مِرزا آفریدی کون اور سوشل میڈیا پر تبصروں کی زد میں کیوں ہیں؟

image
پاکستان کے ایوان بالا میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے آزاد حیثیت میں جیت کر آنے والے ارکان کم و بیش ہر انتخاب میں ہی سرپرائز دیتے ہیں لیکن عام خیال ہے کہ ایسے سرپرائز عموماً بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں میں نسبتاً زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔

2018 میں بھی ایسا ہی ہوا جب ایک آزاد سینیٹر خیبر پختونخوا اسمبلی سے منتخب ہو کر سینیٹ میں پہنچے اور حکومتی جماعت (ن) لیگ کے ساتھ بیٹھ گئے۔

2018 سے 2021 تک ن لیگی صفوں کا حصہ رہے لیکن مارچ 2021 میں جب چیئرمین اور ڈپٹی چئیرمین سینیٹ کے دوبارہ انتخاب کا موقع آیا تو جہاں صادق سنجرانی دوسری بار سرپرائز تھے، وہیں ڈپٹی چئیرمین کے تحریک انصاف کے امیدوار سینیٹر مرزا آفریدی بھی کسی سرپرائز سے کم نہ تھے۔

اس وقت رانا ثنا اللہ نے انھیں ن لیگ کا رکن قرار دیا لیکن الیکشن کمیشن اور سینیٹ کی ویب سائٹ پر وہ آزاد رکن کی حیثیت سے موجود تھے۔

یہ الگ بات ہے کہ 2018 میں ن لیگ کے اپنے ارکان جو پنجاب سے منتخب ہوئے تھے انھیں بھی آزاد حیثیت میں ہی انتخاب لڑنا پڑا تھا کیونکہ اس وقت سپریم کورٹ نے انھیں ن لیگ کے انتخابی نشان سے محروم کر دیا تھا۔

مرزا آفریدی کا سینیٹر بننا ان کا حق ہے کیونکہ 9 مئی کے بعد انہوں نے پارٹی کی بھرپور مدد کی۔ جب بھی پارٹی کو فنڈز کی ضرورت پڑتی، وہ بغیر کسی سوال کے مالی معاونت فراہم کرتے۔ 9 مئی کے بعد انہوں نے کئی کارکنان کی مدد کی اور انہیں مالی طور پر سہارا دیا۔ تحریک انصاف کے سینئر رہنما… pic.twitter.com/wcPKqxeTtv

— Mehwish Qamas Khan (@MehwishQamas) July 13, 2025

مرزا آفریدی بحیثیت سینیٹر اور بحیثیت ڈپٹی چئیرمین سینیٹ تو ایوان میں کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا سکے لیکن 2018 سے 2024 کے درمیان ان کے مالدار اور کاروباری شخصیت کے لحاظ سے مہمان نوازیوں کا چرچا عام رہا۔ وہ سیات دانوں، سرکاری افسران اور صحافیوں کی میزبانی کرتے اور ان کی خوب آو بھگت کرتے تھے۔

مرزا آفریدی کا تعلق ضلع خیبر سے ہے اور ان کا خاندان طویل عرصہ قبل لاہور منتقل ہو گیا تھا جہاں وہ الیکٹرونکس اور دیگر کاروباروں سے وابستہ رہے اور ان کی تعلیم بھی لاہور سے ہی ہے۔

وہ پشاور زلمی کے مالک جاوید آفریدی کے چچا زاد بھائی ہیں۔ ان کے خاندان سے شاہ محمد آفریدی 90 کی دہائی میں پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے پارلیمان کا حصہ رہ چکے ہیں۔

نو مئی کے واقعات ہوئے تو مراز محمد آفریدی ان شخصیات میں سے تھے جنھوں نے بغیر کسی گرفتاری اور رہائی کے ویڈیو بیان کے ذریعے شدید الفاظ میں مذمت کی۔ جس وجہ سے تحریک انصاف کا عام کارکن انھیں پسند نہیں کرتا۔

مرزا آفریدی وہ شخص ہے جو 9 مئی کے بعد پارٹی چھوڑ گیا،

مشکل وقت میں خاموش رہا، نظریہ بیچ کر اسٹیبلشمنٹ کی چھاؤں میں بیٹھا رہا۔

آج علی امین گنڈا پور اُسے سینیٹ کا ٹکٹ دے رہے ہیں؟

کیا قربانی دینے والے کارکن اب صرف نعرے لگانے اور مرنے کے لیے رہ گئے ہیں؟

کیا پی ٹی آئی کا مطلب صرف… pic.twitter.com/ZL2MT8ADLH

— Imtiaz Mir (@imtiazmirpak) July 13, 2025

نو مئی کے واقعات کی مذمت کرتے وقت مرزا آفریدی کا کہنا تھا کہ 'میں نو مئی کے واقعات کی بھرپور مذمت کرتا ہوں۔ خاص طور پر جناح ہاؤس، جی ایچ کیو اور شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کی مذمت کرتا ہوں۔ ان واقعات میں جو بھی ملوث ہے ان کی قانونی طور پر تحقیقات کرکے کارروائی کرنی چاہیے اور ان کو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہیے۔‘

ان کے اسی بیان کی وجہ سے جب 2024 میں انھیں بطور امیدوار سینیٹ نامزد کیا گیا تو تحریک انصاف کے اندر سے اس فیصلے کے خلاف آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں۔

اس وقت تو مخصوص نشستوں کے تنازع کے باعث کے پی اسمبلی میں سینیٹ کا انتخاب نہ ہو سکا لیکن اب کی بار وہ ایک بار پھر سوشل میڈیا پر زیر بحث ہیں۔

یہ خرم ذیشان یا مرزا آفریدی میں سے کسی ایک کو سینیٹر منتخب کرنے کی جنگ نہیں بلکہ درحقیقت یہ جنگ اُس سوچ اور نظریے کی ہے جو اشرافیہ (الیٹ کلاس) اور نظریاتی کارکنوں کے درمیان ہمیشہ سے جاری ہے ، اگر کوئی سمجھ سکے تو

ایک طرف وہ لوگ ہیں جو اقتدار دولت اور تعلقات کے بل بوتے پر سیاست…

— Umar Ali (@UmarAli25906) July 14, 2025

خاص طور پر جب وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور عمران خان کی رہائی کے سلسلہ میں ارکان اسمبلی کے کارواں کی قیادت کرتے ہوئے لاہور پہنچے تو حیران کن طور پر ان کا پڑاؤ سینیٹر مرزا آفریدی کا فارم ہاؤس تھا جہاں ارکان اسمبلی کے اعزاز میں پر تکلف عشائیے کا اہتمام تھا۔

اس عشائیے میں علی امین گنڈاپوار کو بھی نو مئی کے واقعات کی مذمت کرنے والے مرزا آفریدی کے گھر آنے پر بھی تند و تیز سوالات کا سامنا کرنا پڑا لیکن انھوں نے اس کا براہ راست جواب دینے سے گریز کیا۔

دوسری جانب تحریک انصاف کے اندر سے یہ آوازیں بھی بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں کہ پچھلے تین سال سے مشکلات کا سامنا کرنے والے کارکنوں اور رہنماؤں کو نظر انداز کرکے مرزا آفریدی کو امیدوار نامزد کرنا دراصل مالی مفاد کا معاملہ ہے۔

مرزا آفریدی کا شمار اُن مخلص اور وفادار ساتھیوں میں ہوتا ہے جو ہر آزمائش اور کڑے وقت میں عمران خان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہے۔ اُن کی ثابت قدمی، وفاداری اور بے باک سچائی اس بات کی گواہ ہے کہ وہ نظریے سے وابستہ ایک سچے سپاہی ہیں، نہ کہ مفادات کے اسیر pic.twitter.com/G8qtRkl1RD

— Senator Fawzia Arshad (@FawziaArshadPTI) July 14, 2025

دوسری جانب سوشل میڈیا پر کم و بیش ایک ہی طرح کے الفاظ میں مرزا آفریدی کے حق میں مہم چلائی جا رہی ہے جس میں تحریک انصاف کے حامی سمجھے جانے صحافی بھی شامل ہیں۔

مرزا آفریدی کے حامیوں کا موقف ہے کہ اگرچہ انھوں نے دباؤ کی وجہ سے نو مئی کے واقعات کی مذمت کی لیکن وہ تحریک انصاف کے مشکل وقت میں اس کے معاون ثابت ہوئے ہیں۔

مرزا آفریدی کا سینیٹر بننا ان کا حق ہے کیونکہ 9 مئی کے بعد انہوں نے پارٹی کی بھرپور مدد کی۔ جب بھی پارٹی کو فنڈز کی ضرورت پڑتی، وہ بغیر کسی سوال کے مالی معاونت فراہم کرتے۔ 9 مئی کے بعد انہوں نے کئی کارکنان کی مدد کی اور انہیں مالی طور پر سہارا دیا۔ تحریک انصاف کے سینئر رہنما کا…

— Salman Durrani (@DurraniViews) July 13, 2025

زمان پارک میں پڑاؤ کے وقت بھی وہ پارٹی کو وافر مالی معاونت فراہم کرتے رہے جبکہ ان واقعات میں مقدمات کا سامنا کرنے والے کارکنوں کو بھی مالی مدد فراہم کر رہے ہیں۔ اس وجہ سے سینیٹر بننا ان کا حق ہے۔

خیال رہے کہ 2024 میں شدید تنقید کے باوجود عمران خان نے مرزا آفریدی کو بطور امیدوار برقرار رکھا تھا اور اب بھی اگرچہ شدید تنقید ہو رہی ہے لیکن کہا جا رہا ہے کہ حتمی فیصلہ دو روز بعد عمران خان ہی کریں گے۔

 


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts