پاکستان تحریک انصاف 26 نومبر 2024 کے احتجاج کے بعد ایک بار پھر سنبھلنے کی تیاری کر رہی ہے اور پوری طاقت کے ساتھ پانچ اگست کو احتجاج کی کال دے رہی ہے۔ یہ احتجاج کس نوعیت کا ہوگا اس حوالے سے تو ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا، لیکن اس احتجاج سے پہلے ہی پارٹی میں کئی ایک تنازعات اور اختلافات سر اٹھا چکے ہیں۔تحریک انصاف کے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اسلام آباد میں فیصلہ کن احتجاج اور دھرنے کے علاوہ عمران خان کی رہائی ممکن نہیں، تاہم پارٹی کی مرکزی قیادت بشمول وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے پانچ اگست کے بجائے اگلے 90 دن کا الٹی میٹم دیا ہے۔ جس وجہ سے انھیں پارٹی کے اندر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔تحریک انصاف نے کم وبیش آٹھ ماہ بعد کسی سیاسی سرگرمی کا انعقاد کیا اور علی امین گنڈاپور کی قیادت میں منتخب ارکان قافلے کی صورت میں جی ٹی روڈ کے راستے پشاور سے لاہور روانہ ہوئے۔ جب یہ قافلہ روانہ ہوا تو یہ تاثر دیا گیا کہ اب اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی، لیکن تحریک انصاف کے اپنے ہی لوگ اب یہ الزام لگا رہے ہیں کہ اس سرگرمی کا مقصد عمران خان کی رہائی کے لیے کسی لائحہ عمل کی تیاری نہیں تھی بلکہ مرزا آفریدی کے لیے ایم پی ایز کی حمایت حاصل کرنا تھا۔پنجاب کے مرکز لاہور میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف پنجاب کی چیف آرگنائزر عالیہ حمزہ شریک نہیں تھیں۔ جب اس حوالے سے پارٹی کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجا سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ عالیہ حمزہ کسی کام میں مصروف تھیں اور وہ ان کا پہلے سے طے شدہ شیڈول تھا۔جس کے جواب میں عالیہ حمزہ نے اپنی ہی پارٹی کی مرکزی قیادت کو سوشل میڈیا کے ذریعے جواب دیا اور اور طنزاً لکھا کہ ’ویسے تو میرے تک پہنچنے والی کچھ اطلاعات کے مطابق میں پچھلے دو دن سے بہت مصروف تھی۔ ایسی مصروفیات جن کا شاید مجھے بھی علم نہیں تھا! کیا کوئی روشنی ڈالے گا؟ وزیراعظم خان کی رہائی کے لیے کس لائحہ عمل کا کل یا آج اعلان ہوا ہے؟ تحریک کہاں سے اور کیسے چلے گی؟‘ انھوں نے پانچ اگست کے مقابلے میں نوے دن کے معاملے پر سوال اٹھایا۔دوسری جانب مبینہ طور تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم کے عالیہ حمزہ کو بھیجے گئے آڈیو میسجز لیک ہوئے جن میں وہ ان کو ڈانٹتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ’کس قسم کی خاتون ہیں آپ، آپ سے جو بات کی جائے سیاق و سباق سے ہٹ کر میڈیا کو بتا دیتی ہیں، آپ اتنے میڈیا کے بھوکے ہیں، آپ نے اتنا رونا دھونا مچایا ہوا ہے، آپ میرے میسیجز لیک کررہے ہیں میڈیا کو؟‘اسی آڈیو میں شیخ وقاص اکرم یہ وضاحت کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ’عام طور پر یہ شکوہ کیا جاتا ہے کہ منتخب ارکان گراؤنڈ پر نہیں نکلتے اس لیے طے کیا گیا تھا کہ اس اجلاس میں صرف ارکان اسمبلی ہوں گے۔ اس لیے آپ کو نہیں بلایا گیا تھا۔ آپ کو پتا ہی نہیں کہ پولیٹیکل کمیٹی نے کیا فیصلے کیے تھے اور آپ نے آپس میں کی گئی باتیں میڈیا کو لیک کر دیں۔ اس طرح تو آپ لوگ قابل اعتبار ہی نہیں رہے۔‘اس صورت حال کے حوالے سے تجزیہ کار ماجد نظامی کا کہنا ہے کہ ’صورت حال ایک بار پھر تحریک انصاف کے اندرونی اختلافات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ہے کہ اس کے اندر دو گروپس ہیں۔ ایک گروپ مفاہمت جبکہ ایک مزاحمت اور احتجاج کی بات کرتا ہے۔ دو سال سے تحریک انصاف کے مزاحمت کے حامی گروہ کو فوقیت حاصل رہی ہے۔‘ان کے مطابق ’اگرچہ تحریک انصاف کا مزاحمتی گروپ پاپولر ہے لیکن ان کی حکمت عملی بھی نامکمل ہے۔ یعنی وہ جب بھی دھرنے یا احتجاج کی کال دیتے ہیں تو ان کے پاس لائحہ عمل یا مطالبات نہیں ہوتے جس پر حکومت سے بات چیت کی جا سکے۔ اسی طرح وہ کوئی ایسے اقدامات بھی تجویز نہیں کرتے جس سے اعتماد سازی کا ماحول بن سکے۔‘
ماجد نظامی کے مطابق ’تحریک انصاف کا جو دوسرا دھڑا ہے جو مذاکرات یا مفاہمت کی بات کرتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
ماجد نظامی کے مطابق ’تحریک انصاف کا جو دوسرا دھڑا ہے جو مذاکرات یا مفاہمت کی بات کرتا ہے ان کو پتا ہے کہ ان کی جماعت کے پاس اب کوئی سخت یا پرتشدد احتجاج کی آپشن باقی نہیں بچی، کیونکہ نو مئی کو ایسا کرکے دیکھ چکے ہیں اور پوری جماعت اس کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر گذشتہ برس ہونے والے احتجاج اور جلسوں کے اختتام کو سامنے رکھا جائے تو اگر علی امین گنڈاپور منظر سے غائب نہ ہوتے کیا وہ 126 دن کے دھرنے کی طرز پر دھرنا دینے کی پوزیشن میں تھے؟ ایسے دھرنے کی صورت میں ہر روز بندے کم ہوتے جاتے اور اس کااختتام شدید ناکامی کی صورت میں سامنے آتا۔‘اگر ماضی قریب میں تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک کو دیکھا جائے تو اس کی قیادت وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور ہی کرتے رہے ہیں۔ کئی دن تک محنت اور انتطامیہ سے بات چیت اور عدالتی احکامات کے بعد جب احتجاجی جلسہ ہوتا تھا اور علی امین گنڈاپور اس میں شرکت کے لیے نکلتے اور جلسے کا وقت ختم ہو جاتا تو انتظامیہ جلسہ ختم کرنے کے لیے دباو ڈالنے لگ جاتی، لیکن علی امین گنڈاپور نہ پہنچ پاتے۔ جس وجہ سے نہ تو کارکنان کو کوئی نیا لائحہ عمل ملتا اور نہ ہی حکومت اور انتظامیہ کے سامنے مطالبات رکھے جاتے۔اس سلسلے میں آخری کوشش 26 نومبر 2024 کو ہوئی جب کئی روز تک مارچ کرتے ہوئے تھکے ہارے کارکنان تمام رکاوٹیں توڑ کر ڈی چوک پہنچ گئے۔ ایک ایسے وقت میں جب انتظامیہ نے مظاہرین کو ہٹانے کے لیے فیصلہ کن آپریشن شروع کیا تو اس وقت ایک ویڈیو منظرعام پر آئی جب علی امین گنڈاپور عمران خان کی اہلیہ کی گاڑی بدل کر انھیں جلسے سے لے کر غائب ہوگئے اور اگلے دن وہ مانسہرہ میں ملے جہاں انھوں نے پریس کانفرنس کرکے اپنے اچانک نکلنے کی وجوہات بیان کیں۔یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ وہ احتجاج سے غائب ہوئے بلکہ اس سے قبل اکتوبر 2024 میں بھی وہ ایک ریلی کی قیادت کرتے اور تمام رکاوٹیں توڑتے ہوئے ڈی چوک پہنچے تھے جس کے بعد وہ کے پی ہاوس چلے گئے۔اس دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کے پی ہاوس کا گھیراؤ کیا اور تلاشی شروع کر دی تو اس دوران علی امین گنڈاپور غائب ہوگئے۔ تحریک انصاف نے الزام عائد کیا کہ انھیں اغوا کر لیا گیا ہے یا حراست میں لے لیا گیا ہے، تاہم وزیر داخلہ نے کسی بھی وفاقی ادارے میں ان کی حراست کی تردید کی۔ اس واقعہ کے 24 گھنٹے بعد علی امین گنڈاپور ایک ایسے وقت میں کے پی اسمبلی میں پہنچے جب اسمبلی ان کے مبینہ اغوا کے خلاف قراردار منظور کر چکی تھی۔
تحریک انصاف نے گذشتہ ایک سال کے دوران کے پی میں بڑے بڑے سیاسی جلسے کیے لیکن وہ بے سود رہے (فوٹو: اے ایف پی)
اس موقع پر اپنے خطاب میں علی امین گنڈاپور نے ڈرامائی اندازمیں چھپتے چھپاتے اور کسی کی مدد سے 12 اضلاع سے گزر کر کے پی پہنچنے کی داستان سنائی جس کے چرچے کئی روز تک سوشل میڈیا کی زینت بنے رہے، تاہم انھوں نے اپنے اغوا کی بات کو رد کیا اور بتایا کہ وہ چالاکی سے کے پی ہاؤس سے نکلنے اور مارگلہ کے راستے اسلام آباد سے نکلے۔
تحریک انصاف نے گذشتہ ایک سال کے دوران کے پی میں بڑے بڑے سیاسی جلسے کیے لیکن وہ بے سود رہے جس کے بعد ایک مرتبہ لاہور اور تین مرتبہ اسلام آباد میں احتجاج کیا گیا لیکن ہر دفعہ احتجاج ڈرامائی انداز میں ختم ہوا اور اس کی ناکامی کا ذمہ دار علی امین گنڈاپور کو قرار دیا گیا یا وہ مورد الزام ٹھہرائے گئے۔اس حوالے سے سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر آمنہ محمود کہتی ہیں کہ ’علی امین گنڈاپور کو اس وقت کئی محاذوں کا سامنا ہے۔ وہ صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہیں اس لیے کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت وہ اپنی پوزیشن کو سامنے رکھتے ہیں، جبکہ پارٹی ورکرز کو اس وقت صوبے کے امور اور حکومت سے کوئی لینا دینا نہیں بلکہ ان کی واحد منشا عمران خان کی رہائی ہے۔ جو لوگ اس موقف کے حامی ہیں پتا ان کو بھی ہے کہ معاملہ مذاکرات سے حل ہوگا، لیکن وہ مذاکرات سے پہلے حکومت اور ریاست کو دباؤ میں لانا چاہتے ہیں۔‘ان کے مطابق ’ایک طرف ان کی اپنی جماعت کے اندر سے ان کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ جے یو آئی ف کی یقین دہانیوں کے باوجود انھیں خدشہ ہے کہ جے یو آئی ان کی حکومت کے گرانے میں ن لیگ اور پی ٹی آئی کے ساتھ مل سکتی ہے اسی وجہ سے انھوں نے لاہور میں ان کو بھی چیلنج کر دیا۔ عمران خان کی بہنوں کے حوالے سے بھی گاہے بگاہے ان کو کچھ نہ کچھ سننا پڑتا ہے۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’ایسے میں علی امین گنڈاپور کو اپنی روایتی حکمت عملی کو تبدیل کرتے ہوئے پہلے پارٹی کے اندر اعتماد سازی کرنا ہوگی اور اس کے بعد ہی کوئی ایسی تحریک چلا سکیں گے جس کا کوئی منطقی انجام ہوگا، بصورت دیگر اس احتجاج کا اختتام تو شروع ہونے سے پہلے ہی ہو چکا ہے اور سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کو ن لیگ کی جانب سے نہیں بلکہ اپنے ہی لوگوں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔ ایسے میں لوگوں کا نکالنا مشکل نہیں ناممکن ہے۔‘