لکھنؤ اپنی تہذیب، ثقافت اور اپنے لذیذ کھانوں کے لیے مشہور ہے۔یہاں کے اہل ذوق نے طرح طرح کے کبابوں، بریانی اور پکوانوں کی ایسی قسمیں تخلیق کیں کہ ابوہ لکھنؤ کی شناخت بن گئے ہیں مگر ان لذیذ کبابوں اور یہاں کی مخصوص یخنی بریانیوں پر اب خطرے کے بادل منڈلا رہے ہیں۔

لکھنؤ میں شام ہوتے ہی فضا میں کوئلے اور تندور میں پکنے والے کبابوں اور دھیمی آنچ پر پکنے والی بریانی کی سوندھی خوشبو پھیل جاتی ہے اور کھانوں کے شوقین نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی طرف کھیچے چلے آتے ہیں۔
لکھنؤ اپنی تہذیب، ثقافت اور اپنے لذیذ کھانوں کے لیے مشہور ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ شہر کی وہ تہذیب تو معدوم ہو گئی لیکن یہاں کے اہل ذوق نے طرح طرح کے کبابوں، بریانی اور پکوانوں کی ایسی قسمیں تخلیق کیں کہ اب وہ لکھنؤ کی شناخت بن گئے ہیں۔
لکھنؤ میں تلسی کمپاؤنڈ کے نزدیککبابوں اور بریانیوں کے مرکز میں واقع معروف ریستوران نوشیجان کے مالک شمیل شمسی نے لکھنؤ کے کبابوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ذائقوں کی کہکشاں ہے‘ لیکن کوئلے پر پکنے والے ان لذیذ کبابوں اور یہاں کی مخصوص یخنی بریانیوں پر اب خطرے کے بادل منڈلا رہے ہیں۔
لکھنؤ کی مقامی انتظامیہ کی جانب سے حال میں شہر کے کوئلے سے کھانا بنانے والے تمام ریستورانوں اور دکانوں کو یہ کہا گیا ہے کہ فضائی آلودگی کو کم کرنے کی کوشش کے تحت وہ اب اپنے پکوان کوئلے پر نہیں بلکہ گیس پر پکائیں۔
انڈین ریاست اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ میں فضائی آلودگی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ مقامی انتظامیہ نے آلودگی پر قابو پانے کے لیے ماحولیات پر کام کرنے والے تحقیقی ادارے ’دا انرجی اینڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ‘ سے شہر کی فضا کا ایک مطالعہ کروایا تھا۔ اس ادارے نے اپنے مطالعے میں پایا کہ شہر کی ایئر کوالٹی بہت خراب ہوئی ہے۔
اسی مطالعے میں یہ بتایا گیا ہے کہ شہر کے ریستورانوں میں کوئلے کی جگہ گیس کے استعمال سے فضائی آلودگی میں خاصی کمی لائی جا سکتی ہے۔ اس رپورٹ کے بعد حال میں لکھنؤ کی میونسپل کارپوریشن نے شہر کے تمام ریستورانوں سے کہا ہے کہ وہ کھانا بنانے کے لیے کوئلے اور تندور کی جگہ گیس کے چولہے استعمال کریں۔

ریستورانوں کے مالکان اور کھانے کا ذوق رکھنے والے لوگ یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ کباب اور بریانی جیسے کھانے گیس پر پکانے سے ان کا اصل اور روایتی ذائقہ چلا جائے گا۔
امین آباد میں واقع شہر کے مشہور ’ٹنڈے کباب‘ ریستوران کے مالک محمد عثمان کہتے ہیں کہ یہ کباب اور بریانی صدیوں سے کوئلے پر پکتی چلی آئی ہے۔
’ان کے مخصوص ذائقے میں کوئلے کا اہم کردار ہے۔ ان میں سے کئی پکوان تندور میں بنتے ہیں۔ ہم بھی فضائی آلودگی کے بارے میں فکر مند ہیں اور انتظامیہ جو بھی فیصلہ کرے گی ہم اس پر عمل کریں گے لیکن ان لوازمات کے پکانے کے پہلوؤں کو بھی مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ مقامی انتظامیہ کو اس بارے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ اچانک اس طرح کے فیصلے سے مشکلیں پیدا ہو گی۔‘
’کوئلے والے کباب کا ذائقہ ہی الگ ہے‘
لکھنؤ میونسپل کارپوریشن کے فیصلے کے بعد کئی ریستوران مالکوں نے کوئلے کے ساتھ گیس سے چلنے والے چولہے بھی لگا دیے ہیں۔
