جے شنکر کا دورہ چین صرف ایک سفارتی دورہ نہیں بلکہ کئی اہم سوالات کو بھی جنم دیتا ہے۔ اپوزیشن جماعت کانگریس نے سوال اٹھایا کہ ’پاکستان کی حمایت کرنے والے چین کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے؟‘
انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے گزشتہ ہفتے چین کا دورہ کیا جہاں انھوں نے چینی صدر شی جن پنگ سمیت اعلیٰ حکام سے ملاقات کی۔
جے شنکر کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب دونوں ملک گزشتہ کچھ سال سے جاری کشیدگی کے بعد دو طرفہ تعلقات کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 2020 کے گلوان تنازع کے بعد یہ انڈیا کے وزیر خارجہ کا پہلا چین کا دورہ تھا۔
ایک ایسے وقت میں جب کہ انڈیا میں پاکستان کے ساتھ چار روزہ تنازع کے دوران چین کی طرف سے اسلام آباد کی حمایت پر بہت زیادہ بحث چھڑی ہوئی ہے، جے شنکر کا دورہ چین صرف ایک سفارتی دورہ نہیں ہے بلکہ کئی اہم سوالات کو بھی جنم دیتا ہے۔
پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازع کے دوران چین نہ صرف کھل کر پاکستان کی حمایت کر رہا تھا بلکہ ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں کہ اس نے اسلام آباد کو ہتھیار بھی فراہم کیے تھے۔ ایسے میں جے شنکر کا چین جانا کتنا درست ہے؟
کیا انڈیا چین کے قریب آ کر امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن پیدا کرنا چاہتا ہے؟ کیا جنوبی ایشیا اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں چین کا اثر و رسوخ انڈیا سے زیادہ ہے؟
مزید خبروں کے لیے بی بی سی اردو کے واٹس ایپ چینل کا رُخ کریں!
تعلقات میں نئے دور کا آغاز یا محض علامتی دورہ؟
گزشتہ سال اکتوبر میں انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ نے روس میں برکس سربراہی اجلاس کے دوران ملاقات کی تھی۔ 2020 میں کشیدگی کے بعد مودی اور شی جن پنگ کے درمیان یہ پہلی دو طرفہ ملاقات تھی جس کے بعد مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا۔
گزشتہ ماہ جون میں انڈیا کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ بیجنگ پہنچے تھے۔ ان دونوں نے شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے اجلاس میں شرکت کی۔
اب جے شنکر کے دورہ چین کے بعد کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ تعلقات کی بحالی ہے۔ ساتھ ہی کچھ لوگ اسے محض علامتی دورہ بھی قرار دے رہے ہیں۔
بین الاقوامی امور کی ماہر شروتی پنڈال کا ماننا ہے کہ جے شنکر کے اس دورے کو دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
واضح رہے کہ انڈیا اور چین کے درمیان تین ہزار کلومیٹر سے زیادہ طویل سرحد ہے اور تنازعوں کے باعثاکثر جھڑپیں بھی ہو جاتی ہیں۔
تاہم حال ہی میں، اپریل میں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انڈیا اور چین دونوں پر تجارتی محصولات عائد کیے تھے۔ چین نے کھل کر احتجاج کیا جبکہ انڈیا نے مذاکرات کا راستہ چنا۔
ایسے حالات میں انڈیا کی ترجیح کیا ہے؟
بین الاقوامی سیاست کے پروفیسر پشپ ادھیکاری اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ ’اصل مسئلہ سرحد کا ہے لیکن اب اسے ایک طرف کر دیا گیا ہے۔ اس کے پیچھے وجہ ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔ امریکی صدر کی پالیسیوں نے دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے قریب آنے پر مجبور کیا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان یہ تعلق کہاں تک جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ امریکہ انڈیا سے دو طرفہ تجارت کے لیے کہے اور خود کو روس اور چین سمیت برکس ممالک سے دور کر لے۔ اگر انڈیا ٹرمپ کی بات مان لیتا ہے تو مجھے نہیں لگتا کہ چین کے ساتھ اس کے تعلقات بہت آگے جائیں گے۔‘
جب پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازع اپنے عروج پر تھا تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر جنگ بندی کا اعلان کیاپاکستان، امریکہ اور روس کے لیے پیغام؟
جے شنکر کا دورہ انڈیا کی اندرونی سیاست میں بھی بحث کا موضوع بن گیا۔ اپوزیشن جماعت کانگریس نے سوال اٹھایا کہ ’پاکستان کی حمایت کرنے والے چین کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے؟‘
