شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش کے حوالے کرنے کی درخواست آئی تو انڈیا کیا کر سکتا ہے؟

شیخ حسینہ کی سیاسی مخالف خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے انڈیا سے کہا ہے کہ وہ شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش کے حوالے کرے۔ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کے خلاف گذشتہ دو ہفتوں میں جو مقدمات درج کیے گئے ہیں ان میں قتل اور اجتماعی قتل کے مقدمات شامل ہیں
بنگلہ دیش
Getty Images

بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد سے انڈیا میں مقیم ہیں۔

بنگلہ دیش کی نئی حکومت نے تو تاحال ان کی واپسی کا باقاعدہ مطالبہ نہیں کیا لیکن شیخ حسینہ کی سیاسی مخالف خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے انڈیا سے کہا ہے کہ وہ شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش کے حوالے کرے۔

تاہم دہلی میں مبصرین اورتجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کے خلاف متعدد مقدمات درج ہونے کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان حوالگی کے معاہدے کے تحت انھیں واپس بھیجنے کے امکانات کم ہیں۔

اس سوال پر کہ بنگلہ دیش کی حکومت کی جانب سے شیخ حسینہ کی حوالگی کی درخواست آئی تو انڈیا کیا کرے گا، وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا تھا، 'اگر ہم حوالگی کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو یہ مکمل طور پر مفروضے پر مبنی سوال ہے اور ایسی صورت حال میں کسی فرضی سوال کا جواب نہیں دیا جا سکتا۔'

فی الحال اس سوال کا جواب دینے سے گریز کرنے کے باوجود، انڈین حکام نے اس امکان کو رد نہیں کیا ہے کہ جلد یا بدیر ایسی درخواست ڈھاکہ سے آ سکتی ہے۔

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کی اعلیٰ قیادت نے بھی عندیہ دیا ہے کہ یہ معاملہ زیادہ دیر تک ’فرضی‘ نہیں رہے گا۔

بنگلہ دیش کے امورِ خارجہ کے مشیر ایم توحید نے گذشتہ ہفتے خبر رساں ادارے روئٹرز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا، ’وزارت داخلہ اور وزارتِ قانون شیخ حسینہ کے خلاف درج مقدمات کی بنیاد پر فیصلہ کریں گی کہ آیا انڈیا سے ان کی حوالگی کی درخواست کی جائے گی یا نہیں اور درخواست کی صورت میں دونوں ممالک کے درمیان حوالگی کے معاہدے کے تحت انھیں بنگلہ دیش کے حوالے کرنا ضروری ہو گا۔‘

بنگلہ دیش سے حوالگی کی درخواست آئی تو انڈیا کیا کر سکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ڈھاکہ بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ اس معاہدے کے تحت حوالگی کی درخواست کے باوجود شیخ حسینہ کو واپس لانا آسان نہیں ہو گا۔

شیخ حسینہ گذشتہ 50 برس سے انڈیا کے قابل اعتماد اور وفادار دوستوں میں سے ایک ہیں اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انڈیا انھیں عدالتی عمل کا سامنا کرنے کے لیے بنگلہ دیش کے حوالے نہیں کرے گا جہاں انھیں سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

دونوں ممالک کے اس معاہدے میں کئی ایسی شرائط یا دفعات ہیں، جن کی بنیاد پر انڈیا شیخ حسینہ کی حوالگی سے انکار کر سکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ درخواست کو قانونی پیچیدگیوں کی بنیاد بنا کر طویل عرصے تک زیر التوا بھی رکھا جا سکتا ہے۔

اس معاہدے کی ایک اہم شق میں کہا گیا ہے کہ جس شخص کی حوالگی کی جائے گی اس کے خلاف الزامات اگر سیاسی نوعیت کے ہوں تو درخواست کو مسترد کیا جا سکتا ہے۔

اس کے مطابق اگر کوئی جرم 'سیاسی تعلق' ہے تو ایسے معاملات میں حوالگی سے انکار کیا جا سکتا ہے۔

لیکن جن جرائم کو سیاسی نہیں کہا جائے گا ان کی فہرست بھی کافی طویل ہے اور ان میں قتل، اغوا، بم دھماکے اور دہشت گردی جیسے جرائم شامل ہیں۔

بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کے خلاف گذشتہ دو ہفتوں میں جو مقدمات درج کیے گئے ہیں ان میں قتل اور اجتماعی قتل کے مقدمات شامل ہیں اور اس کے علاوہ اغوا اور تشدد کے مختلف الزامات بھی ہیں نتیجتاً پہلی نظر میں انھیں سیاسی قرار دے کر مسترد کرنا مشکل ہے۔

اس کے علاوہ سنہ 2016 میں اصل معاہدے میں ترمیم کر کے ایک شق کا اضافہ کیا گیا جس سے منتقلی کا عمل بہت آسان ہو گیا۔ اس تبدیلی کا مقصد مفرور افراد کو جلد اور آسانی سے حوالے کرنا تھا۔

انڈیا بنگلہ دیش
Getty Images

ترمیم شدہ معاہدے کے سیکشن 10 (3) میں کہا گیا ہے کہ کسی ملزم کی حوالگی کی درخواست کرتے وقت، متعلقہ ملک کو ان الزامات کے حوالے سے کوئی ثبوت پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور صرف متعلقہ عدالت سے وارنٹ گرفتاری پیش کرنے کو ایک درست درخواست تصور کیا جائے گا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر عدالت بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کے خلاف کسی بھی مقدمے میں وارنٹ گرفتاری جاری کرتی ہے، تو بنگلہ دیشی حکومت صرف اسی بنیاد پر انڈیا سے ان کی حوالگی کی درخواست کر سکتی ہے۔

لیکن اس کے باوجود معاہدے میں ایسی کئی شقیں موجود ہیں جن کی مدد سے متعلقہ ملک کو حوالگی کی درخواست مسترد کرنے کا حق حاصل ہے۔

مثال کے طور پر، اگر اس شخص کے خلاف اس ملک میں کوئی مقدمہ زیر التوا ہے جس سے حوالگی کی درخواست کی گئی ہے، تو اس مقدمے کی بنیاد پر درخواست کو مسترد کیا جا سکتا ہے۔

تاہم شیخ حسینہ کے معاملے میں اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نہ تو ان کے خلاف انڈیا میں کوئی مقدمہ زیر التوا ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان ہے۔

ایک اور دفعہ کے تحت، اگر متعلقہ ملک یہ محسوس کرتا ہے کہ کسی شخص کے خلاف تمام الزامات 'عدالتی عمل کے مفاد میں اور نیک نیتی سے' نہیں لگائے گئے ہیں، تو اس صورت میں بھی اسے حوالگی کی درخواست کو مسترد کرنے کا حق حاصل ہے۔

اگر ایسے تمام الزامات کا تعلق سماجی جرائم سے ہے جو فوجداری قانون کے دائرہ کار میں نہیں آتے تو اس صورت میں بھی درخواست کو مسترد کیا جا سکتا ہے۔

دہلی کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر واقعی انڈیا کو شیخ حسینہ کی حوالگی کی درخواست موصول ہوتی ہے تو وہ اس دفعہ کا استعمال کرتے ہوئے درخواست کو مسترد کر سکتا ہے۔

سٹریٹجک تھنک ٹینک آئی ایس ڈی اے کی سینیئر فیلو سمرتی پٹنائک نے بی بی سی بنگلہ سے بات کرتے ہوئے کہا 'سب سے پہلے یہ کہنا ضروری ہے کہ مجھے نہیں لگتا کہ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت باضابطہ طور پر انڈیا سے شیخ حسینہ کی حوالگی کی درخواست کرے گی۔'

ان کی رائے میں اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں تلخی پیدا ہونے کا خدشہ ہے اور بنگلہ دیش کی موجودہ نازک صورتحال میں حال ہی میں برسراقتدار آنے والی کوئی بھی حکومت ایسا خطرہ مول نہیں لے گی۔

سمرتی کا کہنا ہے کہ 'اگر اس کے باوجود درخواست موصول ہوتی ہے تو انڈیا کے پاس یہ ثابت کرنے کے لیے کافی دلائل ہوں گے کہ درخواست سیاسی مقاصد کے تحت کی گئی تھی'۔

انھوں نے کہا کہ 'مثال کے طور پر جس طرح سابق وزیر تعلیم دیپو مانی کو منگل کو عدالت میں پیشی کے دوران تھپڑ مارے گئے اور جس طرح سابق صنعتی مشیر سلمان ایف رحمان یا سابق وزیر قانون انیس الحق کی عدالت میں تذلیل کی گئی، اس بات کی ضمانت کون دے گی کہ شیخ حسینہ کے معاملے میں ایسا نہیں ہو گا۔'

