ساڑھے تین سال تک طالبان کی قید میں رہنے والے اور اپنا مذہب تبدیل کر کے اسلام قبول کرنے والے آسٹریلوی شہری ٹموتھی ویکس، جن کا مسلم نام جبرائیل عمر ہے، کابل میں وفات پا گئے ہیں۔
ساڑھے تین سال تک طالبان کی قید میں رہنے والے اور اس دوران اپنا مذہب تبدیل کر کے اسلام قبول کرنے والے آسٹریلوی شہری جبرائیل عمر کابل میں وفات پا گئے ہیں۔
اسلام قبول کرنے سے قبل جبرائیل کا سابقہ نام ٹموتھی ویکس تھا۔
طالبان کی وزارتِ داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قانی نے ایک ٹویٹ میں بتایا کہ وہ ایک عرصے سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھے اور اُن کی وفات افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ہوئی ہے۔
آسٹریلیا کے سرکاری خبررساں اداروں ’ایس بی ایس‘ اور ’اے بی سی‘ کی جانب سے بھی طالبان کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے یہ خبر رپورٹ کی گئی ہے۔
جبرائیل عمر (ٹموتھی ویکس) کو اگست 2016 میں طالبان نے کابل کی امریکی یونیورسٹی کے مرکزی دورازے سے اغوا کیا تھا اور ساڑھے تین سال تک طالبان کی قید میں رہنے کے بعد دوحہ معاہدے کے نتیجے میں اُن کی رہائی سنہ 2019 میں طالبان رہنماؤں انس حقانی اور خلیل حقانی سمیت تین اہم دیگر کمانڈروں کی رہائی کے بدلے ہوئی تھی۔
انس حقانی کی جانب سے جبرائیل عمر کی وفات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انھیں خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔
انھوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’ٹموتھی ویکس اور میں مختلف جگہوں اور وقتوں میں اس دنیا میں آئے۔ لیکن قسمت نے ہم دونوں کو ایک ایسے دوراہے پر لاکھڑا کیا جہاں میری موت کا مطلب اُس کی موت، میری زندگی اور اس کی زندگی کا تعلق قائم ہو گیا اور اس کی آزادی میری آزادی کا سبب بن گئی۔۔۔‘
انس حقانی نے مزید کہا کہ ’اپنی قید کے دوران میں نے معاف کرنا، عزت کرنا اور لوگوں کے لیے خوشی کی دعا کرنا سیکھا جبکہ ٹموتھی ویکس نے کانٹوں سے بھرے اپنے سفر کے دوران ایمان اور ہدایت کی دولت حاصل کی جس کے باعث ہمیں جبریل عمر ملے۔‘
’قیدیوں کے تبادلے کے بعد جب وہ قطر آئے تو ہماری ملاقات ایسے ہوئی جیسے ہم سالوں کے بچھڑے دوست ہوں۔ آج کینسر نے انھیں ہم سے چھین لیا ہے اور مجھے بہت افسردہ کر دیا ہے، لیکن یہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے ہم اگلے جہاں میں جاتے ہیں، ہم میں سے ہر کسی کی جانے کی وجہ مختلف ہوتی ہے لیکن جانے کا طریقہ سب سے اہم ہوتا ہے اور ان کا طریقہ بلاشبہ بہترین تھا۔‘
طالبان کی وزارتِ داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قانی نے ایک ٹویٹ میں بتایا کہ ’انھیں (جبرائیل عمر) افغانستان اور اماراتِ اسلامیہ سے محبت تھی اسی لیے انھوں نے کابل میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ وہ وقتاً فوقتاً ملک کے مختلف حصوں کا دورہ کرتے تھے اور اسلام کے حوالے سے اپنے علم میں اضافہ کرتے تھے۔‘
طالبان کی قید میں ٹموتھی نے کس قسم کی صعوبتیں برداشت کیں اور اسلام قبول کرنے اور اپنی رہائی کے بعد افغانستان واپس جانے کو ترجیح دینے والے جبرائیل عمر کون تھے؟
آسٹریلوی شہر ’وگہ وگہ‘ کی پیدائش
بی بی سی کے لیے صحافی محمود جان بابر کو سنہ 2022 میں دیے گئے ایک خصوصی تحریری انٹرویو میں اپنی زندگی کے ان ساڑھے تین برسوں، اس سے قبل اور بعد کی زندگی کے بارے میں جبرائیل عمر نے دلچسپ تفصیلات فراہم کی تھیں۔
