قید تنہائی اور گلابی پتلون: بدنام زمانہ ایرانی جیل میں آسٹریلوی لیکچرر نے 804 دن کیسے گزارے

کائلی مور گلبرٹ کو جب 2018 میں ایران کے شہر قم میں ایک کانفرنس کی دعوت ملی تو ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ دو ڈھائی ہفتے کے بجائے انھیں 804 دن قید میں گزارنے پڑیں گے۔
کائلی مور گلبرٹ
Getty Images
کائلی مور گلبرٹ

’یہ ایران کا مختصر دورہ تھا۔ مجھے دو ڈھائی ہفتے بعد گھر واپس پہنچ جانا تھا۔‘

کائلی مور گلبرٹ کو جب 2018 میں ایران کے شہر قم میں ایک کانفرنس کی دعوت ملی تو ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ دو ڈھائی ہفتے کے بجائے انھیں 804 دن قید میں گزارنے پڑیں گے۔

مشرق وسطی کی سیاسیات میں مہارت رکھنے والی کائلی آسٹریلیا اور برطانیہ کی دہری شہریت رکھتی ہیں اور عربی کے ساتھ ساتھ عبرانی زبان پر بھی عبور رکھتی تھیں۔ تاہم ان کو فارسی زبان نہیں آتی تھی۔ ایران پہنچنے کے بعد ان کا دورہ بہت اچھا رہا۔ سب کچھ ٹھیک تھا لیکن واپسی کے سفر سے ایک دن قبل معاملات بگڑنا شروع ہو گئے۔

ہوٹل کے استقبالیہ (ریسپشن) کے عملے کے ایک رکن، جن سے ان کی اچھی دوستی ہو چکی تھی، نے ان سے کہا کہ ’کچھ برے لوگ‘ ان کی تلاش میں آئے تھے۔

’مجھے پریشانی لاحق ہوئی لیکن اگلے دن میری واپسی کی فلائٹ تھی تو میرا خیال تھا کہ اتنی پریشانی کی بھی کوئی بات نہیں ہے۔‘

اگلے دن وہ ایئرپورٹ پہنچیں تو سیاہ لباس میں ملبوس چند افراد ان کے پاس آئے۔ یہ لوگ پاسداران انقلاب کے اراکین تھے لیکن کائلی یہ بات نہیں جانتی تھیں۔

آٹھ گھنٹے تک ایک کمرے میں رکھنے کے بعد انھیں ایک اپارٹمنٹ لے جایا گیا۔ اس سفر کے دوران انھیں اپنا سر ٹانگوں کے بیچ رکھنے پر مجبور کیا گیا۔ اس اپارٹمنٹ میں کئی گھنٹوں تک ان سے پوچھ گچھ ہوئی جسے فلمایا بھی جا رہا تھا۔

ایران
Getty Images

کائلی پر جاسوسی کا الزام لگایا گیا جس کی انھوں نے ہمیشہ تردید کی ہے اور اس الزام کے شواہد بھی آج تک پیش نہیں کیے گئے ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’اگلے دن مجھے ایک ہوٹل لے جایا گیا جہاں جاسوسی کے آلات نصب تھے اور مجھے وہاں ایک ہفتہ حراست میں رکھا گیا، روزانہ مجھ سے پوچھ گچھ کی جاتی تھی۔‘

کائلی کہتی ہیں کہ ’اس وقت تک شاید انھوں نے فیصلہ نہیں کیا تھا کہ میرے ساتھ کیا کرنا ہے۔ اسی لیے مجھ سے نسبتا بہتر سلوک کیا گیا۔‘

ان کا دعوی ہے کہ ان سے پوچھ گچھ کرنے والوں میں سے چند افراد چاہتے تھے کہ وہ ان کے لیے کام کریں اور انھیں بیرون ملک جا کر معلومات فراہم کریں۔ ’یہ بات مجھے گرفتاری کی پہلی رات کہی گئی اور اس کے بعد تقریباً جتنا وقت میں نے ایران میں گزارا مجھ سے یہ بات کہی جاتی رہی۔‘

ایک ہفتے کے بعد کائلی کو جیل بھیج دیا گیا۔ ’مجھے قید تنہائی میں رکھا گیا اور ان کا سلوک بھی بدتر ہوتا چلا گیا۔‘

کائلی
AFP

’اذیت ناک تنہائی اور غیر یقینی‘

کائلی کو جس جیل میں قید کیا گیا اس کا نام ’زندان اوین‘ ہے اور یہ اسلامی انقلاب سے قبل ہی سیاسی قیدیوں کی وجہ سے بدنام ہو چکی تھی۔

اسی جیل کے ایک حصے کو ’اوین یونیورسٹی‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کیوں کہ یہاں دانشوروں کو بڑی تعداد میں قید کیا گیا۔ مغربی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس روایت پر کڑی تنقید بھی کی ہے اور 2018 میں امریکی حکومت نے اس جیل کو بلیک لسٹ میں شامل کرتے ہوئے ’سنجیدہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں‘ کا الزام عائد کیا تھا۔

تاہم کائلی کو اس وقت تک یہ علم ہی نہیں تھا کہ وہ ایک جیل میں قید ہیں۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ ’جس طرح ان کا رویہ اور سلوک تبدیل ہوا، مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ میں مشکل میں پڑ گئی ہوں۔‘

انھیں قید تنہائی میں رکھا گیا اور وہ کہتی ہیں کہ ’یہ نفسیاتی تشدد کی قسم ہوتی ہے جس کا مقصد پوچھ گچھ کے لیے اعصاب کو توڑنا ہوتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ جب بھی ان کو پوچھ گچھ کے لیے باہر نکالا جاتا تو ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی جاتی تھی۔ ’مجھے بہت سے لوگ فارسی میں غصے سے بات چیت کرتے سنائی دیے اور مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی، لیکن مجھے خوف تھا کہ وہ مجھے جنسی ہراسانی کا شکار نہ بنائیں۔ اس وقت ایسا نہیں ہوا، انھوں نے مجھے جسمانی تکلیف نہیں پہنچائی لیکن بعد میں انھوں نے مجھے پیٹا۔‘

کائلی نے چار ماہ اسی کیفیت میں گزارے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’آپ دو میٹر چوڑے کمرے میں بند ہیں جہاں روشنی نہیں اور وقت کا کچھ اندازہ نہیں۔ آپ نہیں جانتے کہ اس دن آپ کو باہر نکالا جائے گا یا نہیں۔ کچھ بھی واضح نہیں ہوتا اور غیر یقینی آپ کو ذہنی پریشانی میں مبتلا کر دیتی ہے۔‘

کائلی نے اپنی قید کا زیادہ وقت تنہائی میں ہی گزارا۔ سب سے طویل عرصہ سات ماہ کا تھا۔ ’ایک طرح سے دیکھا جائے تو یہ جسمانی تشدد سے بدتر تھا، آپ کو اندر ہی اندر سے یہ کھاتا رہتا ہے۔ لیکن پہلا مہینہ سب سے برا تھا، شدید تنہائی کا۔‘

زندان اوین
Getty Images
زندان اوین کی 1986 میں لی گئی تصویر جس میں سیاسی قیدیوں کو دیکھا جا سکتا ہے

’میں اکیلی نہیں تھی‘

اس ڈراؤنے خواب سے نکلنے کے لیے کائلی نے خود کو سمجھایا کہ ان کے پاس اپنے ذہن کو قابو میں رکھنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں۔

’آپ کو ایک ایک سیکنڈ، ایک ایک منٹ کے حساب سے جینا پڑتا ہے، اپنے حال پر توجہ مرکوز رکھنا پڑتی ہے۔‘

کائلی کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنا وقت ذہنی مشقوں کی مدد سے کاٹا تاکہ ان کا ذہن بھٹک نہ جائے۔ تاہم وہ کہتی ہیں کہ ’میرے لیے اپنے غصے پر قابو پانا شاید سب سے مشکل تھا کیوں کہ مجھے بار بار غصہ آتا تھا۔ محافظوں یا سوال پوچھنے والوں سے جب بھی سامنا ہوتا، غصہ واپس آ جاتا۔‘

اسی تنہائی کے بیچ کچھ ایسا ہوا جو ان کے لیے ناقابل تصور تھا۔ ان کا چند دیگر قیدیوں سے رابطہ ہوا جو خود بھی قید تنہائی میں تھے۔

’دو قیدیوں نے جب مجھے محافظوں سے انگریزی میں بات کرتے سنا تو انھوں نے مجھے ہمت دلائی۔‘

