ازبکستان اور تاجکستان کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ طیارے امریکہ کی ملکیت ہیں اور طالبان حکام کی درخواست پر ان کے حوالے نہیں کیے جائیں گے۔

افغانستان میں طالبان کی وزارت دفاع نے سابق افغان فوج کے طیاروں سے متعلق امریکہ اور ازبکستان کے معاہدے کو ’ناقابل قبول‘ قرار دیتے ہوئے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔
اس سے قبل ازبکستان میں امریکی سفیر جوناتھن ہینک نے بتایا تھا کہ واشنگٹن اور ازبکستان افغان فوج کے طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کی حیثیت سے متعلق ایک معاہدے پر پہنچ چکے ہیں، جنھیں افغان پائلٹ سنہ 2021 میں افغانستان سے ازبکستان لے گئے تھے۔
ہینک نے کہا کہ ’یہ فوجی طیارے ازبکستان میں ہی رہیں گے۔ طیارے کبھی افغان حکومت کے نہیں تھے، وہ امریکہ کے تھے لیکن افغان فوج نے انھیں استعمال کیا۔‘
اگست سنہ 2021 میں طالبان کے افغانستان پر قبضے کے موقع پر بہت سے افغان جنگجو اور ہیلی کاپٹر افغان پائلٹوں نے ازبکستان اور تاجکستان منتقل کیے تھے۔
اس وقت ازبکستان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ افغان فضائیہ کے ’22 فوجی طیارے اور 24 ہیلی کاپٹر‘ملک میں موجود ہیں۔
تاہم طالبان کی وزارت دفاع نے اب ازبکستان کی حکومت سے کہا ہے کہ وہ ’اچھی ہمسائیگی کی سمت میں دانشمندانہ فیصلہ کرے۔‘
واشنگٹن اور تاشقند کے درمیان ہونے والے معاہدے کے مطابق سابق افغان فوج کے طیارے ازبکستان میں ہی رہیں گے تاہم یہ واضح نہیں کہ ازبکستان ان طیاروں کو استعمال کرے گا یا نہیں۔

گذشتہ تین سال کے دوران امریکہ نے ازبکستان اور تاجکستان کے ساتھ تقریباً 50 فوجی طیاروں کے بارے میں بات چیت کی ہے جنھیں افغان پائلٹ پچھلی افغان حکومت کے خاتمے کے بعد ان ممالک میں لے گئے تھے۔
یہ طیارے امریکہ نے افغانستان کی سابقہ حکومت کو فراہم کیے تھے اور تب سے ہی ان کی حیثیت غیر یقینی کا شکار رہی ہے۔
طالبان حکومت ہمیشہ سے اس بات پر اصرار کرتی ہے کہ یہ طیارے افغانستان کو واپس کیے جائیں۔
یہ بھی پڑھیے
امریکی جریدے پولیٹیکو نے ذرائع کے حوالے سے اپنی ایک تحریر میں لکھا تھا کہ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کے عزم کے عوض سابق افغان حکومت کے پچاس فوجی طیارے ازبکستان اور تاجکستان کے حوالے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
جریدے کے مطابق امریکی حکومت ان طیاروں کو ان ممالک کے حوالے کر کے خطے میں ’خاموشی سے‘ قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے اور اس نے ازبکستان اور تاجکستان کی حکومتوں کے ساتھ ’سکیورٹی تعلقات کو گہرا کرنے‘ کے لیے ’غیر رسمی‘ معاہدہ کیا ہے۔
سی این این کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق امریکہ کے پاس افغانستان میں 923.3 ملین ڈالر کے 78 خریدے گئے طیارے باقی ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق یہ طیارے امریکی فوج کے جانے سے پہلے سویلین استعمال میں تھے یا ناکارہ تھے۔

سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کی جانب سے لی گئی سیٹلائٹ تصاویر کے مطابق ان طیاروں میں C-208 یوٹیلیٹی طیارے، A-29 سپر ٹوکانو لائٹ اٹیک طیارے کے علاوہ Mi-17، Mi-25 اور بلیک ہاک ہیلی کاپٹر بھی شامل ہیں۔
دو سال قبل طالبان کے قائم مقام وزیر دفاع یعقوب مجاہد نے کہا تھا ’ہم اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ہم ان طیاروں پر دوبارہ قبضہ نہیں کر لیتے۔‘
ازبکستان اور تاجکستان کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ طیارے امریکہ کی ملکیت ہیں اور طالبان حکام کی درخواست پر ان کے حوالے نہیں کیے جائیں گے۔
ازبکستان نے 11 ستمبر 2001 کے 9/11 حملوں کے بعد امریکہ کے ساتھ تعاون کیا اور افغانستان میں کارروائیوں کے لیے 2001 سے 2005 تک امریکہ کو کرشی خان آباد ایئر بیس لیز پر دی لیکن یہ معاہدہ بدامنی اور روس کے دباؤ کے باعث منسوخ کر دیا گیا۔
تاجکستان کی واشنگٹن کے ساتھ تعاون کی ایک تاریخ بھی ہے، جس میں 9/11 حملوں کے بعد امریکی فوجی طیاروں کو اپنے ہوائی اڈوں پر ایندھن بھرنے کی اجازت دینا بھی شامل ہے لیکن اس کے بعد کے برسوں میں، دوشنبے کے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری رہی ہے۔
تاجکستان اس وقت اجتماعی سلامتی معاہدے کی تنظیم کا رکن ہے، جو سابق سوویت جمہوریہ کا ایک فوجی اتحاد ہے، اور اس وقت ایک روسی فوجی اڈے کی میزبانی کر رہا ہے۔
پولیٹیکو کے مطابق، امریکی محکمہ دفاع کے ایک سینیئر اہلکار نے کہا کہ تاجکستان اور ازبکستان دونوں ’یقینی طور پر ان طیاروں کو رکھنے میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں۔‘