آسٹریلیا کے معروف سابق سپن بولر شین وارن کے شہر ’وگہ وگہ‘ میں پیدا ہونے والے جبرائیل عمر (ٹموتھی ویکس) کو افغانستان آنے سے پہلے اس خطے کے بارے میں اتنا ہی پتہ تھا جتنا اُن کی دادی نے اپنے گھر کی دیوار پر لگے ایک ایرانی یا افغانی قالین کے ٹکڑے پر نقش بادشاہوں کی کہانیاں سُنا کر انھیں بتایا تھا۔
جبرائیل عمر کے مطابق یہ قالین اُن کے بچپن کی کہانیوں کی پہلی کتاب تھی۔
وگہ وگہ میں پلنے بڑھنے کے بعد انھوں نے برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کی اور بطور انگریزی کے استاد کام شروع کر دیا۔
انھوں نے بی بی سی کو اس انٹرویو میں اپنے اغوا، طالبان کے قید میں گزارے وقت اور اہم طالبان رہنما انس حقانی کے بدلے رہائی کی تفصیلات بھی بتائی تھیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کے اغوا ہونے کے کچھ ہی عرصے بعد طالبان کے ایک کمانڈر نے انھیں بتایا تھا کہ وہ بہت جلد رہا کر دیے جائیں گے لیکن ان پر بعد میں یہ انکشاف ہوا کہ امریکہ کی طرح آسٹریلیا کی بھی پالیسی نہیں تھی کہ وہ اپنے اغوا ہونے والے لوگوں کی رہائی کے لیے تاوان کی رقم ادا کریں۔
اس لیے طالبان کی قید میں ان کے قیام کا دورانیہ طویل ہوتے ہوتے ہفتوں سے مہینوں اورمہینوں سے برسوں تک چلا گیا۔
’اغوا نہ ہوا ہوتا تو اسلام کو ایک حقیقت کے طور پر نہ جان پاتا‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’ایک دن جہاں میں قید تھا اس گھر کے باہر سے بچوں کے کھیلنے کودنے اور ہنسنے کی آوازیں سُنائی دیں۔ بطور استاد مجھے ان بچوں کے مستقبل کی فکر لاحق ہو گئی کہ ان بے چاروں کے پاس اچھی زندگی اور بہتر مستقبل کے لیے کیا امکانات موجود ہیں؟ اور اسی وقت میں نے فیصلہ کیا کہ اگر زندگی نے وفا کی اور آزادی ملی تو میں دوبارہ افغانستان واپس لوٹ کر آؤں گا اور ان بچوں کے لیے اپنی استطاعت کے مطابق جو بھی بن پایا ضرور کروں گا۔‘
انھوں نے بی بی سی کو مزید بتایا تھا کہ ’میری خوش قسمتی ہے کہ اغوا کی اس برائی میں مجھے اچھائی کی ایک کرن نظر آئی ہے، اب میرے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کیونکہ میں سو فیصد پرعزم ہوں کہ اپنے افغان بہن بھائیوں کی مدد کروں۔‘
’مجھے اب طالبان کے ہاتھوں اغوا ہونے پر کوئی افسوس نہیں کیونکہ اگر یہ نہ ہوا ہوتا تو میں اسلام کو ایک حقیقت کے طور پر نہ جان پاتا۔ اب مجھے افغانستان، وہاں کی ثقافت اور لوگوں سے محبت ہے جو میرے اپنے ہیں اور میں ان کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں۔'
ایک سوال کے جواب میں جبرائیل عمر نے کہا تھا کہ ’مجھے افغانستان کی امارت اسلامی کی سینیئر قیادت پر پورا یقین ہے کیونکہ میں اپنی آزادی کے بعد سے ان کے ساتھ مذاکرات کے عمل میں مسلسل شامل رہا ہوں، مجھے گذشتہ سال کے آغاز میں امریکہ اور طالبان کے مابین قطر میں معاہدے پر دستخطوں کے موقع پر دوحہ آنے کی دعوت دی گئی تھی۔‘
انھوں نے اپنی رہائی کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں نے یہ بات تسلیم کر لی ہے کہ ان کی حفاظت پر مامور فوجی اوپر سے دیے گئے احکامات پر عمل کر رہے تھے اور ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔‘
’میں ان (طالبان) سے بالکل بھی نفرت نہیں کرتا اور ان میں سے کچھ کے بارے میں میرے دل میں بہت احترام اور پیار ہے۔ ان میں کچھ بہت حساس اور بہترین افراد تھے اور اس نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا۔۔۔ کہ وہ یہاں تک کیسے پہنچے؟‘
ٹموتھی ویکس اور کیون کنگ کی طالبان کی قید میں لی گئی تصویر’اکثر زنجیروں میں جکڑ کر رکھا جاتا تاکہ بھاگ نہ سکوں‘
ساڑھے تین سال تک طالبان کی قید میں رہنے کا یہ دورانیہ جبرائیل عمر (ٹموتھی ویکس) کے لیے بہت مشکل تھا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ کہ انھیں اکثر زنجیروں میں جکڑ کر رکھا جاتا تھا تاکہ وہ بھاگ نہ سکیں۔ طالبان امریکی فوج کے ہاتھوں پہنچنے والے کسی بھی قسم کے نقصان کا بدلہ ان پر تشدد کر کے لیتے خصوصاً جب بھی کسی جگہ سے طالبان جنگجوؤں کے مارے جانے کی خبر آتی تو طالبان انھیں تشدد کا نشانہ بناتے تھے۔
جبرائیل عمر کے مطابق طالبان کی قید میں انھیں فرش بھی صاف رکھنا ہوتا تھا اور ٹھنڈے پانی سے طالبان کے کپڑے بھی دھونے ہوتے تھے جو اگر ٹھیک طرح صاف نہ ہوتے تو اس کا خمیازہ بھی انھیں مار کی صورت ہی بھگتنا پڑتا تھا۔
جبرائیل نے دوران قید امریکی فوجیوں کی جانب سے اپنی رہائی کے لیے کی گئی ایک کارروائی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ’جب نیوی سیلز طالبان کے ساتھ شدید جھڑپ کے دوران اس گھر کے احاطے میں داخل ہوئے جہاں ہم قید تھے تو ہم نے ہمت کر کے طالبان سے پوچھا کہ یہ حملہ آور کون ہیں تو انھوں نے حقیقت نہ بتاتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ کرنے والے داعش کے لوگ ہیں۔‘
اپنی اسیری کے دوران گزارے وقت کا بتاتے ہوئے وہ کہتے تھے کہ ’قید تو قید ہوتی ہے، بہت مشکل حالات تھے ایسے کئی مواقع آئے جب مجھے اس قدر مار پیٹ اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا کہ اگلا دن دیکھنے کی کوئی امید باقی نہیں رہتی تھی۔‘
قید کے ابتدائی دو سال جبرائیل کی زندگی بہت مشکل رہی طالبان تشدد کے ساتھ ساتھ کھانے کو بھی اتنا کم دیتے تھے کہ بس جسم و جان کا رشتہ قائم رہے۔
کیون کنگ اور ان کی بازیابی کے لیے امریکی فورسز نے افغانستان کے مختلف علاقوں میں متعدد کارروائیاں کی تھیں تاہم کامیابی نہ ملی۔
ایک دو بار تو ایسا بھی ہوا کہ امریکی فوج کے کمانڈوز اُن ٹھکانوں تک بھی پہنچ گئے جہاں انھیں قید رکھا گیا تھا، ان ٹھکانوں میں افغانستان کے شہر غزنی میں اُس گھر کے احاطے تک پہنچنا بھی شامل ہے جہاں طالبان اور امریکی فوجیوں کے مابین بازیابی کے مشن کے دوران شدید جھڑپ بھی ہوئی تھی۔
تاہم امریکی فورسز مغویوں کو بازیاب کروانے میں ناکام رہی کیونکہ ہر دفعہ آپریشن سے کچھ روز قبل یا عین موقع پر مغویوں کو نئے ٹھکانے پر منتقل کر دیا جاتا تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کے ساتھ اغوا ہونے والے پروفیسر کیون کنگ کی عمر زیادہ تھی اور جب امریکی کمانڈوز ان کی تلاش میں طالبان کے ٹھکانوں پر دھاوا بولتے تھے تو انھیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا تھا، جس میں کافی مشکل پیش آتی تھی۔