کائلی کہتی ہیں کہ ان کے قید خانے سے متصل ایک برآمدہ تھا جہاں سب قیدیوں کو صبح شام آدھے گھنٹے کے لیے دو محافظوں کی نگرانی میں وقت گزارنے کا موقع ملتا تھا۔

’دیگر قیدیوں نے پتوں کی مدد سے میری توجہ پھول کے ایک گملے کی جانب دلائی جس میں انھوں نے ایک پلاسٹک بیگ میں ڈرائی فروٹ رکھا ہوا تھا۔ جب میں نے اسے دیکھا تو میں نے اسے اٹھا کر چھپا لیا اور واپس پہنچنے کے بعد کمرے کی جانب پیٹھ کرتے ہوئے اسے کھولا تو یہ ایک خوشگوار احساس تھا۔ انھوں نے مجھے ایک ایسی چیز دی تھی جو خود ان کے لیے بھی ان حالات میں بہت قیمتی تھی۔‘

’اس میں ایک کاغذ پر لکھا ہوا تھا ہم تمھارے دوست ہیں، تم تنہا نہیں ہو۔ یہ میرے لیے ایک جذباتی لمحہ تھا، مجھے جب بھی موقع ملتا، میں اس پیغام کو پڑھتی۔ وہ میرا نام جانتے ہیں، وہ میرے دوست ہیں، میں تنہا نہیں ہوں۔‘

کائلی مور گلبرٹ
Getty Images

نوٹ اور آوازیں

اس پہلے نوٹ کے بعد یہ تبادلہ بڑھا کیوں کہ کائلی بھی ایک قلم چرانے میں کامیاب ہو گئیں اور اس کی مدد سے پیغام کا جواب دینے میں۔ ساتھ ہی دیگر قیدی خواتین سے بھی ان کا رابطہ ہوا۔

وہ کچھ لکھ کر باہر کسی نہ کسی مقام پر چھپا دیتی تھیں لیکن ’چھ ماہ بعد میں نے پیغام رسانی کا ایک محفوظ طریقہ ایجاد کر لیا، سفر کرنے والی پتلون۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ جیل کے یونیفارم میں ایک گلابی رنگ کی پتلون تھی جسے ’ہم لانڈری میں خود دھو سکتے تھے۔ کسی قیدی کی پتلون مجھے ملی جو اسے وہاں بھول گئی تھی تو میں نے اس کو اٹھا کر اس کے اندر کی سلائی کھولی تاکہ اس میں پیغام چھپایا جا سکے۔‘

’جب سب کو سمجھ آ گئی کہ یہ پیغام رسانی کا طریقہ ہے تو سب نے اس کا استعمال شروع کر دیا اور یوں پیغامات کا تبادلہ آسان اور تیز ہو گیا۔‘

تاہم وہ ان انجان دوستوں سے ایک اور ذریعے سے بھی رابطہ کر سکتی تھیں۔ ’مجھے جہاں رکھا گیا تھا وہاں ہوا کی گزرگاہ تھی اور اکثر ہمیں ایک ٹی وی کی آواز آیا کرتی تھی۔ آہستہ آہستہ ہمیں علم ہو گیا کہ کون سے محافظوں کی کب ڈیوٹی ہوتی ہے اور کس وقت اس ہوا کی گزرگاہ کو پیغام رسانی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘

’ہم دیوار کھٹکھٹاتے اور جب دوسری جانب سے جواب ملتا تو میں ٹائلٹ پر کھڑے ہو کر پانچ منٹ تک ان سے بات کر پاتی۔‘

ان مختصر لمحات کی گفتگو سے کائلی کو کئی باتوں کا علم ہوا۔ ’انگریزی میں کسی کی دوستانہ زبان سننا بہت خوشگوار تھا۔ اور وہ مجھے ایسے کسی کاغذ کے مقابلے میں بہت زیادہ کچھ بتا پاتے۔‘

’مجھے علم ہوا کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور مجھے یرغمالیوں کی سفارت کاری جیسے الفاظ کا پتہ چلا کہ ایران غیر ملکیوں کو حراست میں لے کر انھیں دوسرے ممالک سے سودے بازی کے لیے استعمال کرتا ہے۔‘

’مجھے بتایا گیا کہ کوئی جھوٹا اقبالی بیان مت دینا کیوں کہ تمھیں کسی نہ کسی کے ساتھ تبادلے میں رہائی مل جائے گی اور جو بھی سزا سنائی جائے گی، اس پر عمل نہیں ہو گا بلکہ تمھارے بدلے آسٹریلیا یا برطانیہ سے کسی نہ کسی چیز کے لیے سودے بازی ہو گی۔ تمھارے بدلے ان میں سے کوئی ملک ایران کو کچھ نہ کچھ دے دے گا۔‘

’ان خواتین نے مجھے امید دلائی۔‘

اور ان قیدیوں کی بات سچ ثابت ہوئی۔ دو سال تک کائلی نے سینکڑوں گھنٹوں پر محیط پوچھ گچھ میں اسرائیلی موساد اور برطانوی ایم آئی سکس یا آسٹریلوی جاسوس ہونے کے الزامات مسترد کیے۔

انھوں نے کسی الزام کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور ایران کے لیے جاسوسی کرنے کی متعدد پیشکش مسترد کر دیں۔

پھر ان کا مقدمہ ایک ایسے جج کی عدالت میں چلایا گیا جن کا نام ’پھانسی دینے والا جج‘ اس لیے رکھا گیا ہے کیوں کہ وہ بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو سزائے موت سنا چکے ہیں۔ کائلی کو 10 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

ایسے میں ان کی امید دم توڑنے لگی تھی۔ حقیقت میں ان کی گرفتاری کے ایک سال تک کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کس حال میں ہیں۔

آسٹریلیا کی حکومت نے ان کے اہلخانہ سے درخواست کی تھی کہ ان کی ایران میں حراست کی خبر کو عام نہ کیا جائے اور خاموش سفارت کاری کو وقت دیا جائے۔

کائلی مور گلبرٹ
EPA
کائلی مور گلبرٹ کی رہائی کے وقت جاری ہونے والی سرکاری تصویر

تاہم قید تنہائی سے رہائی پانے والے چند قیدیوں نے یہ خبر پھیلا دی کہ زندان اوین میں آسٹریلیا کی ایک خاتون بھی قید ہیں اور یوں یہ راز افشاں ہو گیا۔

کائلی کے تحریر کردہ خطوط بھی جیل سے سمگل ہو کر برطانوی میڈیا تک پہنچ گئے اور یوں ان کی رہائی کے لیے ایک مہم کا آغاز ہوا۔

اس مہم کے بعد کائلی کے ساتھ سلوک میں بہتری آئی اور آخرکار وہی ہوا جس کی پشین گوئی ان کے ساتھی قیدیوں نے کی تھی۔

ان کی رہائی ایک پیچیدہ قیدیوں کے تبادلے کے نتیجے میں ہوئی جس میں چار ممالک شامل تھے۔ بنکاک کے اسرائیلی سفارت خانے پر بم حملے کی سازش میں گرفتار تین ایرانی شہری تھائی لینڈ کی ایک جیل سے ان کے بدلے رہا ہوئے اورپھر یہ خبر سامنے آئی کہ کائیلی کو رہا کر دیا گیا ہے۔

ایران کے سرکاری میڈیا نے اعلان کیا کہ ’کائلی مور گلبرٹ نامی جاسوس کے بدلے ایک ایرانی کاروباری شخصیت کے ساتھ ساتھ دو ایرانی شہری، جنھیں بیرون ملک بے بنیاد الزامات پر گرفتار کیا گیا تھا، رہا ہوئے ہیں۔‘

کائلی کو نومبر 2020 میں کورونا وبا کے دوران رہائی ملی اور آسٹریلیا پہنچتے ہی انھیں قرنطینہ میں رکھا گیا۔ تاہم یہ تنہائی کائیلی کے لیے مشکل نہیں تھی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں رہائی سے پہلے کئی ہفتے تکلیف دہ قید تنہائی میں تھی تو اس قرنطینہ کی مدد سے مجھے واپسی میں مدد ملی۔ اگرچہ میں انسانیت سے دور تھی لیکن مجھے انٹرنیٹ، فون تک رسائی حاصل تھی اور میں کسی سے بھی کسی وقت بات کر سکتی تھی۔‘

’اگر مجھے ایک دم دنیا کا سامنا کرنا پڑتا تو شاید میرے لیے بہت مشکل ہوتا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US