماندہ، دلت اور اقلیتی اتحاد کو سماج وادی پارٹی کی کامیابی کے لیے بہت اہم مانا جا رہا ہے۔

گذشتہ 10 سال کی سیاست ہندوتوا کے رتھ پر سوار نظر آئی تھی لیکن اب سیاست اپنا رتھ بدلتی نظر آرہی ہے۔

سینیئر صحافی نیرجا چودھری نے بی بی سی ہندی کے شو 'دی لینس' میں کہا کہ سیاسی مسئلہ کے طور پر مذہب پیچھے اور ذات آگے نظر آتی ہے۔

ماہرین کے مطابق اگر سخت ہندوتوا کا سانچہ بدل جاتا ہے اور بی جے پی لوک سبھا انتخابات کی طرح نیچے کی طرف جاتی رہی تو مودی-یوگی کا ٹیمپلیٹ بدلنا شروع ہو جائے گا۔ اگر معاملہ بدلتا ہے تو آر ایس ایس تیسرے شخص کو بھی لا سکتا ہے۔

راج ناتھ سنگھ، نریندر مودی، امت شاہ، نتن گڈکری اور شو راج سنگھ چوہان
Getty Images
دائیں سے بائيں: راج ناتھ سنگھ، نریندر مودی، امت شاہ، نتن گڈکری اور شو راج سنگھ چوہان

مودی، یوگی، شاہ نہیں تو اور کون؟

سینیئر صحافی راکیش موہن چترویدی کہتے ہیں: ’ایک گڈکری اور دوسرے راج ناتھ سنگھ ہیں۔ دونوں افراد اس سے قبل پارٹی کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔ راج ناتھ مودی کی عمر کے ہیں۔ گڈکری ذرا جوان ہیں۔ وہ مقبول ہیں اور آر ایس ایس سے بھی ان کے تعلقات ہیں۔ شیوراج سنگھ چوہان لمبے عرصے تک وزیر اعلیٰ رہے ہیں، اس لیے ان کا شمار بھی مقبول رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ ان کے پاس بھی بہت زیادہ صلاحیت ہے۔

تاہم پارٹی سے وابستہ ذرائع نے دعویٰ کیا کہ ’مودی اور شاہ نے بی جے پی کے اندر اپنے لوگ بھر لیے ہیں۔ وہ گڈکری یا شیوراج سنگھ کو آگے نہیں کریں گے۔'

صحافی وجے ترویدی کہتے ہیں: ’سوال یہ ہے کہ کیا ہندوتوا کی سیاست غالب رہے گی یا دیگر پسماندہ اور او بی سی سیاست پر اثر انداز ہو گی؟ یہ دونوں چیزیں جانشین کے نام پر بھی اثر انداز ہوں گی۔ ذات پات کی سیاست جب سامنے آتی ہے تو دستیاب ناموں میں شیوراج سنگھ چوہان کا نام آگے نظر آتا ہے۔

2029، سنگھ، بی جے پی اور جانشین

جانشین اکثر اپنے لوگوں کو بنایا جاتا ہے اور سیاست میں 'اپنے' کی تعریف بدلتی رہتی ہے۔

صحافی پورنیما جوشی کہتی ہیں کہ مودی جیسے لیڈر کسی اور کو پنپنے نہیں دیتے۔

لیکن یہیں سے آر ایس ایس کا کردار اور تیاری شروع ہوتی ہے۔

نیلنجن مکوپادھیائے کہتے ہیں: 'آر ایس ایس اور بی جے پی کے درمیان آج کوئی ہنی مون جاری نہیں ہے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آر ایس ایس سے منسلک تنظیمیں جیسے اے بی وی پی، ٹریڈ یونین اور کسان تنظیمیں کس حد تک عوامی غصہ کا اظہار کر رہی ہیں۔'

اس کو سمجھنے کے لیے چند دن پیچھے چلتے ہیں۔ 27 جولائی 2024 کو دہلی میں چیف منسٹر کونسل کی میٹنگ ہوئی۔

اگرچہ انجانے میں ہی سہی لیکن امت شاہ اور یوگی آدتیہ ناتھ میز پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے۔

نریندر مودی اور بی جے پی صدر جے پی نڈا دونوں لیڈروں کے درمیان بیٹھے تھے۔

کچھ لوگوں کو یہ تصویر ریس کی شروعاتی لائن کی طرح لگ سکتی ہے کہ کسی لمحے بھی ایک کھٹ کی آواز ہو گی اور نمبر ون بننے کی دوڑ شروع ہو جائے گی۔

سیاست کے 'اولمپکس' میں اکثر گولڈ میڈل ایسے کھلاڑی بھی جیت لیتے ہیں جو ریس میں دوڑتے بھی نظر نہیں آتے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US