امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی نے پاکستان میں تعینات ایران کے سفیر رضا امیری مقدم سمیت تین ایرانی شخصیات کے نام ’انتہائی مطلوب افراد‘ کی فہرست میں شامل کر دیے ہیں۔ ایف بی آئی نے دعویٰ کیا ہے کہ رضا امیری ایک سابق امریکی سپیشل ایجنٹ کے اغوا میں مبینہ طور پر ملوث ہیں۔ ایران نے تاحال کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔
امریکی تحقیقاتی ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹیگیشن (ایف بی آئی) نے پاکستان میں ایران کے سفیر رضا امیری مقدم سمیت تین ایرانی شخصیات کے نام ’انتہائی مطلوب افراد‘ کی فہرست میں شامل کر دیے ہیں۔
ایف بی آئی کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ پاکستان میں تعینات ایران کے سفیر رضا امیری مقدم اور دیگر دو ایرانی شخصیات، تقی دانشور اور غلا حسین محمدنیا، مارچ 2007 میں ریٹائرڈ امریکی سپیشل ایجنٹ رابرٹ اے ’بوب‘ لیونسن کے اغوا میں مبینہ طور پر ملوث ہیں۔
ایف بی آئی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ریٹائرڈ سپیشل ایجنٹ بوب 9 مارچ 2007 کو ایران کے جزیرہِ کیش سے لاپتا ہوئے تھے۔
ایران کی جانب سے اس معاملے پر فی الحال کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔ بی بی سی اُردو نے اس معاملے پر تبصرے کے لیے پاکستان میں ایرانی سفارتخانے سے رابطہ کیا مگر تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
ایف بی آئی نے ان تینوں افراد کے پوسٹرز جاری کیے ہیں اور کہا ہے کہ ’ایف بی آئی (ریٹائرڈ سپیشل ایجنٹ) بوب کے اغوا اور ایران کی جانب سے اس عمل کی ذمہ داری کسی اور پر ڈالنے کے اقدام میں مبینہ کردار ادا کرنے پر ایرانی حکام کے خلاف تحقیقات کر رہی ہے۔‘
ایف بی آئی کے بیان میں مزید کیا کہا گیا ہے؟
ایف بی آئی نے دعویٰ کیا ہے کہ رضا امیری مقدم، تقی دانشور اور غلام حسین محمدنیا ایران کی انٹیلیجنس کے افسران ہیں۔
ایف بی آئی اے کے واشنگٹن فیلڈ آفس کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر انچارج سٹیون جینس نے دعویٰ کیا کہ ’یہ تینوں انٹیلیجنس افسران اُن افراد میں شامل ہیں جنھوں نے 2007 میں (ریٹائرڈ سپیشل ایجنٹ) بوب کے اغوا اور ایرانی حکومت کی طرف سے اس عمل کو چھپانے میں سہولت کاری کی تھی۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’بوب ممکنہ طور پر اپنے خاندان، دوستوں اور ساتھیوں سے بہت دور ہلاک کر دیے گئے ہیں۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ایف بی آئی اپنے سابق ایجنٹ کے اغوا میں ملوث افراد کا پیچھا کرنے کا عمل جاری رکھے گی۔
ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ ریٹائرڈ سپیشل ایجنٹ بوب کی لوکیشن اور بازیابی کے حوالے سے اطلاع دینے پر پانچ کروڑ ڈالر کے انعام کی امریکی پیشکش اب بھی برقرار ہے۔
ایف بی آئی کا اپنے بیان میں مزید کہنا ہے کہ رضا امیری مقدم، تقی دانشور اور غلام حسین محمدنیا انھیں سپیشل ایجنٹ کے اغوا کے حوالے سے پوچھ گچھ کے لیے درکار ہیں۔
رضا امیری مقدم کے بارے میں ایف بی آئی نے کیا کہا ہے؟
رضا امیری مقدم نے جولائی 2023 میں پاکستان میں بطور ایرانی سفیر اپنے عہدے کا چارج سنبھالا تھا۔
پاکستان میں ایرانی سفارتخانے کی ویب سائٹ پر اُن کے حوالے سے زیادہ معلومات موجود نہیں ہیں۔ وہاں دستیاب معلومات کے مطابق رضا امیری مقدم سنہ 1961 میں پیدا ہوئے تھے اور انھوں نے بین الاقوامی تعلقات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔
ویب سائٹ کے مطابق پاکستان میں بطور سفیر خدمات انجام دینے کے علاوہ وہ ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل میں خارجہ اور بین الاقوامی پالیسی امور کے بھی ڈپٹی ہیں۔
تاہم ایف بی آئی کا دعویٰ ہے کہ رضا امیری مقدم ماضی میں ایران کی وزارتِ انٹیلیجنس اور سکیورٹی میں آپریشنز یونٹ کی سربراہی کر چکے ہیں۔
’جب مقدم اس عہدے پر کام کر رہے تھے تب یورپ میں وزارتِ انٹیلیجنس اور سکیورٹی کے ایجنٹس انھیں رپورٹ کیا کرتے تھے۔‘
ایف بی آئی کی ’انتہائی مطلوب افراد‘ میں شامل کی گئیں دو دیگر شخصیات کون ہیں؟
ایف بی آئی کے بیان کے مطابق تقی دانشور، جنھیں سید تقی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ایران کی وزارتِ انٹیلیجنس اور سکیورٹی کے اعلیٰ اہلکار ہیں اور انسدادِ دہشتگردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
امریکی ادارے کا دعویٰ ہے کہ جس دوران ریٹائرڈ سپیشل ایجنٹ بوب لاپتہ ہوئے اس وقت محمد سینائی، جنھیں محمد بصیری کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، تقی دانشور کی زیرِ نگرانی کام کر رہے تھے۔
ایف بی آئی کی جانب سے ’انتہائی مطلوب افراد‘ کی فہرست میں شامل کی جانے والی تیسری شخصیت غلام حسین محمدانیا ہیں۔
غلام حسین محمدانیا ماضی میں البانیہ میں بطور ایرانی سفیر خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔
ماضی میں بی بی سی رپورٹ کر چکا ہے کہ غلام حسین محمدانیا اور ایک اور ایرانی سفارتکار کو البانیہ نے ’ملک کی سکیورٹی کو خطرے میں ڈالنے‘ کے الزام میں ملک سے بےدخل کر دیا تھا۔
اس وقت ایران نے الزام عائد کیا تھا کہ اس اقدام کے لیے اسرائیل اور امریکہ نے البانیہ پر دباؤ ڈالا تھا۔
سابق ریٹائرڈ ایجنٹ ایران میں کیا کر رہے تھے؟
ایف بی آئی کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق امریکی حکومت کے ریٹائرڈ ملازم رابرٹ اے ’بوب‘ لیونسن نے 28 برس امریکی محکمہ انصاف کے لیے کام کیا تھا۔ اس دوران وہ ایف بی آئی اور ڈرگ انفورسمنٹ ایڈمنسٹریشن کے ساتھ بھی منسلک رہے۔
ریٹائرڈ ایجنٹ بوب سنہ 1998 میں ایف بی آئی سے ریٹائر ہوئے تھے اور اس کے بعد بطور پرائیوٹ تفتیش کار کام کر رہے تھے۔
ایف بی آئی کے مطابق ریٹائرڈ سپیشل ایجنٹ 8 مارچ 2007 کو متعدد بڑی کارپوریشنز کی ایما پر ایران کے جزیرہ کیش گئے تھے اور اس کے بعد سے ان کے بارے میں کوئی معلومات موجود نہیں ہے۔
تاہم امریکی حکومت یا ایف بی آئی نے یہ نہیں بتایا تھا کہ سابق ایجنٹ ایران میں کیا کر رہے تھے۔
تاہم ریٹائرڈ سپیشل ایجنٹ بوب کے بیٹے ڈیوڈ کے مطابق انھیں اپنے والد کی ایک ویڈیو موصول ہوئی تھی جس میں انھیں قید میں دکھایا گیا تھا۔
ڈیوڈ نے اپنی والدہ کے ہمراہ ایک ویڈیو بھی بنائی تھی جس میں وہ اپنے والد کی واپسی کی درخواست کر رہے تھے۔ اس ویڈیو میں اس کلپ کو بھی شامل کیا گیا تھا جس میں ریٹائرڈ ایجنٹ بوب کو اپنی رہائی کے لیے مدد کی اپیل کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔
اس ویڈیو میں ریٹائرڈ سپیشل ایجنٹ بوب کہتے ہوئے نظر آ رہے تھے کہ ’میں ساڑھے تین برس سے قید میں ہوں۔‘
انھوں نے اس ریکارڈڈ ویڈیو میں کہا تھا کہ امریکی حکومت انھیں ساڑھے تین سال قید میں رکھنے والے گروہ کی درخواستوں کا جواب دے۔