"پہلے دن کے اختتام پر میرے رپورٹنگ منیجر نے واضح کر دیا کہ وہ مجھ سے اوور ٹائم کی توقع رکھتے ہیں، لیکن اس کا کوئی معاوضہ نہیں دیا جائے گا۔ جب میں نے کام اور ذاتی زندگی کے توازن کی بات کی تو میرا مذاق اڑاتے ہوئے اسے 'فینسی ٹرم' اور 'مغربی رویہ' قرار دے دیا۔"
یہ ہیں شریاس کے الفاظ، جنہوں نے بھارت میں اپنی ملازمت کے پہلے ہی دن استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا۔ ان کے مطابق، جب باس نے بغیر معاوضے کے اوور ٹائم کا مطالبہ کیا اور کام کی زندگی میں توازن کی اہمیت کو نظرانداز کیا تو شریاس نے ایک لمحے کے لیے بھی سوچا نہیں اور استعفیٰ دے دیا۔
ممبئی میں پروڈکٹ ڈیزائنر شریاس نے ایک ایسی جاب چھوڑی جو عام طور پر لوگ بڑی مشکل سے چھوڑتے ہیں، لیکن ان کے لیے ذاتی وقار اور کام کی زندگی کا توازن زیادہ اہم نکلا۔ ان کے باس نے اوور ٹائم کے لیے دباؤ ڈالا مگر معاوضہ دینے سے انکار کیا، اور جب شریاس نے اعتراض کیا تو جواباً یہ کہا کہ توازن کی باتیں مغربی ممالک کی "فینسی" سوچ ہیں۔
شریاس نے اپنے تلخ تجربے کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ریڈایٹ پر شیئر کیا، جہاں انہوں نے سب کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی فلاح و بہبود کو اولین ترجیح دیں اور غیر صحت مند کام کے ماحول سے نکلنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔
شریاس نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ "میں سب کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کے سامنے کوئی زہریلا ماحول ہو تو اسے چھوڑ دینا ٹھیک ہے، یہاں تک کہ پہلے دن بھی۔ آپ کی صحت اور خود احترام کسی بھی جاب سے زیادہ اہم ہیں۔"
یہ واقعہ ان سب کے لیے ایک سبق ہے جو نوکری کی شرائط کے خلاف سمجھوتہ کرنے کی بجائے اپنی عزت اور وقار کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ شریاس کا یہ فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ کام کی دنیا میں توازن برقرار رکھنا ایک بنیادی حق ہے، نہ کہ کوئی فینسی تصور۔