اسلامی آزاد یونیورسٹی میں زیرجامہ میں آنے والی لڑکی کی وائرل ویڈیو اور گرفتاری: ’میں آپ کو بچانے آئی ہوں‘

انسانی حقوق کے کارکنوں نے ایران میں حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ اُس خاتون کو رہا کیا جائے جنھیں تہران کی یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ریسرچ کے کیمپس میں کپڑے اُتارنے کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔ کارکنوں کا کہنا ہے کہ خاتون ایران میں نافذ حجاب کے لازمی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہی تھیں۔

انسانی حقوق کے کارکنوں نے ایران میں حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ اُس خاتون کو رہا کیا جائے جنھیں تہران کی یونیورسٹی کے کیمپس میں کپڑے اُتارنے کے بعد حراست میں لیا گیا تھا۔ کارکنوں کا کہنا ہے کہ خاتون ایران میں نافذ حجاب کے لازمی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہی تھیں۔

یاد رہے کہ گذشتہ سنیچر کو سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ صرف زیر جامہ ملبوس کیے ہوئے ایک خاتون یونیورسٹی کیمپس کی سیڑھیوں پر بیٹھی ہوئی ہیں اور تھوڑی دیر بعد وہ اسی حالت میں اٹھ کر چہل قدمی کرتی ہیں۔ یہ خاتون تہران کی اسلامی آزاد یونیورسٹی کی سائنس اینڈ ریسرچ ڈپارٹمنٹ کے احاطے میں دیکھی گئی تھیں۔

اسی نوعیت کی ایک اور ویڈیو میں اسی خاتون کو کچھ دیر بعد اپنا انڈرویئر اتارتے دیکھا جا سکتا ہے جس کے بعد سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار انھیں زبردستی حراست میں لے کر گاڑی میں دھکیلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

آزاد یونیورسٹی نے اس ضمن میں جاری کردہ اپنے بیان میں کہا ہے کہ خاتون کی ’ذہنی صحت ٹھیک نہیں‘ ہے اور انھیں ’مینٹل ہسپتال‘ لے جایا گیا ہے۔

سوشل میڈیا پر بہت سے ایرانی شہریوں نے یونیورسٹی کے اِس دعوے پر سوال اٹھایا ہے اور خاتون کے نیم برہنہ ہونے کے اقدام کو ایران میں جاری ’عورت، زندگی، آزادی‘ تحریک کے ایک حصے کے طور پر پیش کیا ہے، اس تحریک کے دوران ماضی میں بہت سی خواتین نے عوامی مقامات پر حجاب کے لازمی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ ایران میں نافذ حجاب کے قانون کے مطابق خواتین کو عوامی مقامات پر اپنے بالوں کو ڈھانپنے اور ڈھیلے ڈھالے لباس پہننے کی تاکید ہے۔

سوشل میڈیا پر ایران کے کئی شہریوں نے یونیورسٹی کے دعوے پر سوال اٹھایا ہے۔ اُن کے مطابق خاتون کے اقدامات ’زن، زندگی، آزادی‘ تحریک کا حصہ تھے، جو حقوق نسواں پر مبنی ہے۔

دو سال قبل ایک ایرانی خاتون مہسا امینی کو ’صحیح طریقے سے‘ حجاب نہ پہننے پر حراست میں لیا گیا تھا تاہم بعدازاں دوران حراست مہسا کی موت ہو گئی تھی۔

اُن کی ہلاکت کی خبر سامنے آنے کے بعد ملک بھر میں مظاہرے ہوئے تھے جن میں مبینہ طور پر 500 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے اور یہ مظاہرے ’زن، زندگی، آزادی‘ تحریک کا حصہ تھے۔ اس تحریک میں بہت سی خواتین نے عوامی طور پر ان قوانین کی خلاف ورزی کی تھی جن میں انھیں اپنے بالوں کو ڈھانپنے اور لمبے، ڈھیلے ڈھالے لباس پہننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

خاتون کے کپڑے اتارنے کے واقعے کو سماجی رابطے کے پلیٹ فارم ٹیلی گرام پر چینل ’امیر کبیر نیوز لیٹر‘ نے سب سے پہلے واقعہ رپورٹ کیا تھا۔ اُن کے مطابق خاتون کا حجاب نہ پہننے پر سکیورٹی ایجنٹس کے ساتھ جھگڑا ہوا تھا جس کے ردعمل میں انھوں نے اپنے کپڑے اتار دیے تھے۔

