بلوچستان حکومت نے خبردار کیا ہے کہ ’دہشت گردوں کے ساتھ سیلفیاں یا ویڈیوز بنانے اور انہیں سوشل میڈیا پر شیئر کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔‘محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی ) کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حالیہ مہینوں میں بعض بلوچ شدت پسند گروہ اچانک بڑی تعداد میں چھوٹے شہروں یا شاہراہوں پر نمودار ہوکر مختصر وقت کے لیے علاقہ یا سڑک کا کنٹرول سنبھال لیتے ہیں۔ان واقعات کے دوران دیکھا گیا کہ عام شہری ان شدت پسندوں کے ساتھ سیلفیاں لیتے، ویڈیوز بناتے ، ٹک ٹاک اور فیس بک جیسی سوشل میڈیا ایپس پر اپلوڈ کرتے ہیں۔افسر کے مطابق حکومت نے دہشت گردی کو کسی بھی انداز میں ’گلوریفائی‘ یا تائید و تعریف کرنے والوں کے خلاف سخت پالیسی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایسے افراد کو نہ صرف معاونِ جرم سمجھا جائے گا بلکہ ان کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں گے۔انہوں نے مزید بتایا کہ ’دہشت گردوں کی لاشوں، قبروں یا جنازوں پر کالعدم تنظیموں کے جھنڈے لگانے، تصاویر کھینچنے یا انہیں پھیلانے جیسے اقدامات بھی قابلِ تعزیر سمجھے جائیں گے۔‘محکمہ اطلاعات بلوچستان نے اس سلسلے میں ’دہشت گردوں کا کسی بھی طرح کا ساتھ عام عوام کے لیے بن سکتا ہے وبال جان‘ کے عنوان سے باقاعدہ اخبارات میں اشتہارات بھی شائع کیے ہیں۔اشتہارات میں عوام کو متنبہ کیا گیا ہے کہ ’بلوچستان کے بعض علاقوں میں دہشت گردوں کی کارروائیوں کے دوران بعض شہری، دہشت گردوں کے ہمراہ سیلفی، ویڈیوز اور تصاویر بناتے ہیں یہ عمل نہ صرف غیرذمہ دارانہ بلکہ ایسے افراد تعزیرات پاکستان کے تحت ’معاون جرم‘ تصور کیے جائیں گے۔‘اشتہار میں عوام کو خبردار کیا گیا ہے کہ ’دہشت گردی کے واقعات کے دوران یا بعدازاں کسی بھی مشتبہ مقام پر موجودگی، ہجوم لگانا یا ویڈیو اور فوٹو بنانا نہ صرف قانونی کارروائی کا موجب بن سکتا ہے بلکہ فورسز کے فوری ردعمل کے دوران ایسے افراد گولی کا نشانہ بن کر اپنی جان بھی گنوا سکتے ہیں۔‘
اشتہار میں عوام کو خبردار کیا گیا ہے کہ ’دہشت گردی کے واقعات کے دوران یا بعد میں ویڈیو اور فوٹو بنانا قانونی کارروائی کا موجب بن سکتا ہے (فوٹو: محکمہ اطلاعات)
سرکاری اعلان میں کہا گیا ہے کہ ’اگر رسپانس میکنزم کے دوران کی جانے والی کارروائیوں میں کسی فرد کو جانی یا مالی نقصان ہوتا ہے تو اس کی مکمل ذمہ داری اسی فرد پر عائد ہوگی۔‘
عوام سے کہا گیا ہے کہ وہ سکیورٹی فورسز اور انتظامیہ کے ساتھ مکمل تعاون کریں اور کسی بھی مشتبہ یا غیرضروری سرگرمی سے مکمل طور پر گریز کریں۔رواں سال مارچ میں جعفر ایکسپریس ٹرین پر حملے میں ملوث مبینہ حملہ آوروں کی لاشوں کو سول ہسپتال کوئٹہ سے زبردستی لے جانے کی کوشش پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ماہ رنگ بلوچ اور دیگر رہنماؤں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔حکومت نے بعض مبینہ شدت پسندوں کو خفیہ طور پر کوئٹہ کے کاسی قبرستان میں دفن کیا۔ لاشوں کو شناخت کے بغیر دفنانے پر بی وائی سی نے احتجاج کیا اور خدشہ ظاہر کیا کہ ان میں لاپتہ افراد شامل ہوسکتے ہیں۔اس موقعے پر وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے موقف اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریاست کسی دہشت گرد کو ہیرو بنانے یا ان کی لاشوں کو گلوریفائی کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