دکی میں 20 مزدوروں کی ہلاکت: ’حملہ آور فائرنگ کرنے سے پہلے چیخے ہم نے کہا تھا کہ یہاں کام بند کرو‘

بلوچستان کے ضلع دُکی میں مسلح افراد کی فائرنگ سے 20 مزدوروں کی ہلاکت کے خلاف دُکی شہر میں ہلاک ہونے والوں کی لاشوں کے ساتھ دھرنا دے دیا گیا ہے جبکہ انجمن تاجران اور سیاسی جماعتوں کی کال پر صبح ہی سے تمام تجارتی مراکز بند ہیں جبکہ شہر میں ٹریفک بھی معمول سے کم ہے۔

جمعہ خان نے جب شدید فائرنگ کی آوازیں سنی تو یہ سمجھ گئے کہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ صورتحال خراب ہے۔

جمعہ خان ان لوگوں میں شامل ہیں جو گذشتہ شب بلوچستان کے ضلع دُکی میں کوئلے کانوں پر ہونے والے حملے میں زخمی ہوئے اور ایک ہاتھ پر گولی لگنے کے باعث دُکی میں ابتدائی طبی امداد کے بعد انھیں علاج کے لیے ٹراما سینٹر کوئٹہ منتقل کیا گیا ہے۔

یہاں گذشتہ رات مسلح افراد کی فائرنگ سے 20 مزدور ہلاک اور سات زخمی ہو گئے تھے۔ دکی پولیس کے ایس ایچ او ہمایوں خان ناصر نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ہلاک ہونے والے مزدوروں میں سے چار کا تعلق افغانستان جبکہ باقیوں کا تعلق بلوچستان کے علاقوں ژوب، قلعہ سیف اللہ، پشین، موسیٰ خیل اور کچلاک سے ہے۔

بی بی سی کے محمد کاظم سے بات کرتے ہوئے جمعہ خان بتاتے ہیں کہ انھوں نے رات دیر سے چھٹی کی تھی اور ابھی بستر پر لیٹے ہی تھے کہ فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔

’میں مسجد کے پاس سویا ہوا تھا۔ بہت زوردار فائرنگ ہو رہی تھی جس کے باعث میں سمجھ گیا کہ یہ کوئی خیر کا واقعہ نہیں ہے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ دوستوں کو جگاؤں۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ جب انھوں نے لائٹ جلائی تو ان کے دو ساتھی بیدار ہوئے ’میں نے انھیں کہا کسی کمرے میں چلے جاؤ تاکہ گولیوں سے محفوظ رہو۔‘

جمعہ خان کا کہنا تھا کہ جب وہ ایک کمرے سے نکل کر حفاظت کے لیے دوسرے کمرے کی جانب جا رہے تھے تو ایک گولی ان کے ہاتھ پر لگی جس کے باعث وہ زخمی ہو گئے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’وہاں صرف چھوٹے اسلحے سے فائرنگ نہیں ہورہی تھی بلکہ ہم نے بڑے دھماکوں کی آوازیں بھی سنی۔‘

duki
Getty Images
اس وقت مزدوروں کی ہلاکت کے خلاف دکی شہر میں ہلاک ہونے والوں کی لاشوں کے ساتھ دھرنا دے دیا گیا ہے۔

مزدوروں کی ہلاکت کے خلاف دھرنا جاری

اس وقت مزدوروں کی ہلاکت کے خلاف دکی شہر میں ہلاک شدگان کی لاشوں کے ساتھ دھرنا دے دیا گیا ہے۔

اس حملے کی ذمہ داری تاحال کسی تنظیم نے قبول نہیں کی تاہم ماضی میں اس نوعیت کے حملوں کی ذمہ داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہیں۔

اس واقعے کے خلاف دکی شہر کے باچا خان چوک میں احتجاجی دھرنا جاری ہے جبکہ انجمن تاجران اور سیاسی جماعتوں کی کال پر صبح ہی سے تمام تجارتی مراکز بند ہیں جبکہ شہر میں ٹریفک بھی معمول سے کم ہے۔ واقعے کے خلاف سکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں کے طلبا نے کلاسوں کا بائیکاٹ کیا ہے۔

مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ مزدوروں کی ہلاکت میں ملوث ملزمان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ دکی میں مزدوروں کی ہلاکت کی گورنر اور وزیراعلیٰ بلوچستان سمیت اعلیٰ حکام کی جانب سے مذمت کی گئی ہے۔

