پنجاب کو پاکستان کا سیاسی دل بھی کہا جاتا ہے، جہاں سیاسی جماعتیں اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کی جنگ لڑتی ہیں، تاہم یہ صوبہ آج کل پاکستان تحریک انصاف کے لیے ایک مشکل میدان بن چکا ہے۔ 2018 میں پنجاب میں اپنی حکومت بنانے والی یہ جماعت آج اپنی قیادت کے بحران اور عملی طور پر مفلوج حالت سے دوچار ہے۔ اس کی سرکردہ قیادت جیسے ڈاکٹر یاسمین راشد اور اعجاز چوہدری جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں، میاں اسلم اقبال اور حماد اظہر روپوش ہیں، جبکہ اپوزیشن لیڈر ملک احمد بھچر کی صلاحیت اسمبلی کے فلور تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ عالیہ حمزہ عبوری قیادت کے طور پر سرگرم ہیں، لیکن خیبرپختونخوا کے وزیراعلٰی علی امین گنڈاپورکے لاہور میں 90 روزہ الٹی میٹم نے پارٹی کے اندرونی خلفشار کو عیاں کر دیا ہے۔قیادت کا بحران، ایک خالی میدانپنجاب میں پی ٹی آئی کی قیادت اس وقت اپنی بدترین حالت سے گزر رہی ہے۔ 2023 میں 9 مئی واقعات کے بعد سے پارٹی کی سرکردہ قیادت پر حکومتی کریک ڈاؤن نے اسے شدید نقصان پہنچایا۔ ڈاکٹر یاسمین راشد، جو پنجاب میں پی ٹی آئی کی صدر ہیں، اور اعجاز چوہدری سابق سینیٹر، 9 مئی کے مقدمات کی وجہ سے جیل میں ہیں۔ ان پر فوجی تنصیبات پر حملوں کی منصوبہ بندی اور اشتعال انگیزی کے الزامات ہیں، جنہیں پی ٹی آئی سیاسی انتقام قرار دیتی ہے۔اسی طرح، میاں اسلم اقبال، جو پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے لیے پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار تھے، اور حماد اظہر، سابق وفاقی وزیر اور پنجاب کے صدر، ممکنہ گرفتاریوں کے خوف سے روپوش ہیں۔ اسلم اقبال نے اپنی بیٹی کی شادی کے موقع پر گرفتاری کے خوف سے لاہور آنے سے گریز کیا، جبکہ حماد اظہر پر پارٹی کے اندر عدم اتفاق کے الزامات بھی عائد کیے گئے۔ ان کے غائب ہونے سے پنجاب میں پارٹی کی تنظیم کاری شدید متاثر ہوئی ہے۔ ملک احمد بھچر، جو فی الحال پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں، اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم، ان کا کردار اسمبلی کے فلور تک محدود ہے، جہاں وہ 26 پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کی معطلی کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہ اراکین مبینہ طور پر وزیراعلٰی مریم نواز کے خلاف غیر اخلاقی جملوں کی وجہ سے معطل کیے گئے، جو 27 جون 2025 کو اسمبلی کے اجلاس کے دوران احتجاج کا نتیجہ تھا۔ بھچر نے اس معطلی کو ’پنجاب حکومت کا خوف‘ قرار دیا، لیکن اس سے پارٹی کی حکمت عملی کی کمزوری بھی عیاں ہوتی ہے۔ عالیہ حمزہ، جو پنجاب میں پی ٹی آئی کی عبوری چیف آرگنائزر ہیں، نے کارکنوں کو متحرک کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے 11 جولائی 2025 کو اعلان کیا کہ پارٹی احتجاجی موڈ میں ہے اور ہر کارکن کو متحرک کیا جائے گا۔ تاہم، علی امین گنڈاپور کے 13 جولائی 2025 کو لاہور میں دیے گئے 90 روزہ الٹی میٹم نے پارٹی کے اندر تناؤ کو بڑھا دیا۔ گنڈاپور نے کہا کہ عمران خان کی رہائی کے لیے وہ 90 دن کا الٹی میٹم دے رہے ہیں۔ عالیہ حمزہ نے اس الٹی میٹم پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پانچ اگست کے احتجاج کو 90 دن تک موخر کرنے کا فیصلہ سمجھ سے باہر ہے۔ اس سے پارٹی کے اندر رابطوں کی کمی اور حکمت عملی کا فقدان بھی سامنے آیا ہے۔
وزیراعلٰی علی امین گنڈاپور نے عمران خان کی رہائی کے لیے 90 دن کا الٹی میٹم دیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پی ٹی آئی کی کمزوری کا فائدہ کِسے؟
دوسری طرف بظاہر ایسے لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں اپنی سیاسی گرفت مضبوط کرنے کے لیے ایک منظم حکمت عملی اپنائی ہوئی ہے، جس نے پی ٹی آئی کو عملی طور پر مفلوج کر دیا ہے۔ صوبے میں حکومت ہونے کی وجہ سے ن لیگ کے پاس طاقت ہے، تحریک انصاف کے پاس پنجاب میں قیادت کی کمی نے سٹریٹ پاور کا راستہ تقریبا روک دیا ہے۔مزید برآں، مسلم لیگ (ن) نے پی ٹی آئی کے کئی اہم رہنماؤں کو اپنی طرف ملانے کی کوشش کی۔ مثال کے طور پر، وسیم قادر، جو پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار تھے، نے 2024 کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی۔ اس طرح کے سیاسی جوڑ توڑ نے پی ٹی آئی کے ووٹ بینک اور تنظیمی ڈھانچے کو نقصان پہنچایا۔ وزیر اعلٰی مریم نواز کی اسمبلی میں موجودگی کے دوران پی ٹی آئی اراکین کی معطلی نے پارٹی کی پارلیمانی طاقت کو مزید کم کیا، جس سے وہ موثر اپوزیشن کا کردار ادا نہ کر سکی۔عمران خان کی رہائی کے لیے تحریکعمران خان کی گرفتاری، جو اگست 2023 میں توشہ خانہ کیس میں ہوئی، پی ٹی آئی کے لیے ایک اہم نکتہ رہی ہے۔ پارٹی نے اسے سیاسی انتقام قرار دیتے ہوئے متعدد احتجاج کیے، لیکن پنجاب میں یہ تحریک زیادہ موثر نہ ہو سکی۔ 13 جولائی 2025 کو لاہور میں ہونے والی ایک اہم میٹنگ میں، علی امین گنڈاپور اور بیرسٹر گوہر علی خان نے عمران خان کی رہائی کے لیے پانچ اگست کو عروج پر پہنچنے والی تحریک کا اعلان کیا۔ گنڈاپور نے اسے ’آخری جنگ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر 90 دن میں نتائج نہ ملے تو فیصلہ کن اقدام اٹھایا جائے گا۔تاہم، اس الٹی میٹم نے پارٹی کے اندر تنازعات کو جنم دیا۔ عالیہ حمزہ سمیت کئی رہنماؤں نے اسے غیر واضح اور غیر حقیقت پسندانہ قرار دیا، کیونکہ پنجاب میں پارٹی کی کمزور تنظیمی حالت اسے بڑے پیمانے پر احتجاج کے لیے تیار نہیں کرتی۔ مزید برآں، لاہور میں گنڈاپور کی آمد کے دوران چار پی ٹی آئی کارکنوں کی گرفتاری اور پولیس کی بھاری نفری نے یہ ظاہر کیا کہ پنجاب حکومت احتجاج کو کچلنے کے لیے تیار ہے۔
عالیہ حمزہ نے 11 جولائی 2025 کو اعلان کیا کہ پارٹی احتجاجی موڈ میں ہے۔ (فائل فوٹو)
پنجاب میں پی ٹی آئی کی قیادت کہاں کھڑی ہے؟
سیاسی ماہرین کے مطابق پنجاب کے سیاسی زمینی حقائق کے مطابق پی ٹی آئی کی قیادت اس وقت چار حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔جیل میں قید رہنما: یاسمین راشد، اعجاز چوہدری، شاہ محمود قریشی، عمر سرفراز چیمہ، اور میاں محمود الرشید جیسے سرکردہ رہنما 9 مئی کے مقدمات کی وجہ سے جیل میں ہیں۔ یہ رہنما پارٹی کی نظریاتی طاقت ہیں، لیکن ان کی غیر موجودگی نے تنظیمی ڈھانچے کو کمزور کیا۔روپوش رہنما: میاں اسلم اقبال اور حماد اظہر کی روپوشی نے پنجاب میں قیادت کا خلا بڑھایا۔ 2024 میں گنڈاپور نے حماد اظہر کی جگہ شیخ وقاص اکرم کو پنجاب کا صدر بنانے کی تجویز دی، لیکن عمران خان نے اسے مسترد کر دیا۔اسمبلی میں محدود رہنما: ملک احمد بھچر 107 پی ٹی آئی اراکین کے ساتھ اپوزیشن لیڈر ہیں، لیکن 26 اراکین کی معطلی اور اسمبلی کے اندر حکومتی دباؤ نے ان کی صلاحیت کو محدود کر دیا۔عبوری قیادت: عالیہ حمزہ نے کارکنوں کو متحرک کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کی قیادت کو گنڈاپور جیسے مضبوط رہنماؤں کے فیصلوں نے کمزور کیا۔
میاں اسلم اقبال اور حماد اظہر پر بھی 9 مئی کے واقعات کے مقدمات درج ہیں۔ (فوٹو: پی ٹی آئی لاہور)
کیا پی ٹی آئی بحال ہو سکتی ہے؟
پاکستان کے سیاسی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس بات کا دارومدار اب بھی جیل میں بیٹھے شخص کے ہاتھ میں ہے۔ یہ پہلے بھی عمران خان کے ہاتھ میں تھا۔ جس دن تحریک انصاف معاملات کو زور زبردستی کے بجائے سیاسی انداز سے ٹھیک کرنے کا فیصلہ کر لے گی تو معاملات میں بہتری لانا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ پنجاب کی جیلوں میں قید تحریک انصاف کی سیاسی قیادت نے جو خط لکھا تھا پچھلے دنوں وہ کیا تھا؟ اس میں کس سے بات چیت کرنے کی بات کی گئی تھی؟ راستے تو سیاست دانوں کے ہر وقت ہوتے ہیں۔اس میں تو کئی شک و شبے والی بات نہیں ہے۔‘سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ ’پنجاب میں پی ٹی آئی کی مفلوج حالت اس کی قیادت کے بحران اور حکومتی دباؤ کا نتیجہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے نہ صرف قانونی دباؤ بڑھایا، بلکہ سیاسی میدان میں تحریک انصاف کو ایک کونے میں دھکیل دیا ہے۔ اب صرف فہم اور دانش سے چیزیں ٹھیک کی جا سکتی ہیں۔‘انہوں نے مزید کہا کہ گنڈاپور کا 90 روزہ الٹی میٹم ایک جذباتی بیان ہو سکتا ہے، لیکن اس کے لیے زمینی حقیقت دستیاب نہیں ہے۔پنجاب میں پی ٹی آئی کی موجودہ حالت یقیناً مفلوج ہے، سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ یہ صورت حال مستقل نہیں ہے۔ عمران خان کی عوامی مقبولیت اور پارٹی کا ووٹ بینک اب بھی اسے ایک طاقتور اپوزیشن بنا سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی ایسے کسی موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہے؟