سمرتی کے مطابق آسان الفاظ میں انڈیا ان واقعات کی مثالیں دے کر آسانی سے کہہ سکتا ہے کہ وہ یہ نہیں سمجھتا کہ بنگلہ دیش میں منصفانہ اور غیر جانبدارانہ مقدمے کے بعد شیخ حسینہ کو انصاف ملے گا اور اس لیے انھیں حوالے نہیں کیا جا سکتا۔

انڈیا
Getty Images

دہلی میں زیادہ تر مبصرین کی رائے میں، انڈیا اس سیکشن کی مدد سے حوالگی کی درخواست کو مسترد کر سکتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ الزامات 'عدالتی عمل کے مفاد اور ہم آہنگی کے خلاف ہیں'۔

کچھ تجزیہ کاروں کے خیال میں کہ اگر انڈیا کو شیخ حسینہ کی حوالگی کی درخواست واقعی موصول ہوتی ہے تو دہلی اسے فوری طور پر مسترد کرنے کے بجائے طویل عرصے تک زیر التوا رکھ سکتا ہے۔

انڈیا کے سابق اعلیٰ سفارت کار ٹی سی اے راگھون کا کہنا ہے کہ 'بحران کے دوران جس طرح انڈیا نے شیخ حسینہ کو پناہ دی، وہی اس کی پالیسی ہے۔ انھیں کسی بڑے بحران میں دھکیلنا انڈیا کے لیے کوئی آپشن نہیں ہو سکتا۔'

ان کا خیال ہے کہ حوالگی کی درخواست کو مسترد کرنے کے لیے کوئی راستہ یا دلیل تلاش کرنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔

راگھون کا کہنا ہے کہ 'یہ یاد رکھنا ہوگا کہ اگر ہم نے اس وقت شیخ حسینہ کا ساتھ نہیں دیا تو دنیا کے کسی بھی دوست ملک کے رہنما مستقبل میں انڈیا پر بھروسہ نہیں کریں گے۔'

انڈین حکومت کا شیخ حسینہ کے ساتھ 'کھڑے رہنا' ان کی حوالگی کی درخواست کو غیر معینہ مدت تک زیر التوا رکھنے میں مدد دے سکتا ہے۔

ان کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے معاہدوں میں مختلف قانونی خامیاں یا خامیاں موجود ہیں جن کی مدد سے قانونی ماہرین ایک درخواست کو مہینوں یا سالوں تک زیر التوا رکھ سکتے ہیں۔

بنگلہ دیش
Getty Images

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر حوالگی کی درخواست موصول ہوئی تو شیخ حسینہ کے معاملے میں بھی انڈیا یہی راستہ اپنائے گا۔

انڈیا کے سابق خارجہ سیکرٹری اور ڈھاکہ میں سابق ہائی کمشنر پناک رنجن چکرورتی نے کہا ہے کہ ایسے معاہدے کے تحت حوالگی کی درخواستوں پر فیصلہ کرنے میں بعض اوقات کئی سال لگ جاتے ہیں۔

چکرورتی نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا، 'انڈیا 2008 سے ممبئی حملوں کے مرکزی ملزم پاکستانی نژاد امریکی تہور حسین رانا کی حوالگی کی کوشش کر رہا ہے جبکہ انڈیا اور امریکہ کے درمیان 1997 سے حوالگی کا معاہدہ ہے۔

ایسی صورتحال میں اسے اب تک انڈیا آ جانا چاہیے تھا لیکن حال ہی میں 15 اگست کو کیلیفورنیا کی ایک عدالت نے رانا کو انڈیا کے حوالے کرنے کی ہدایت کی ہے۔ 16 سال گزر چکے ہیں، اب دیکھتے ہیں اسے یہاں لانے میں مزید کتنا وقت درکار ہو گا۔'

ایسے میں اس بات پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ اگر شیخ حسینہ کی حوالگی کی کوئی درخواست موصول ہوتی ہے تو چند دنوں یا مہینوں میں اس پر فیصلہ کر لیا جائے گا۔

اس سے پہلے اگر حسینہ انڈیا چھوڑ کر کسی تیسرے ملک میں پناہ لے سکتی ہیں اور انڈین حکومت کے اہلکار اب بھی اس امکان کو مسترد نہیں کرتے، تو ایسی درخواست موصول ہونے یا اس کی بنیاد پر کوئی فیصلہ لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US