دہلی یونیورسٹی کے شعبہ ایسٹ ایشین سٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر راجیو رنجن کا کہنا ہے کہ ’اگر وزیر خارجہ چین نہ جاتے تو کہیں نہ کہیں انڈیا کے مفادات کو نقصان پہنچتا۔‘
ان کے مطابق ’وزیر خارجہ نے ایس سی او کے پلیٹ فارم پر دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھائی ہے، اگر وہ وہاں نہ جاتے تو ایسی آوازیں نہ اٹھتیں۔ اگر آپ انکار کرتے ہیں تو جو سمٹ انڈیا میں ہونا ہے، تو ممکن ہے کہ چینی قیادت انڈیا آنے سے انکار کردے۔‘
جب پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازع اپنے عروج پر تھا تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر جنگ بندی کا اعلان کیا۔ پاکستان نے ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا جبکہ انڈیا نے اب تک جنگ بندی میں ٹرمپ کے کردار کو قبول نہیں کیا۔ اس کے باوجود ٹرمپ نے بارہا جنگ بندی میں اپنے اہم کردار کا اعادہ کیا ہے۔
شروتی پنڈال کا کہنا ہے کہ ’انڈیا نے امریکہ سے بارہا کہا ہے کہ پاکستان اور انڈیا کا مسئلہ دو طرفہ مسئلہ ہے، اسی طرح انڈیا چین کے ساتھ تعلقات کو دوطرفہ رکھنا چاہتا ہے۔ ایس سی او میں وزیر خارجہ نے واضح طور پر کہا ہے کہ کوئی تیسرا فریق دوطرفہ تعلقات کو متاثر نہیں کر سکتا۔ ٹرمپ کی پالیسیوں کی وجہ سے چین اور امریکہ کے مفادات میں توازن برقرار ہے۔‘
پروفیسر پشپ ادھیکاری کا کہنا ہے کہ ’روس سے خبر آئی ہے کہ وہ روس-چین-انڈیا کے سہ فریقی اتحاد کو فعال کرنا چاہتا ہے۔ اب انڈیا کو کچھ جواب دینا ہی پڑے گا کیونکہ دلی اس معاملے پر امریکہ کے قریب ہو رہا تھا۔ اب انڈیا کو اپنا پارٹنر منتخب کرنے کا چیلنج درپیش ہو گا۔‘
گزشتہ سال اکتوبر میں وزیر اعظم نریندر مودی اور صدر شی جن پنگ نے روس میں ملاقات کی تھیانڈیا کو درپیش چیلنج
انڈیا اور چین کے درمیان سفارتی سطح پر اگرچہ تعلقات میں بہتری کی کوشش ہو رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان بہت سے بنیادی اور مستقل چیلنجز بدستور موجود ہیں۔
پچھلے کچھ سال میں بالخصوص گلوان تنازع کے بعد تعلقات میں تناؤ بڑھا ہے جو اب تک مکمل طور پر حل نہیں ہو سکا ہے۔
چین کی پاکستان سے قربت اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) جیسے منصوبوں سے انڈیا کے سیکورٹی خدشات میں اضافہ ہوتا ہے۔ ساتھ ہی، امریکہ اور کواڈ ممالک کے ساتھ انڈیا کا تعاون ایک ایسا عنصر ہے جو چین کو بے چین کرتا ہے۔
انڈیا اور چین کی تجارت میں بھی بہت عدم توازن ہے۔ انڈیا سب سے زیادہ سامان چین سے درآمد کرتا ہے لیکن خود چین کو بہت کم سامان فروخت کرتا ہے۔
اس عدم مساوات پر شروتی پنڈالے کہتی ہیں کہ ’وزیر خارجہ نے بھی یہی مسائل اٹھائے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ آپ مذاکرات چاہتے ہیں لیکن ہمارے مسائل بھی سنیں۔ دراصل چین کے ساتھ کچھ بھی آسان نہیں ہے۔ انڈیا چین کے ساتھ برسوں سے بات چیت کر رہا ہے۔ ہاں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ عالمی جغرافیائی سیاست کا رجحان اس وقت انڈیا کے حق میں ہے۔‘
چین کو دلائی لامہ کی انڈیا میں موجودگی اور تبت سے متعلق معاملات پر پہلے ہی اعتراض ہے۔ اس کے علاوہ انڈیا برہم پترا دریا پر چین کی سرگرمیوں سے بھی کافی پریشان ہے۔
ایسے میں بھارت کو تعلقات کو بہتر بناتے ہوئے کن چیزوں پر توجہ دینی چاہیے؟
اس سوال کے جواب میں پروفیسر پشپ ادھیکاری کا کہنا ہے کہ ’چین کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے انڈیا کو بہت سے معاملات پر اپنا بین الاقوامی موقف واضح کرنا ہو گا۔‘
’انڈیا اور چین دو مختلف تہذیبیں ہیں لیکن دونوں نے ایک ساتھ ترقی کی ہے اور اگر مستقبل میں دونوں کے تعلقات مزید مضبوط ہو جائیں تو دونوں مل کر امریکی دباؤ کو کم کر سکتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ موثر علاقائی تعاون ہونا چاہیے، تاکہ غلط فہمی پیدا نہ ہو۔‘
پروفیسر راجیو رنجن کا کہنا ہے کہ ’انڈیا اور چین کو سب سے پہلے تعلقات میں استحکام اور مضبوطی پر توجہ دینی چاہیے۔‘
ان کا ماننا ہے کہ ’سب سے پہلے تعلقات میں استحکام ضروری ہے۔ دوم، دیرینہ سرحدی تنازع کو حل کیا جانا چاہیے۔ سوم، امریکہ اور پاکستان کا بھی خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں اگر انڈیا اور چین ان تینوں باتوں پر توجہ دیں تو دونوں ممالک کے تعلقات اچھی سمت میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔‘