دنیا بھر کے کوہ پیماؤں میں بلند ترین چوٹیاں بغیر آکسیجن کے سر کرنے کا رحجان بڑھ رہا ہے۔پاکستان کے سرباز خان بھی حال ہی میں نیپال میں واقع دنیا کی تیسری بلند ترین چوٹی 8586 میٹر کینچن جنگا آکسیجن کے بغیر سر کر کے پہلے پاکستانی بن گئے ہیں جنہوں نے دنیا کی 14 بلند ترین چوٹیاں مکمل طور پر آکسیجن کے بغیر سر کی ہیں۔اسی طرح پاکستان کے نوجوان کوہ پیما علی محمد سدپارہ نے 2018 میں پہلی مرتبہ بغیر آکسیجن دنیا کا دوسرا بلند ترین پہاڑ کے ٹو کو سر کر کے اعزاز اپنے نام کیا۔اردو نیوز نے بغیر آکسیجن کے بلند ترین پہاڑ چڑھنے اور اس حوالے سے درپیش مشکلات اور ممکنہ نقصانات کے بارے میں کوہ پیماؤں اور ماہرین سے بات کی ہے۔گلگت بلتستان کے کوہ پیمائی کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور گاؤں سدپارہ سے تعلق رکھنے والے علی محمد سدپارہ نے اس تجربے کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ذاتی طور پر ان کو اس عمل میں کبھی کسی خوفزدہ چیلنج کا سامنا نہیں ہوا کیونکہ ان کی ساری عمر پہاڑوں میں ہی گزری ہے۔’جب آپ کو یقین ہو کہ یہی پہاڑیاں آپ کی پہچان ہیں، آپ ان ہی میں پیدا ہوئے، ان ہی میں پلے بڑھے اور انہی میں ایک دن دفن ہونا ہے، تو آپ بڑے سے بڑا ریکارڈ بھی قائم کر سکتے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ جب 22 جولائی 2018 کو وہ پہلی مرتبہ آکسیجن کے بغیر کے ٹو سر کرنے جا رہے تھے، تو اس وقت ان کے پاس آکسیجن استعمال کرنے کا عملی تجربہ تھا اور نہ ہی آکسیجن کے بغیر چڑھائی کی مشکلات کے بارے میں کوئی اندازہ۔’جب میں ’کے ٹو‘ کے ’بوٹل نیک‘ تک آکسیجن کے بغیر پہنچا تو اوپر سے ایک نیپالی کوہ پیما واپس آ رہا تھا، جس نے دیکھ کر حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ آگے جانے سے پہلے آکسیجن ضرور لے لو، ورنہ بہت مشکل ہو جائے گی۔ مگر میں نے فیصلہ کیا کہ اگر یہاں تک آکسیجن کے بغیر آیا ہوں تو آگے بھی آکسیجن استعمال نہیں کروں گا۔‘’اس سے اوپر ہر قدم میرے لیے مشکل ضرور تھا، لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری اور بالآخر کے ٹو سر کر کے پاکستان کا سب سے کم عمر کوہ پیما بن گیا جس نے آکسیجن کے بغیر یہ چوٹی سر کی۔‘
علی محمد سدپارہ نے جی ون اور جی ٹو کی چوٹیاں بھی بغیر آکسیجن کے سر کیں۔ (فوٹو: سکرین گریب)
علی محمد سدپارہ نے 2024 میں ایک بار پھر کے ٹو کو آکسیجن کے بغیر سر کیا، اور اس کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان میں واقع دنیا کی گیارہویں بلند ترین چوٹی جی ون اور تیرہویں بلند ترین چوٹی جی ٹو کو بھی بغیر آکسیجن سر کر کے نئی تاریخ رقم کی۔
پاکستان کے معروف کوہ پیما حسن سدپارہ کے بیٹے عابد سدپارہ، جو خود بھی کئی چوٹیاں سر کر چکے ہیں، بتاتے ہیں کہ ان کے والد نے 2004 میں کے ٹو کو آکسیجن کے بغیر سر کیا، جو اُس وقت ایک انوکھا اور منفرد ریکارڈ تھا۔ ان کے بقول، اس مہم کے دوران غیر ملکی کوہ پیما بھی حیران رہ گئے تھے۔عابد سدپارہ نے مزید بتایا کہ ان کے والد نے ماؤنٹ ایورسٹ، نانگا پربت، جی ون اور جی ٹو سمیت کئی بلند ترین چوٹیاں آکسیجن کے بغیر سر کیں، لیکن چونکہ انہیں اُس وقت وہ عالمی پذیرائی اور میڈیا کی توجہ نہیں ملی، اس لیے لوگ شاید انہیں اُس طرح یاد نہیں رکھتے۔ان کے خیال میں آکسیجن کے بغیر پہاڑ سر کرنا آپ کی زندگی کو مختصر کر سکتا ہے۔حسن سدپارہ کے صاحبزادے علی محمد سدپارہ یہ بتاتے ہوئے کچھ جذباتی بھی ہوگئے کہ آکسیجن کے بغیر چوٹیاں سر کرکے شاید ان کے والد نے نام تو ضرور کمایا، لیکن یہی ان کی موت کی وجہ بھی بنا۔
حسن سدپارہ کا کہنا تھا کہ جب ان کے والد کی موت ہوئی تو ان کے پھیپھڑے مکمل طور پر کام کرنا چھوڑ چکے تھے (فوٹو: سکرین گریب)
انہوں نے کہا کہ ’ماہرین اور ٹور آپریٹر کمپنیاں آپ کو یہی مشورہ دیتی ہیں کہ آپ ہر صورت آکسیجن کے استعمال کے ساتھ چوٹی سر کریں، کیونکہ زیادہ بلندی پر آکسیجن کی کمی آپ کے پھیپھڑوں کو شدید متاثر کرتی ہے۔‘
حسن سدپارہ کا کہنا تھا کہ جب ان کے والد کی موت ہوئی تو ان کے پھیپھڑے مکمل طور پر کام کرنا چھوڑ چکے تھے اور یہی ان کی موت کی بنیادی وجہ تھی۔علی محمد سدپارہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اپنے ذاتی کوہ پیمائی کے تجربے کی بنیاد پر وہ پوری ذمہ داری سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ آکسیجن کے بغیر چوٹیاں سر کرنا ایسے ہے جیسے آپ کی اصل عمر 60 سال ہو، لیکن آپ 45 سال کی عمر میں ہی دنیا سے چلے جائیں۔