قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائئ ادارے پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں پچھلے 48 گھنٹوں کے دوران ہونے والی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے کے باعث مختلف حادثات میں اب تک 307 افراد ہلاک اور 23 زخمی ہوئے۔ ریسکیو 1122 کے مطابق اب تک 1100 سے زائد افراد کو ریسکیو کر لیا گیا ہے۔سیلابی ریلے میں بہہ جانے والے ایک گھر میں مولانا عبدالصمد کے خاندان کے پانچ افراد رہتے تھے جن کی خیریت کے کے بارے میں اب تک کوئی کُچھ نہیں جانتا۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائئ ادارے پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں پچھلے 48 گھنٹوں کے دوران ہونے والی بارشوں اور سیلابی ریلوں سے کے باعث مختلف حادثات میں اب تک 307 افراد ہلاک اور 23 زخمی ہوئے۔
پی ڈی ایم اے کی جانب سے جاری تازہ رپورٹ کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں 279 مرد، 15 خواتین اور 13 بچے شامل جبکہ زخمیوں میں 17 مرد، 4 خواتین اور دو بچہ شامل ہے۔
رپوٹ میں بتایا گیا ہے کہ 'بارشوں اور سیلابی ریلوں کے باعث اب تک مجموعی طور پر 74 گھر وں کو نقصان پہنچا۔ جس میں 63 گھروں کو جزوی اور 11 گھر مکمل منہدم ہوئے ہیں۔
یہ حادثات صوبہ کے مختلف اضلاع سوات، بونیر ، باجوڑ، تورغر، مانسہرہ، شانگلہ اور بٹگرام میں پیش آئے۔
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع بونیر کی تحصیل پیر بابا کے گاؤں بیشونٹری میں ایک سیلابی ریلا آنے کی اطلاع ملی تو یہاں کے ایک مقامی امام مسجد مولانا عبدالصمد نے اپنے گاؤں کے دیگر لوگوں کی طرح اپنے گھر والوں سے فوراً گھر خالی کر دینے کو کہا اور خود نوافل ادا کرنے میں مصروف ہو گئے۔ کُچھ ہی دیر کے بعد جب وہ اپنے گھر واپس پہنچے تو سیلابی ریلا ان کے گھر سمیت کئی دیگر گھروں کا نام ونشان کو مٹ چکا تھا۔
سیلابی ریلے میں بہہ جانے والے گھر میں مولانا عبدالصمد کے خاندان کے پانچ افراد رہتے تھے جن کی خیریت کے کے بارے میں اب تک کوئی کُچھ نہیں جانتا۔
پیر بابا صاحب کے سابق تحصیل ناظم اشفاق احمد اسلام آباد میں موجود تھے کہ جب انھیں گھر سے اطلاع ملی کہ سیلابی پانی کا ایک بڑا ریلا آرہا ہے۔ جس پر انھوں نے گھر والوں کو کہا کہ فوراً کسی محفوظ مقام کی جانب روانہ ہو جائیں تاہم کُچھ ہی دیر کے بعد گھر والوں کی خیریت معلوم کرنے کے لیے جب چند ہی منٹ بعد انھوں نے دوبارہ کال کی تو پوری پشوڑی گاون میں کسی کا نمبر نہیں مل رہا تھا اور جب وہ اس بے چینی کے عالم میں اپنے گاؤں پہنچے تو وہاں ہر جانب قیامت کا سا منظر تھا۔
ان کے گھر سمیت کوئی بھی گھر سلامت نہیں تھا۔ ہر طرف تباہی پھیلی ہوئی تھی۔ جو لوگ پانی میں بہہ جانے سے بچ گئے تھے وہ شدید زخمی تھے۔
سیلابی ریلے کے وقت اشفاق احمد کے گھر میں 14 افراد تھے جن میں سے چار افراد کی لاشیں ملی ہیں جبکہ 10 ابھی تک لاپتا ہیں۔
ایک خاندان کے دو افراد بچ گے تھے کیونکہ سیلابی ریلے کے وقت وہ درخت پر چڑھ گے تھے جب کہ ان کے خاندان کے باقی نو افراد کا کچھ پتا نہیں۔
’لاتعداد لوگ لا پتا ہیں‘
ریسکیو 1122 بونیر کے بھی مطابق محتاط اندازے کے مطابق بیشونٹری گاؤں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے مقامات میں شامل ہے۔
بیشونٹری گاؤں کے لوگوں کے جنازے اورکفن دفن کا انتظام بھی اپنے گاؤں میں کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ یہ سب انتظامات بھی قریب کے گاؤں کے لوگوں نے انجام دیے۔ جس میں بونیر کی کاروباری شخصیت نور اسلام کے علاوہ بیرونِ ملک میں ملازمت کرنے والے اور چھٹیوں پر آبائی علاقے میں موجود محمد اسلام بھی شامل تھے۔