تصویر
Getty Images
ایران میں نافذ حجاب کے قانون کے مطابق خواتین کو عوامی مقامات پر اپنے بالوں کو ڈھانپنے اور ڈھیلے ڈھالے لباس پہننے کی تاکید ہے

ٹیلی گرام چینل کے مطابق حراست میں لیے جاتے وقت خاتون نے مزاحمت کی جس کے بعد سر سادہ لباس میں ملبوس اہلکار نے ان کا سر گاڑی سے ٹکرایا جس کے نتیجے میں اُن کے سر سے خون بہنے لگا اور انھیں کسی نامعلوم جگہ منتقل کر دیا گیا۔

ایک عینی شاہد نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ خاتون آزاد یونیورسٹی میں اُن کے کلاس روم میں گھس آئیں اور طلبا کی ویڈیو ریکارڈ کرنے لگیں اور جب لیکچرر نے انھیں ٹوکا تو وہ غصہ کرتے ہوئے چلی گئیں۔

عینی شاہدین کے مطابق وہ خاتون طلبا سے کہہ رہی تھیں ’میں آپ کو بچانے کے لیے آئی ہوں۔‘

اس دوران ایرانی میڈیا نے ایک شخص کی ویڈیو جاری کی جن کا دعویٰ ہے کہ یہ اُن خاتون کا سابق شوہر ہے۔ ویڈیو میں اس آدمی کا چہرہ دھندلا کیا ہو اہے۔ ویڈیو میں یہ شخص عوام سے درخواست کرتا ہے کہ اُن کے دو بچوں کی خاطر عوام خاتون کی ویڈیو شیئر نہ کریں۔تاہم بی بی سی اس شخص کے دعوؤں کی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکی ہے۔

کینیڈا میں مقیم خواتین کے حقوق کی کارکن اعظم جنگروی نے بتایا کہ ’جب میں نے حجاب کے قوانین کے خلاف احتجاج کیا تھا تو سیکورٹی فورسز نے مجھے گرفتار کیا اور میرے اہل خانہ پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ مجھے ذہنی مریض قرار دیں۔‘

اعظم جنگروی کو سنہ 2018 میں احتجاج کے دوران اپنا حجاب اتارنے کے جرم میں تین سال قید کی سزا سنائی گئی تھی تاہم وہ سزا پر عملدرآمد سے قبل ایران سے فرار ہو گئیں۔

انھوں نے کہا ’میرے خاندان نے ایسا نہیں کیا لیکن بہت سے خاندان دباؤ میں آ جاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اپنے پیاروں کی حفاظت کرنے یہی ایک راستہ ہے۔ اسی طرح اسلامی جمہوریہ ایران خواتین کو اُن کی ذہنی صحت پر سوالیہ نشان لگا کر رد کرنے کی کوشش کرتی ہے۔‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ ایران کو ’یونیورسٹی کی طالبہ کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کرنا چاہیے جنھیں تشدد کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔‘ ’ان کی رہائی تک حکام کو تشدد اور دیگر ناروا سلوک سے ان کی حفاظت کرنی چاہیے اور ان کے خاندان اور وکیل تک ان کی رسائی یقینی بنانا چاہیے۔‘

بیان میں کہا گیا کہ’گرفتاری کے دوران طالبہ پر مار پیٹ اور جنسی تشدد کے الزامات کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی ضرورت ہے۔ ذمہ داران سے حساب لینا ضروری ہے۔‘ ایران کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ مائی ساتو نے یہ فوٹیج ایکس پر پوسٹ کی اور لکھا کہ وہ ’اس واقعے کو دیکھ رہی ہیں اور حکام کے ردعمل‘ پر بھی غور کر رہی ہیں۔

ایرانی نوبل امن انعام یافتہ نرجس محمدی جو اس وقت ایران میں قید ہیں، نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس کیس کے بارے میں سخت فکر مند ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’خواتین خلاف ورزی کی قیمت ادا کرتی ہیں لیکن ہم جبر کے سامنے نہیں جھکیں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ خواتین کے جسم کو جبر کے ہتھیار کے طور پر طویل عرصے تک استعمال کیا گیا ہے۔ تاہم ’یونیورسٹی میں احتجاج کرنے والی طالبہ نے اپنے جسم کو اختلاف رائے کی علامت میں تبدیل کر دیا۔ میں اس کی آزادی اور خواتین کو ہراساں کرنے کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہوں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US