پرانے شہر کے مرکزی چوک کے علاقے میں واقع ٹنڈے کباب کے سب سے پرانے ریستوران میں کوئلے کے تندوروں اور بھٹیوں کے ساتھ اب ایک بڑا سا گیس کا چولہا بھی نصب کر دیا گیا ہے۔
ریستوران کے مالک محمد ابوبکر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کوئلے پر بنے کباب کے ذائقے کا جو مزہ ہے وہ گیس میں نہیں۔ اب ہم گیس پر بھی کباب بنانے لگے ہیں لیکن بہت سے گاہک کہتے ہیں کہ گیس کے چولہے پر کباب اچھا نہیں بنتا آپ ہمیں کوئلے کے سینکے کباب دیجیے، کوئلے والے کباب کا ذائقہ ہی الگ ہے۔‘
مختلف اقسام کے کباب، پلاؤ ، يخنی بریانی اور خاص طرح کی روٹیاں، شیرمال اور پراٹھے لکھنؤ کی پہچان ہیں۔ ان لذیذ کھانوں کا ذوق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ انھیں گیس پر پکانے سے ان کا اصل ذائقہ چلا جائے گا۔
سوشل میڈیا انفلوئنسر صبا جعفری کہتی ہیں ’ کاکوری کباب، شامی کباب گٹھوا کباب، بوٹی کباب، گلاوٹی کباب، مجلسی کباب یہ سبھی لکھنؤ کی جان ہیں۔ اگر آپ انھیں گیس پر سینکیں گے تو یہ بہت ظلم ہو گا۔‘
ایک ریستوران میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ تندوری کبابوں کا لطف لینے والی غزالہ پروین کہتی ہیں کہ ’اصل لذت کوئلے سے ہی آتی ہے ۔۔۔ اس میں جو ذائقہ آئے گا وہ گیس میں کبھی نہیں آپائے گا۔ اتنے سال سے کوئلے پر پک رہا تھا تب ماحول آلودہ نہیں ہوا تھا۔ سڑک پر اتنی آلودگی ہے وہ دکھائی نہیں دیتی انھیں بس کوئلے سے دقت ہو رہی ہے۔‘
ایک خاتون منعل فضا نے ایک ریستوران میں بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا ’اگر گیس پر ہی کھانا ہو گا تو گھر پر ہی کھا سکتے ہیں یہاں کیوں آئیں گے۔ کوئلہ ایک ایسی چیز ہے جس سے کھانے میں دھوئیں کا ذائقہ آتا ہے۔ اس سے کھانے کا مزا دوبالا ہو جاتا ہے۔‘
لکھنؤ کے رہائشی جنید صدیقی کا کہنا ہے کہ ’جتنے بھی لکھنؤ کے روایتی کھانے ہیں ان کی یہ خاصیت ہے کہ وہ کوئلے اور لکڑی پر قدرتی طریقے سے پکائے جاتے ہیں۔‘

’گیس کی بھٹیاں رضاکارانہ ہیں، ہم نے کسی پر زبردستی نہیں کی‘
لکھنؤ کے میونسپل کمشنر اندجیت سنگھ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لکھنؤ کی پہچان ہی یہاں کے پکوانوں کا ذائقہ ہے۔ شہر میں تقریباً تین ہزار ریستوران کوئلے پر یہ روایتی پکوان تیار کر رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے ان کے مالکان سے بات کی ہے انھیں یہ آگاہی دینے کی کوشش کی ہے کہ کوئلے کے جلنے کی وجہ سے یہاں فضائی آلودگی بہت ہےجس سے وہاں کام کرنے والوں کی صحت کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے اور جو گاہک آتے ہیں ان کے لیے بھی یہ مضر ہے۔‘
اندجیت سنگھ کا کہنا ہے کہ ان ریستورانوں کے مالکان نے ہماری بات کو سجھا اور خود اپنی مرضی سے گیس کی بھٹیاں لگائی ہیں۔ ابھی تک 100 لوگ گیس کی بھٹیاں لگا چکے ہیں۔ یہ رضاکارانہ ہے، ہم کسی پر زبردستی نہیں کر رہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
’حکومتی اقدام کا ساتھ دیں گے لیکن جلد بازی کی ضرورت نہیں‘
لکھنو کے پرانے امام باڑے کے راستے کے دونوں جانب طرح طرح کے کبابوں، بریانیوں،شیرمال اور مختلف پکوانوں کے چھوٹے بڑے درجنوں ریستوران ہیں۔
یہاں کے معروف ریستوران ’کبابچی‘ کے مالک حامد حسین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہ حکومت جو بھی قدم اٹھائے گی ہم اس کا ساتھ دیں گے لیکن اس فیصلے میں جلد بازی کی ضرورت نہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ کھانے کی دکانوں سے ایک دم سے کوئلہ ہٹانا صحیح نہیں۔ خصوصاً ان سے جو ٹیکس ادا کرتی ہیں۔ لکھنؤ کے بہت سے ریستوران مالکان ٹھیلے پر کھانا بیچ رہے ہیں وہاں خریداروں کی قطار لگی ہوتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ذائقہ بکتا ہے۔ اس ذائقے کا اہم حصہ پانی تو دوسرا کوئلے کی آگ ہے۔ اس کا کوئی حل نکالنے کی ضرورت ہے۔‘
طاہرہ سعد رضوی کا تعلق فوڈ کیٹرنگ کا بزنس کرنے والے خاندان سے ہے ۔ انھوں نے کہا کہ یہاں فضائی آلودگی ایک مسئلہ ہے لیکن کوئلے پر پابندی سے اسے بہتر بنانے میں کتنی مدد ملے گی یہ ذرا مشکوک ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ انتظامیہ نے مکمل تحقیق کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا ہو گا کیونکہ اس کے مضمرات ہوں گے کیونکہ بہت سارے پکوان ایسے ہیں جنھیں تیار کرنے کے لیے ہم نے کوئلے کے بغیر کبھی تصور بھی نہیں کیا۔‘

لکھنو کے تلسی کمپاؤنڈ کے قریب بریانی اور کباب کے مشہور مرکز میں واقع نوشیجان ریستوران کے مالک شمیل شمسیاس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ کوئلے پر پابندی لگانے سے فضائی آلودگی بہتر ہو گی۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ قطعی ماحولیات کا معاملہ نہیں،یہ بالکل غلط بات ہے کہ لکھنؤ کی فضا اس سے آلودہ ہو رہی ہے۔
پرانے شہر کے چوک علاقے میں ایک مقبول ’ادریس بریانی‘ ریستوران ہے۔ یہاں لکھنؤ کی مخصوص يخنی بریانی بکتی ہے۔ اس پرانی طرز کے ریستوران کے باہر کوئلے کے تندوروں پر پانچ چھ دیگیں چڑھی رہتی ہیں۔
ادریس بریانی کے مالک محمد ابوبکر کہتے ہیں کہ ذائقہ تو خدا کے ہاتھ میں ہے لیکن حکومت کو چاہیے کہ وہ کوئی درمیانی راستہ نکالے۔
’ہمیں سماج میں بھی رہنا ہے اور یہ بھی دیکھنا ہے کہ حکومت عوام کے مفاد میں کیا اچھا کر رہی ہے۔ ہمیں حکومتی اقدام پر عمل تو کرنا ہی ہے مگر لکڑی کے کوئلے کے سلسلے میں اگر کچھ رعایت برتی جائے تو بہت بہتر ہے۔‘
ہمانشو باچپئی شہر کے ایک معروف داستان گو ہیں۔ وہ اپنی داستان گوئی میں لکھنؤ کی پرانی تہذیب و تمدن کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ یہاں آلودگی بڑا مسئلہ ہے لیکن حکومت کا ارادہ اگر واقعی صحیح ہے تو انتظامیہ پہلے ایک ٹھوس پلان کے تحت قدم اٹھائے اور شہر کے دریائے گومتی کو صاف کرے جہاں پورے شہر کا سیوریج اور کارخانوں کے فضلات گرتے ہیں۔ کوئلے سے بھی فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے مگر پہلے کارخانوں اور موٹر گاڑیوں سے ہونے والی آلودگی کو کم کرے۔ ‘
وہ کہتے ہیں کہ حکومتی اقدام سے روایتی طریقے سے نسل در نسل کھانا بنانے والوں میں بے چینی ہے لیکن وہ دھیرے دھیرے نئے طریقے میں ڈھل جائیں گے۔ لکھنؤ میں اتنے ہنر مند لوگ ہیں کہ وہ گیس پر بھی لذت اور ذائقہ نکال لیں گے۔
ریستورانوں کے مالکان رفتہ رفتہ اپنے یہاں گیس کا چولہا لگاتے جا رہے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ فضائی آلودگی کا معاملہ ایک حساس مسئلہ ہے اور جلد یا بدیر انھیں کوئلے کا استعمال بند کرنا ہو گا۔ اب ان کی توجہ پکوائی کے بدلتے طریقہ میں اپنے پکوانوں کے ذائقے کو برقرار رکھنے پر مرکوز ہے۔