نور اسلام کہتے ہیں کہ ’میں بیشوڑی گاؤں میں تقریباً ایک بجے پہنچا تھا وہاں پر کوئی گھر سلامت نہیں ہے۔ مغرب تک میں اپنے دوستوں اور علاقے کے لوگوں کے ساتھ مل کر کئی جنازوں میں شامل ہوا۔ جن کی مجھے تعداد بھی یاد نہیں ہے جبکہ چھ قبریں کھودنے میں بھی میں نے خود مدد کی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے واقعے کی اطلاع گیارہ بجے ملی۔ اس کے ساتھ علاقے میں مساجد میں اعلانات شروع ہوگئے تھے۔ جس کے بعد میں دیگر لوگوں کے ہمراہ بیشونٹری کی طرف چل پڑا۔‘
نور اسلام بتاتے ہیں کہ ’بیشونٹری پیر بابا صاحب سے چار سے پانچ کلو میٹر دور ہے مگر سیلابی ریلے کے باعث راستے بند تھے۔ جگہ جگہ ملبہ پڑا ہوا تھا۔ جس وجہ سے میں دیگر لوگوں کے ہمراہ تقریباً ایک بجے متاثرہ مقام پر پہنچا۔‘
نور السلام کا کہنا تھا کہ ’ہم سے پہلے بھی وہاں پر کچھ لوگ موجود تھے۔ جو امدادی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ وہاں پر عجیب منظر تھا۔ زخمی جگہ جگہ پڑے ہوئے تھے ان زخمیوں کو وہاں پہچنے والے لوگ اٹھا کر ہسپتال پہنچا رہے تھے جبکہ کئی لوگ ملبے تلے سے لاشیں نکال رہے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بیشونٹری کی مقامی مسجد کے امام مولانا عبدالصمد کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ جب سیلابی ریلا آرہا تھا تو زیادہ نہیں تھا۔ میں نے گھر والوں کو ہدایت کی کہ علاقے کے مختلف لوگوں کی طرح وہ بھی اپنا ضروری سامان لیں اور نکلیں میں نوافل پڑھ کر آتا ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے سابق تحصیل ناظم پیر بابا اشفاق احمد کے گھر والوں کی قبریں کھودنے میں مدد کی ہے۔اشفاق احمد حادثے کے وقت خود اسلام آباد میں تھے۔ ان کے خاندان کے دس افراد ابھی بھی لاپتا ہیں۔‘
نور السلام کا کہنا تھا کہ ’وہاں پر شاید ہی کوئی گھر ایسا بچا ہو جس کا کوئی فرد لاپتا نہیں ہے۔ بظاہر زیادہ تر خواتین اور بچے لاپتا ہیں۔‘
ریسیکو 1122 بونیر کے مطابق کئی لوگوں نے اپنے گھر والوں زیادہ تر خواتین اور بچوں کے لاپتا ہونے کی شکایت کی ہے۔ جن کے بارے میں کچھ پتا نہیں چل رہا ہے۔
’ایسا منظر پہلے نہیں دیکھا‘
ریسیکو 1122 بونیر کے مطابق بیشونٹری گاون کی آبادی تقریباً ایک ہزار ہے۔
محمد اسلام کہتے ہیں کہ ’میں تقریباً اڑھائی بجے بیشونٹری گاؤں پہنچا۔ گاؤں میں ہر طرف ویرانی اور موت کا سایہ تھا۔ وہاں پر گھر مٹ چکے تھے اور جو لاشیں ملبے کے نیچے سے نکالی جا رہیں تھیں ان کے رکھنے کے لیے بھی کوئی مناسب جگہ نہیں تھی۔‘
’سینکڑوں لوگ مدد کے لیے پہنچ گے تھے اور مغرب تک لوگ قبریں کھودتے رہے اور لاشوں کو تلاش کرتے رہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے ایک رشتہ دار کے خاندان میں سے صرف دو لوگ بچے ہیں۔ وہ بھی اس وجہ سے کہ وہ درخت پر چڑھ گئے تھے جبکہ انھوں نے ہمیں بتایا کہ ملبے تلے چھ لاشیں موجود ہیں۔ وہ لاشیں ہم نے تلاش کرنے کی کوشش کی مگر نہیں مل سکیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے ایک اور دوست صاحبزادہ اشفاق احمد جو خود اسلام آباد ہوتے ہیں ان کے بھائی محمد زبیر اوراہل خانہکے 13 لوگ ہیں جن میں سے اب تک صرف چار لاشیں ملی ہیں بچے اور خواتین لاپتا ہیں۔ ان کا کچھ پتا نہیں چل رہا ہے۔ اس خاندان کو میں نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کفن دفن کا انتظام کرنے میں مدد فراہم کی تھی۔‘
ریسیکو 1122 بونیر کے عبدالرحمن کے مطابق بیشونٹری کے علاوہ کچھ اور گاؤں بھی متاثر ہیں۔
’وہاں پر ہماری ٹیمیں پہنچ چکی ہیں جبکہ صوبے کے دیگر علاقوں سے بھی ٹیمیں پہنچ رہی ہیں۔ مگر صورتحال انتہائی گھمیبر ہے۔‘
عبدالرحمنکا کہنا تھا کہ ’رات کے اندھیرے میں ریسکیو میں مشکلات درپیش ہیں۔ موبائل سگنل کے علاوہ بجلی کا نظام درھم برہم ہے۔ لیکن اس صورتحال میں بھی تلاش کا آپریشن جاری ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہسپتالوں میں متواتر لاشیں اور زخمی پہنچائے جا رہے ہیں اور ہر تھوڑی دیر بعد ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘
بارشوں کی تباہی سے سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع

پی ڈی ایم اے کے مطابق یہ حادثات صوبہ کے مختلف اضلاع سوات، بونیر، باجوڑ، تورغر، مانسہرہ، شانگلہ اور بٹگرام میں پیش آئے۔
ادارے نے تیز بارشوں اور فلش فلڈ كے باعث سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع باجوڑ اور بٹگرام کو قرار دیا ہے۔
پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ ضلع باجوڑ اور بونیر کے امدادی کاموں کے لیے ہیلی کاپٹرز بھی روانہ کر دیے گئے ہیں جہاں ریسکیو آپریشن جاری ہے
املاک کو پہنچنے والا نقصان
پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ بارشوں اور فلیش فلڈ کے باعث اب تک کی رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر 45 گھروں کو نقصان پہنچا ہے جس میں 38 گھروں کو جزوی نقصان پہنچا جبکہ سات گھر مکمل منہدم ہوئے۔
پی ڈی ایم اے کےمطابق امدادی ٹیمیں اور ضلعی انتظامیہ آپس میں مكمل رابطے میں ہیں اور صورتحال كی نگرانی كی جا رہی ہے جبکہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی خصوصی ہدایت پر تمام متعلقہ اداروں كو امدادی سرگرمیاں تیز كرنے كی ہدایت بھی کی گئی ہے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی ہدایت پر بارشوں اور فلش فلڈ كے باعث متاثرہ اضلاع كے لیے مجموعی طور پر 50 کروڑ روپے جاری کیے گئے ہیں۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق بارشوں اور فلش فلڈ كے باعث متاثرہ ضلع بونیر کو 15 کروڑ، ضلع باجوڑ، بٹگرام اور مانسہرہ کو10، 10 کروڑ اور سوات كو پانچ كروڑ روپے جاری کیے گئے ہیں۔
پی ڈی ایم اے کے اعلامیے کےہے مطابق تما م متعلقہ اداروں کو سیاحتی مقامات پر بند شاہراوں اور رابطہ سٹرکوں کی بحالی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ محکمہ موسمیات نے شدید بارشوں کا موجودہ سلسلہ 21 اگست تک وقفے وقفے سے جاری رہنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔
پی ڈی ایم اے نے تمام سیاحوں کو موسمی صورتحال سے آگاہ کرنے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔
کلاٰوڈ برسٹ یا بادل پھٹنا کیا ہے؟
محکمہ موسمیات کی تعریف کے مطابق اگر کسی چھوٹے علاقے (ایک سے دس کلومیٹر کے اندر) میں ایک گھنٹے میں 10 سینٹی میٹر یا اس سے زیادہ شدید بارش ہوتی ہے تو اس واقعے کو ’بادل کا پھٹنا‘ کہا جاتا ہے۔
بعض اوقات ایک جگہ پر ایک سے زیادہ بادل پھٹ سکتے ہیں۔ ایسے میں جان و مال کا بہت نقصان ہوتا ہے جیسا کہ سنہ 2013 میں انڈیا کی ریاست اتراکھنڈ میں ہوا تھا لیکن شدید بارش کے ہر واقعے کو بادل پھٹنا نہیں کہا جاتا۔
یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صرف ایک گھنٹے میں 10 سینٹی میٹر کی تیز بارش سے زیادہ نقصان نہیں ہوتا لیکن اگر قریب ہی کوئی دریا یا جھیل ہو اور وہ اچانک زیادہ پانی سے بھر جائے تو قریبی رہائشی علاقوں میں زیادہ نقصان ہوتا ہے۔