دوران قید ساڑھے تین برسوں میں انھیں 33 مختلف مقامات پر رکھا گیا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’پروفیسر کیون کا وزن بھی زیادہ تھا اور انھیں سننے میں مشکل بھی ہوتی تھی۔ رات کے کسی پہر جب فورسز کے ہیلی کاپٹر ہمارے سروں پر پہنچتے اور ہمیں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا تو طالبان سرگوشیوں میں مجھے جلدی نکلنے کا حکم دیتے تو میں یہ حکم پروفیسر کیون کے کان میں کہتا تو وہ اسے سُن نہ پاتے اور معاملہ بگڑنے لگتا تو طالبان پھر مجھے ہی مارتے۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’دو سال کا عرصہ گزرنے کے بعد اچانک طالبان کے رویے میں تبدیلی آ گئی، وہ ہمیں اچھی خوراک دینے لگے، بلکہ ورزش کا بھی موقع ملنے لگا شاید طالبان کو ہمارے بدلے ساتھیوں کی رہائی کی توقع پیدا ہو چلی تھی۔‘
ٹموتھی ویکس اپنی بیٹیوں کے ہمراہوالدہ کی وفات اور اسلامی کتب کا مطالعہ
طالبان کے قید کے دوران ہی جبرائیل عمر کی والدہ کی آسٹریلیا میں وفات ہو گئی۔ رہائی کے بعد انھوں نے اپنے بھی کچھ طبی ٹیسٹ کروائے تو انھیں علم ہوا کہ وہ گریڈ فائیو کے کینسر کا شکار ہیں۔ رہائی کے بعد سے ان کے 18 ماہ کے دوران گیارہ آپریشن اور دو ماہ دورانیے کی ریڈیو تھراپی ہوئی تھی۔
جبرائیل عمر نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ دوران قید جب طالبان کی جانب سے جبر و تشدد کا سلسلہ کچھ کم ہوا اور حالات بہتر ہونے لگے تو پھر انھیں مطالعے کا شوق ہوا۔ ’میں نے طالبان سے کچھ کتابیں مانگیں تو انھوں نے اُردو بازار کراچی میں چھپنے والی کچھ کتابیں اور انگریزی زبان میں قرآن کی تفسیر لا کر دی۔‘
’یہ کتابیں اور قرآن پڑھنے کے بعد میں آہستہ آہستہ اسلام کی طرف راغب ہونے لگا۔ آخر کار میں نے پانچ مئی 2018 کو اسلام قبول کر لیا اور وضو و نماز کی پریکٹس شروع کر دی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’میرے قبول اسلام کا طالبان کو پتہ چلا تو حیران کن طور پر انھوں نے خوش ہونے کے بجائے مجھے جان سے مارنے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔‘
جبرائیل عمر افغانستان میں طالبان کی قید کے دوران اسلام قبول کرنے والے دوسرے فرد ہیں۔ اُن سے پہلے برطانوی خاتون صحافی ایون ریڈلی بھی ایسا کر چکی ہیں اور اسلام کی مبلغہ کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ ایون ریڈلی کو افغان طالبان نے سنہ 2001 میں اغوا کیا تھا۔
جبرائیل عمر بتاتے ہیں کہ ساڑھے تین برس کی قید کے بعد جب وہ گھر واپس لوٹے اور خاندان کے افراد کو جب یہ علم ہوا کہ میں تو اپنے ’دشمن‘ یعنی طالبان کی افغانستان میں حکومت امارت اسلامی کی حمایت کرتا ہوں تو وہ ان کے لیے یہ بات تسلیم کرنا بہت مشکل ہو رہا تھا۔
’بہت سے لوگوں مجھے طعنے دیتے تھے کہ میں سٹاک ہوم سنڈروم نامی بیماری میں مبتلا ہو چکا ہے۔‘
واضح رہے کہ سٹاک ہوم سینڈروم ایک ایسی بیماری ہے جس کے شکار لوگ جب خود کو اغواکاروں سے آزاد کرانے کی امید کھو بیٹھتے ہیں تو ان میں سے چند ایک کا جسمانی اور ذہنی اذیت سے بچانے والا نفسیاتی دفاعی نظام لاشعوری طور پر اغوا کاروں کا حامی ہونے لگتا ہے۔ یوں زیادتی کا شکار زیادتی کرنے والے کا وکیل بن کے کھڑا ہو جاتا ہے۔
جبرائیل عمر کا کہنا تھا کہ ’میرے بارے میں ایسی سوچ کا حقیقت سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں تھا۔‘
انھوں نے بتایا تھا کہ وہ سٹاک ہوم سینڈروم کا شکار نہیں ہیں کیونکہ انھیں دوران حراست بہت مار سہنی پڑی ہے لیکن وہ اس حقیقت کو جان چکے ہیں کہ افغانستان کی طالبان حکومت اپنی پیش رو ہر حکومت سے بہتر ہے کیونکہ اس کے رہنما کسی قسم کے کرپشن میں ملوث نہیں۔