12 سال میں ایک بار آنے والے ہندوؤں کے مذہبی میلے مہا کمبھ کے دوران بہت سے لوگ اپنے رشتہ داروں کی تلاش میں پریاگ راج ہسپتالوں کے مردہ خانوں اور ہسپتالوں کے چکر لگا رہے ہیں۔ مرنے خانے کے باہر موجود ستیم نے بتایا کہ ’اندر بہت سی لاشیں پڑی ہیں۔‘
کمبھ میلے میں امڈی بھیڑ کا ایک منظرانتباہ: اس رپورٹ میں کچھ تفصیلات پریشان کن ہو سکتی ہیں۔
12 سال میں ایک بار آنے والے ہندوؤں کے مذہبی میلے مہا کمبھ میں مونی اماوسیہ کے دن انڈین شہر پریاگ راج (الہ آباد) میں گنگا اور جمنا دریاؤں کے سنگم کے قریب ہونے والی بھگدڑ کے علاوہ کیا کچھ اور مقامات پر بھی بھگدڑ جیسے حالات تھے؟ عینی شاہدین کے مطابق کم از کم دو دیگر مقامات پر بھی ایسے ہی حالات تھے جن میں کئی لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اگرچہ سنگم کے مہانے پر ہونے والی بھگدڑ کو کئی دن گزر چکے ہیں لیکن بہت سے لوگ اب بھی اپنے رشتہ داروں کی تلاش میں پریاگ راج ہسپتالوں کے مردہ خانوں اور ہسپتالوں کے چکر لگا رہے ہیں۔
انڈیا کی وسطی مدھیہ پردیش سے آئے ستیم اپنے لاپتہ والد کی تلاش میں پریاگ راج میں گھوم رہے ہیں۔ ان کے پاس ایک تھیلی ہے۔ اس میں دو خالی پانی کی بوتلیں ہیں۔
ستیم غصے میں ہیں۔ سوروپ رانی نہرو ہسپتال کے مردہ خانے سے باہر آتے ہوئے انھوں نے بی بی سی ہندی کو بتایا: 'اندر بہت سی لاشیں پڑی ہیں۔ آپ مجھے بتا دیں بھائی۔ آپ ہمیں بتائیں کہ کیا ہمارے رشتہ دار یہاں ہیں؟ ہم انھیں لے جائیں گے بھائی۔ مجھے آپ کے پیسے نہیں چاہیے۔ مجھے کچھ نہیں چاہیے۔'
اسی طرح موتی لال نہرو میڈیکل کالج کے مردہ خانے کے باہر کھڑے امود کمار کی کہانی بھی ستیم سے ملتی جلتی ہے۔ انھوں نے پریاگ راج کے تمام مردہ خانوں میں تلاش کیا ہے اور سرکاری دفاتر کا دورہ بھی کیا۔
لیکن انھیں ابھی تک اپنی رشتہ دار ریتا دیوی کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔ وہ 29 جنوری یعنی مونی اماوسیہ کے دن سے لاپتہ ہیں۔
دریں اثنا انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے پریاگ راج میں جاری کمبھ میں لوگوں کی بڑی تعداد پہنچ رہی ہے۔
میلے کی انتظامیہ کے مطابق یہاں کروڑوں لوگوں نے مونی اماوسیہ کے دن غسل کیا۔ اسی دن سنگم کے مہانے کے قریب بھگدڑ مچ گئی۔ اتر پردیش حکومت نے 30 افراد کے مرنے کی تصدیق کی تھی جبکہ 60 افراد کے زخمی ہونے کی بات تسلیم کی ہے۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے کمبھ میلہ کے ڈی آئی جی ویبھو کرشنا نے کہا کہ 'بدقسمتی سے 30 عقیدت مندوں کی المناک موت ہوگئی۔'
عینی شاہد پون نے بتایا کہ انھوں نے زندہ رہنے کی کس قدر جدوجہد کی'اگر گِر گیا ہوتا تو شاید زندہ نہ ہوتا'
انتظامیہ نے سنگم نوز کے قریب ہونے والی بھگدڑ کے بارے میں اعتراف کیا ہے۔ تاہم، بہت سے لوگوں کا دعویٰ ہے کہ اس دن کمبھ کے دوران کم از کم دو دیگر مقامات پر بھی حالات قابو سے باہر ہو گئے تھے۔
بی بی سی نے کئی عینی شاہدین سے بات کی جنھوں نے کمبھ سیکٹر 21 میں سمندر کوپ مارگ کے قریب بھگدڑ دیکھی تھی۔ یہ علاقہ پریاگ راج کے جھونسی علاقے سے متصل ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق اس روز یہاں اتنی بھیڑ تھی کہ لوگوں کے لیے آگے بڑھنا یا پیچھے ہٹنا مشکل تھا۔
پون ہس رات ایک آشرم میں ٹھہرے تھے۔ رات کے تقریباً 2.30 بجے دریائے گنگا میں ڈبکی لگانے کے بعد واپس آرہے تھے۔ وہ اس وقت وہاں پھنس گئے۔ پون بتاتے ہیں کہ کسی طرح وہ جدوجہد کر کے وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔
وہ کہتے ہیں: ’اگر میں گر جاتا تو شاید میں نہ بچ پاتا۔ وہاں بہت دم گھٹ رہا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ لوگ مجھ سے چمٹے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ سانس لینا بھی مشکل ہو رہا تھا۔‘
ارپ مہاراج نے بتایا کہ انھوں نے لوگوں کو پیاس سے تڑپتے دیکھا'لوگ پیاس سے تڑپ رہے تھے'
مذہبی رہنما ارپِت مہاراج الٹا قلعہ چوراہے سے متصل داس دھرم کیمپ میں رہ رہے ہیں۔ وہ 29 جنوری کے دن کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں: 'صبح چھ بجے کے قریب میرے ساتھیوں نے مجھے جگایا۔ میں دیر سے سویا تھا کیونکہ میں اکھاڑے والوں کے غسل کے بعد گنگا میں نہانے جا رہا تھا۔ باہر کا منظر خوفناک تھا۔'
ارپت مہاراج بتاتے ہیں: 'لوگ پیاس سے تڑپ رہے تھے، 'پانی پلادو ،پانی کا ایک گھونٹ دے دو' پکار رہے تھے۔ چاروں طرف سے لوگ آ گئے۔ یہاں جھونسی سے سڑک اتر رہی ہے۔ وہاں سے لوگ آئے۔ دوسری طرف سے لوگ شاستری پل سے نیچے آئے۔ لوگ پیچھے سے آئے۔ اچانک سے جگہ بہت تنگ ہو گئی اور دم گھٹنے لگا۔'
جب داس دھرم کیمپ کو مایوس ہجوم کے لیے کھولا گیا تو چند ہی منٹوں میں کئی ہزار لوگ اس میں داخل ہو گئے۔
ارپت مہاراج کہتے ہیں: 'ایک عورت نے اپنے بچے کو پھینک دیا اور کہا، گروجی، میرے بچے کو بچائیں۔ ہم نے ان مشکل حالات میں سینکڑوں لوگوں کی مدد کی۔'
میلے میں امداد کرنے والے سکھ عقیدت مند نشان سنگھ نے بھگدڑ کا حال بتایاکھلے آسمان تلے سانس نہیں لے سکتا
نشان سنگھ بھی اسی کیمپ میں رہ کر کمبھ میں آنے والے عقیدت مندوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ اس رات وہ بھی ہجوم میں پھنس گئے تھے۔ نشان سنگھ کہتے ہیں: 'خواتین رو رہی تھیں، 'ہمیں بچاؤ، ہمیں بچاؤ، ہمیں کسی طرح باہر نکالو' پکار رہی تھیں۔ ہمارے گرو سنت ترلوچن درشن داس نے کہا، ہمیں اندر آنے دو۔ کوئی پروا نہیں۔'
داس کیمپ میں خدمات انجام دینے والے اشوک تیاگی کہتے ہیں: 'کھلے آسمان میں سانس لینا دوبھر تھا۔۔۔۔ کھلے آسمان کے نیچے، میں نے پہلی بار یہ دیکھا۔ لوگوں نے جوتے، چپل، بیگ، جو کچھ بھی تھا، چھوڑ دیا، اپنی جان بچانا مشکل ہو رہا تھا۔ لوگ پانی کو ترس رہے تھے۔'
کمبھ میں کئی لوگوں کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے'وہ منظر ان کی آنکھوں میں آنسو لاتا ہے'
وہیں پر سیکٹر- 21 کا کچرا ہٹانے والا سٹیشن ہے۔ اس وقت جوتوں، چپلوں اور کپڑوں سے بھرا پڑا ہے جو کوڑے میں آئے تھے۔ شیو ناتھ کچرا اٹھانے والا ٹرک چلاتے ہیں۔ 29 جنوری کی صبح کا منظر یاد کر کے ان کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔
شیو ناتھ کہتے ہیں: 'حالات بہت خراب تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جو لوگ وہاں پڑے تھے وہ پوری طرح تباہ ہو چکے ہیں۔ یہاں جو خاندان تھے وہ بلک بلک کر رو رہے تھے۔ کوئی کہہ رہا تھا، یہاں میرے چچا تھے، یہاں میرے ماں باپ تھے، یہاں میری بیوی تھی، یہاں میرا بھائی تھا۔۔۔ کوئی نہیں ملا، سر۔'
بی بی سی ہندی سے بات کرتے ہوئے کئی عینی شاہدین نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے یہاں کئی لاشیں دیکھی ہیں۔ ایک عینی شاہد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انھوں نے 'ایک جگہ کم از کم چار لاشیں' دیکھی تھیں۔
جبکہ کچرے کی گاڑی چلانے والے چندر بھان نے کوڑے میں ایک لاش دیکھنے کا دعویٰ کیا اور بی بی سی ہندی کو بتایا: 'لاش۔۔۔ میں نے اسے اس چوراہے (الٹا قلعہ چوک) پر دیکھا۔ رات 12 بجے میں نے وہاں ایک لاش دیکھی۔ وہ کسی بہت بوڑھے کی تھی۔'
چندر بھان کا کہنا ہے کہ اگلے تین دن تک وہ صرف وہی سامان اٹھاتے رہے جو لوگوں کے بھگدڑ میں چھوٹ گئے تھے۔
آسوتوش اپنی چچی لاش اٹھانے کے لیے اپنے دوستوں کے ساتھ وہاں پہنچے'ہم گمنامی میں مر رہے ہیں'
نگینہ مشرا کا گھر اس جگہ سے تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ان کے اہل خانہ کے مطابق وہ صبح 4 بجے کے قریب اس جگہ پھنس گئیں اور زندہ گھر نہیں لوٹ سکیں۔ اس وقت ان کے دیور گنیش چندر مشرا ان کے ساتھ تھے۔ وہ منظر یاد کر کے اب بھی ان کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔
گنیش چندر مشرا کہتے ہیں: 'لوگ ایک دوسرے کے اوپر چڑھ رہے تھے۔ جو گر رہا تھا وہ اٹھ نہیں پا رہا تھا۔ میری بھابھی گر گئیں اور اٹھ نہیں سکیں۔ میں انھیں اٹھانے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ بھیڑ نے مجھے بھی گرا دیا۔ میں ایمرجنسی نمبر 100 اور 112 نمبر پر کال کرتا رہا۔ وہ بار بار میری لوکیشن لے رہے تھے لیکن کوئی مدد کے لیے نہیں آیا۔'
گنیش چندر مشرا کسی طرح صبح تقریباً چھ بجے اپنے گھر پہنچے۔ ان کے بیٹے اور ان کے دوست انھیں لینے پہنچے۔ پھر کسی طرح وہ دوپہر ایک بجے کے قریب اپنی بھابھی کی لاش لے کر وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔
گنیش مشرا کہتے ہیں: 'اگر میں لاش کی حفاظت نہ کر رہا ہوتا تو لاش نہ مل پاتی اور نہ ہی اس کی شناخت ہو پاتی۔ حکومت یہ بھی نہیں مان رہی ہے کہ یہ لوگ وہاں مرے ہیں۔ ہم گمنامی میں مر رہے ہیں۔ وہ وہیں مری ہیں۔ ہمارے پاس تمام شواہد موجود ہیں۔ سب کچھ موجود ہے۔ لیکن حکومت صرف ایک جگہ سنگم نوز (مہانے) کی شناخت کر رہی ہے۔'
گنیش مشرا کے بیٹے آشوتوش اپنے دوستوں کے ساتھ اپنی خالہ کی لاش لینے وہاں پہنچے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ وہاں کوئی سرکاری مدد نہیں پہنچی، کوئی ایمبولینس نہیں، ان کا سوال ہے کہ اگر اتنی طبی سہولتیں ہیں تو وہاں کیوں نہیں پہنچیں۔
بھگدڑ کے بعد کا منظرایمبولینس اور پولیس کی گاڑیاں بھیڑ میں پھنس گئیں
گنیش مشرا کا دعویٰ ہے کہ ایک خاتون پولیس اہلکار بار بار اعلیٰ حکام اور کنٹرول روم کو فون کر کے بتا رہی تھی کہ یہاں کی صورتحال سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ وہاں سے نہ کوئی جواب آیا اور نہ ہی مدد۔
اس خاتون کارکن کی گاڑی پر کھڑی ہو کر مدد کی التجا کرنے والی کئی ویڈیوز منظر عام پر آچکی ہیں۔ کئی عینی شاہدین نے بی بی سی ہندی کو بتایا ہے کہ یہاں کسی قسم کی کوئی مدد نہیں پہنچ سکی۔
تاہم، بی بی سی ہندی نے اس دن صبح 11 بجے کے درمیان لی گئی کئی ڈرون فوٹیج دیکھی ہیں۔ ان میں ایمبولینس اور پولیس کی گاڑیاں بھیڑ میں پھنسی ہوئی نظر آرہی ہیں۔
اراوت روڈ پر بھی بھگدڑ کی اطلاعات ہیںاس دن اراوت مارگ پر کیا ہوا؟
مونی اماوسیہ کے دن سمندرکوپ چوراہے (الٹا قلعہ چوک) سے تقریباً ایک کلومیٹر دور اراوت روڈ پر بھگدڑ جیسی صورتحال پیدا ہوگئی۔ بی بی سی ہندی نے اس کی بہت سی ویڈیوز دیکھی ہیں۔ عینی شاہدین یہاں بھی کئی ہلاکتوں کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
ایک خاتون عینی شاہد نے بی بی سی کو بتایا: ’یہاں بہت سی اموات ہوئیں۔ ہم بمشکل بچ نکلے۔‘
بی بی سی ہندی نے اراوت گیٹ کے قریب ریکارڈ کی گئی ایک ویڈیو دیکھی ہے۔ اس میں کم از کم چار لاشیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ بتایا گیا کہ یہ ویڈیو اس دن صبح 7 بج کر 15 منٹ پر ریکارڈ کی گئی تھی۔
مونی اماوسیا کی رات اور صبح کا منظر بیان کرتے ہوئے یہاں موجود ایک عینی شاہد نے بی بی سی کو بتایا کہ 'یہاں اتنی بھیڑ تھی کہ پوچھو نہیں۔ بہت زیادہ بھیڑ تھی، آپ ہماری باؤنڈری کے ٹین کی حالت دیکھ لیجیے، عوام اسے توڑ کر اندر داخل ہو گئی، رات کو اس کا پتہ نہیں چل سکا۔ صبح ہوتے ہی پتہ چلا کہ یہاں بہت سی وارداتیں ہوئی ہیں۔'
بہت سے دوسرے عینی شاہدین کی طرح ایک اور عینی شاہد نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا: ’کئی مرنے والوں کی لاشیں یہاں لوہے کی چادر کے پہلو میں دیکھی گئیں۔ انتظامیہ کی گاڑیاں انھیں صبح دس اور گیارہ کے درمیان لے گئیں۔‘
انتظامیہ پوری تفصیل بتانے سے گریزاں ہےانتظامیہ کیا کہتی ہے؟
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سنگم کے علاوہ جن دیگر مقامات پر 29 جنوری یعنی کے دن حادثات اور اموات کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، ان کی تصدیق اور جانچ کی جا رہی ہے۔
میلے کے افسر وجے کرن آنند نے فون پر بی بی سی ہندی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ہم میلے کے علاقے میں پیش آنے والے سنگم نوز کے واقعے کے بارے میں میڈیا کو پہلے ہی بریف کر چکے ہیں۔ باقی تمام اموات جو دیگر مقامات پر ہوئی ہیں اور میڈیکل کالج میں رپورٹ کی گئی ہیں۔۔۔ ان کی تصدیق کی جا رہی ہے، ان کی وجہ کیا تھی، ان کے اہل خانہ سے ملاقات کر کے معلوم کیا جا رہا ہے۔‘
اس کے بعد ہم نے فیئر آفیسر وجے کرن آنند سے بھی ملاقات کی اور ان کا ردعمل جاننا چاہا۔ تاہم انھوں نے کسی سوال کا جواب دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ فون پر بی بی سی کو اپنا جواب پہلے ہی دے چکے ہیں۔
ہم ان سے یہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ کیا مونی اماوسیہ کے دن یہاں توقع سے زیادہ بھیڑ پہنچی تھی۔ اس بارے میں بھی انھوں نے کوئی اطلاع نہیں دی۔
اترپردیش حکومت نے مونی اماوسیہ پر دس کروڑ لوگوں کی آمد کا اندازہ لگایا تھا۔
کمبھ انتظامیہ نے مونی اماوسیہ کے دن شام چار بجے تک تقریباً چھ کروڑ لوگوں کے نہانے کا ڈیٹا بھی جاری کیا تھا۔
اتر پردیش حکومت نے کمبھ کے دوران بھگدڑ میں مرنے والوں کے لواحقین کے لیے 25 لاکھ روپے کے معاوضے کا اعلان کیا ہے۔
مونی اماوسیا کے دن جان گنوانے والے بہت سے لوگوں کی آخری رسومات ادا کر دی گئی ہیں۔ لیکن خاندان کے بہت سے افراد کو ابھی تک ان کے سوالات کے جوابات نہیں ملے ہیں کہ اس دن ان کے پیاروں کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ وہ اب بھی پریشانی کے عالم میں اپنے بچھڑوں کے منتظر ہیں۔