سرکاری اعلامیے کے مطابق وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے اس واقعے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ‎ملزمان کے خلاف فوری و موثر کارروائی کا حکم دیا اور ‎حکام کو ہدایت کی مذکورہ علاقے کو سِیل کر کے دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے۔

دکی کے مقامی صحافی عبدالحکیم ناصر نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے چند مزدوروں کی لاشوں کو جمعے کی صبح باچا خان چوک منتقل کیا گیا اور وہاں اب لاشوں کے ہمراہ دھرنا دیا جاری ہے۔

عبدالحکیم کے مطابق اس احتجاج میں سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے علاوہ این ایل ایف اور مزدور تنظیموں کے کارکن بھی شریک ہیں۔

’میں سمجھا آج میری زندگی کا آخری دن ہے‘

dukki
EPA
گذشتہ رات مسلح افراد کی فائرنگ سے بلوچستان کے ضلع دکی میں 20 مزدور ہلاک اور سات زخمی ہو گئے تھے۔

اسداللہ ان خوش قسمت کان کنوں میں شامل تھے جو اس حملے میں محفوظ رہے۔ وہ اپنے زخمی ساتھیوں کے ساتھ دکی سے کوئٹہ آئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ نیند میں تھے تب فائرنگ سے ان کی آنکھ کھل گئی۔

بی بی سی کے محمد کاظم سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’پہلے میں یہ سمجھا کہ میں نے کوئی خواب دیکھا ہے لیکن فائرنگ کی شدت میں نہ صرف اضافہ ہوتا گیا بلکہ اس کے ساتھ دھماکوں کی بھی آوازیں سنائی دینے لگیں تب میں اٹھ گیا اور اپنے آپ کو محفوظ بنانے کی کوشش کی۔‘

’میں سمجھا آج میری زندگی کا آخری دن ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ میں فائرنگ کی زد میں نہیں آیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’چونکہ ابھی تک زیادہ سردی نہیں اس لیے لوگوں کی بڑی تعداد کمروں کے باہر سوئی ہوئی تھی۔ ان ہی لوگوں نے فائرنگ کی آواز سن کر محفوظ مقام کی جانب جانے کی کوشش کی تو وہ فائرنگ کی زد میں آکر ہلاک اور زخمی ہوئے۔‘

انھوں نے بتایا کہ بعض لوگ کمروں سے نکلنے کی کوشش کے دوران بھی گولیاں لگنے کی وجہ سے ہلاک اور زخمی ہوئے۔

ٹراما سینٹر میں زخمیوں اور ان کے ساتھ آنے والے لوگوں نے شکایت کی کہ ان کو ریسکیو کرنے کے لیے ٹیمیں جلدی نہیں پہنچیں۔

ٹراما سینٹر میں زخمیوں کے ساتھ آنے والے لوگوں نے بتایا کہ وہ خالی ہاتھ آئے ہیں اور ان کے پاس پیسے نہیں ہیں لیکن انھیں ایک زخمی ساتھی کے لیے باہر سے راڈ خرید کر لانے کے لیے کہا گیا ہے۔

ضلعی انتظامیہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ واقعے کے بعد لیویز اور پولیس کی فورس کو جائے وقوعہ کی جانب روانہ کیا گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق مائنز کے علاقے میں سیکورٹی کی ذمہ داری بنیادی طور پر سکیورٹی فورسز کی ہے لیکن سب سے پہلے لیویز فورس جائے وقوعہ پر ریسکیو کے لیے پہنچ گئی۔

جب اس سلسلے میں دُکی پولیس کے سربراہ عاصم شفیع سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا کہ ریسکیو میں کوئی تاخیر ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ، ڈپٹی کمشنر اور ایف سی کے کرنل رات سے ابھی تک نہ صرف ریسکیو کے کاموں میں لگے رہے بلکہ زخمیوں کو ہسپتال تک پہنچانے میں ہر ممکن مدد فراہم کرنے کے علاوہ ہسپتال میں ان کو طبی امداد کی فراہمی کے لیے ہر ممکن سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔

دُکی پولیس کے سربراہ نے بتایا کہ حملہ آوروں کی جانب سے ہر قسم کا اسلحہ استعمال کیا گیا۔ مجموعی طور پر دس کوئلہ کانوں پر ہونے والے حملے میں انسانی جانوں کے ضیاع کے علاوہ ان کی مشینری کو بھی نذرآتش کیا گیا۔

’حملہ آور فائرنگ کرنے سے پہلے چیخے: ہم نے کہا تھا کہ یہاں کام بند کرو‘

’حملہ آور فائرنگ شروع کرنے سے پہلے چیخے: ہم نے تم لوگوں سے کہا تھا کہ یہاں کام بند کرو، ایسا کیوں نہیں کیا؟‘

حفیظ اللہ بلوچستان کے ضلع دُکی میں اس کوئلے کی کان میں ایک سب کانٹریکٹر کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔

حفیظ اللہ نے بی بی سی نیوز کی کیرولین ڈیویز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ رات 12 بجے سے کچھ دیر بعد حملہ آوروں نے کان کنوں کی رہائش گاہ پر حملہ کیا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے باہر سے فائرنگ کی آواز آنے لگی اس لیے میں اور کچھ دیگر افراد بھاگ کر باتھ روم میں چھپ گئے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اپنے سروں پر منڈلاتا ہوا ایک ڈرون دیکھا جس پر سرخ بتی جل رہی تھی۔

حفیظ اللہ کے مطابق یہ حملہ ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہا۔ انھوں نے اس دوران زور دار دھماکوں کی آواز سنی جو ان کے مطابق گرینیڈ کے پھٹنے کی تھیں۔

انھوں نے کہا کہ ’جب میں وہاں سے نکلا تو متعدد افراد زمین پر پڑے تھے۔‘

ایک اور عینی شاہد محمد نے ایک مقامی صحافی کو بتایا کہ ان کے تین ساتھی حق داد، عبداللہ خان اور غلام علی اس حملے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ ان تینوں کا تعلق افغانستان سے ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے گولیوں کی آوازیں سنیں اور پھر کسی نے میرے کمرے پر دو سے تین منٹ تک فائرنگ کی۔‘

’اس لیے میں وہاں سے بھاگا اور چھپنے کے لیے ایک محفوظ مقام کا انتخاب کر لیا۔ میں اس وقت تک باہر نہیں آیا جب تک ایک سے دو گھنٹے بعد تک فائرنگ رک نہیں گئی۔‘

dukki
EPA
یہ حملہ دکی میں خیر محمد ناصر لیز علاقے میں کیا گیا جو دکی شہر سے اندازاً آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر مغرب میں واقع ہے۔

حملہ دکی کے کس علاقے میں کیا گیا؟

یہ حملہ دکی میں خیر محمد ناصر لیز علاقے میں کیا گیا جو دکی شہر سے اندازاً آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر مغرب میں واقع ہے۔

ایس ایچ او ہمایوں خان ناصر نے بتایا کہ اس علاقے میں گزشتہ شب نامعلوم مسلح افراد کی ایک بڑی تعداد آئی اور انھوں نے قریب سے کوئلے کی کانوں پر کام کرنے والے مزدوروں کو نشانہ بنایا۔

ان کا کہنا تھا کہ مزدوروں پر حملے کے علاوہ مسلح افراد نے مختلف کانوں پر موجود مشینری کو بھی نذر آتش کیا۔

ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ واقعے کے بارے میں مختلف پہلوئوں سے تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔

لاشوں کو پوسٹ مارٹم جبکہ زخمیوں کو طبی امداد کے لیے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال دکی منتقل کیا گیا۔

دکی کہاں واقع ہے؟

دکی بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے اندازاً 300 کلومیٹر کے فاصلے پر شمال مشرق میں واقع ہے۔ اس ضلع کی سرحدیں کوہلو سے بھی ملتی ہیں جس کا شمار بلوچستان کے ان علاقوں میں ہوتا ہے جو شورش سے زیادہ متاثر ہیں۔

اس ضلع کی آبادی کی غالب اکثریت مختلف پشتون قبائل پر مشتمل ہے۔ یہاں کوئلے کے ذخائر ہیں جن پر بڑی تعداد میں مزدور کام کرتے ہیں۔

دکی اور اس کے نواحی علاقوں میں پہلے بھی کوئلے کی کانوں، کوئلہ لے جانے والے ٹرکوں پر حملوں کے علاوہ مزدوروں کے اغوا اور سکیورٹی فورسز پر حملوں کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔

رواں سال مئی کے مہینے میں یہاں بارودی سرنگ کے دھماکے میں دو مزدور ہلاک اور 17 زخمی ہوئے تھے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts