جین زی سے تعلق رکھنے والی پاکستانی اداکارہ عینا آصف اس وقت اپنے ڈرامے ’پرورش‘ کی وجہ سے چھوٹے پردے پر چھائی ہوئی ہیں۔ ڈرامے میں کئی ایسے موضوعات اٹھائے گئے ہیں جو نہ صرف ان کی جینیریشن بلکہ والدین کے لیے بھی کافی سبق آموز ہیں۔
https://youtu.be/_0nSc4HncpU?si=MKZ7QRBfUSqmN-WE
پاکستانی اداکارہ عینا آصف اس وقت اپنے ڈرامے ’پرورش‘ کی وجہ سے ٹرینڈ کر رہی ہیں۔ اس ڈرامے میں کئی ایسے موضوعات اٹھائے گئے ہیں جو نہ صرف نوجوان نسل بلکہ ان کے والدین کے لیے بھی کافی سبق آموز ہیں۔
عموماً پاکستانی ڈراموں کا مواد خواتین کی دلچپسپی کو سامنے رکھ کر بنایا جاتا ہے لیکن ’پرورش‘ نے نوجوان ناظرین کو بھی متوجہ کیا ہے۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ ڈرامے میں کم از کم پانچ کردار ’جنریشن زی‘ سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ سب مختلف مسائل سے دوچار ہیں۔
عینا اس ڈرامے میں ’مایا‘ کا مرکزی کردار ادا کر رہی ہیں۔
انٹرٹینمنٹ سے متعلق فیچر اور تجزیے براہ راست اپنے فون پر بی بی سی اُردو کے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ فالو کرنے کے لیے کلک کیجیے۔
بی بی سی کے ساتھ خصوصی گفتگو میں عینا نے بتایا کہ یہ ڈرامہ جس میں مایا اور اس کی والدہ کے درمیان تعلق کو دکھایا گیا ہے اُن کے دل کے سب سے قریب ہے۔
اس کی وجہ بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ اصل زندگی میں بھی اپنی والدہ سے اتنے ہی آرام سے ہر موضوع پر بات کر لیتی ہیں۔ خیال رہے کہ عینا کی والدہ ہی اُن کی پبلک ریلیشننگ کی ذمہ دار ہیں۔
عینا نے 11 برس کی عمر میں انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں قدم رکھا تھا۔ کچھ کمرشلز اور ڈراموں کے بعد سنہ 2023 میں نشر ہونے والے ڈرامے ’مائی ری‘ سے وہ منظرِعام پر آئیں۔ بچوں کی شادیوں کی تھیم پر مبنی اس ڈرامے میں ان کے کردار عینی کو کافی پذیرائی ملی تھی۔
'میں خود کو ایسی کسی صورتحال میں تصور ہی نہیں کر سکتی جس سے مایہ یا عینی کو گزرنا پڑا‘’پرورش‘ میں مایا کے کردار میں بھی کافی لڑکیاں اپنا کردار دیکھ رہی ہیں۔ مایا ڈاکٹر بننا چاہتی ہیں لیکن اُن کے والدین اُن کے لیے صحیح رشتے کی تلاش میں ہیں۔
عینا کہتی ہیں کہ ’میں خود کو ایسی کسی صورتحال میں تصور ہی نہیں کر سکتی جس سے مایا یا عینی کو گزرنا پڑا۔ ’مائی ری‘ میں عینی کی ایک بچی تھی۔ وہ بچی جب کیمرہ دیکھ کر ڈر جاتی اور رونے لگتی تھی تو میں پریشان ہو جاتی تھی۔ کیوںکہ میں خود بھی بچی تھی۔ ہمارے ڈائریکٹر میثم نقوی نے تب مجھے سمجھایا کہ میری عمر کی جو مائیں ہیں وہ ایسا ہی محسوس کرتی ہیں۔‘
اُن کے مطابق ’اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میں جو کردار سکرین پر نبھا رہی ہوں وہ میری اصل زندگی سے بہت مختلف ہیں۔ میں جس فیملی سے تعلق رکھتی ہوں، وہاں میں سوچ بھی نہیں سکتی کہ اس عمر میں میری ماما یا بابا مجھ سے آ کر کہیں گے کہ میرے لیے رشتہ آیا ہے۔‘
گذشتہ برس عینا کا ڈرامہ ’وہ ضدی سی‘ نشر ہوا جس میں ان کے ساتھی اداکار دانیال افضل خان تھے جو ان سے دگنی عمر کے ہیں۔ ان کے اور عینا کے کردار کی شادی کے مناظر دیکھ کر عوام نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
’عوام کے لیے یہ ہضم کرنا مشکل ہے، لیکن میں سکرین پر عینا نہیں ہوں۔ ڈرامے میں دانیال اور میرے کردار کی شادی ہوتی ہے، عینا کی نہیں۔ اور وہ بدلہ لینے لے لیے شادی کرتی ہے، محبت کے لیے نہیں۔‘
'مجھے لگتا ہے آپ کو ایسے کردار کی پیشکش ہوتی ہے جو آپ کی صلاحیت ہے۔ اگر لوگ میرے کرداروں کو دیکھ کر یہ مان لیتے ہیں کہ میں 18 برس کی ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ میں اچھی اداکارہ ہوں۔‘
’اگر لوگ میرے کرداروں کو دیکھ کر یہ مان لیتے ہیں کے میں 18 برس کی ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ میں اچھی اداکارہ ہوں‘عینا جو اس وقت 16 سال کی ہیں ’مائی ری‘ کی شوٹنگ کے دوران صرف 14 برس کی تھیں، اور یہی وہ وقت تھا جب انھیں شہرت ملنا شروع ہوئی۔
عینا کہتی ہیں کہ ’اُس عمر میں تنقید برداشت کرنا سب سے بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ عوامی شخصیت ہونے کی حیثیت سے سوشل میڈیا پر کوئی بھی آپ کو کچھ بھی کہہ سکتا ہے۔‘
اُن کا کہنا ہے کہ ’لوگ میری شکل و صورت پر تبصرے کرتے ہیں۔ وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ میں ایک بچی ہوں۔ میں جس عمر کی بھی لگتی ہوں، ہوں تو میں 16 سال کی ہی اور یہ بات حقیقت ہے۔‘
عینا کا کہنا ہے کہ پہلے یہ چیز انھیں بہت زیادہ متاثر کرتی تھی۔
ان کا کہنا ہے ’اگر میں کچھ بُرا پڑھ لیتی تھی تو میری پوری رات خراب ہو جاتی تھی۔ یہاں تک کہ میں رونا شروع ہو جاتی تھی۔ ابھی بھی مجھے یہ چیزیں متاثر کرتی ہیں لیکن یہ یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ اگر لوگ آپ کو غلط سمجھ رہے ہیں تو آپ ان کو جوابدہ نہیں ہیں۔‘
کچھ ماہ قبل ندا یاسر کے مارننگ شو پر عینا نے ذہنی صحت کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کیا جس پر انھیں عوام کی کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
انھوں نے کہا کہ ’میں وہاں اپنا نکتہ نظر ٹھیک سے بتا بھی نہیں سکی اور جہاں سے وہ ختم ہوا اس سے مجھے احساس ہوا کہ وہ جارحانہ لگ رہا ہے۔ لیکن میری بات بھی کسی نے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میں صرف یہ کہنا چاہتی تھی کہ اگر ایک تھیراپسٹ اپنے مریض کے مذہب پر سوال کرتا ہے تو یہ درست نہیں ہے۔ اس سے انسان یہ سوچنے لگتا ہے کہ اس کا ایمان کمزور ہے اور اللہ سے اس کا تعلق اتنا مضبوط نہیں ہے۔ تھیراپی کے لیے محفوظ جگہ ہونی چاہیے کیوںکہ ہمارے یہاں یہ کافی بہادری کا اقدام ہے۔‘
عینا کہتی ہیں کہ ’اس پر جو ردعمل آیا اس کی وجہ سے میں کافی حوصلہ ہار بیٹھی تھی۔ لیکن مجھے احساس ہے کہ میں بہتر الفاظ اور بہتر پلیٹ فارم کا انتخاب کر سکتی تھی۔ مجھے اگر اپنے کام سے اتنی محبت نہ ہوتی تو میں ان باتوں کی وجہ سے کب کا کوئٹ کر چکی ہوتی۔'
یہی وجہ ہے کہ عینا اپنے سوشل میڈیا پر مخصوص چیزیں شائع کرنا پسند کرتی ہیں۔ وہ خاکے بناتی ہیں مگر انھوں نے آج تک اپنا کوئی خاکہ سوشل میڈیا پر پوسٹ نہیں کیا۔ وہ نہیں چاہتیں کہ اس پر کوئی اچھا یا برا تبصرہ کرے۔
عینا کا کہنا ہے کہ ’میں چاہتی ہوں میرا سوشل میڈیا حقیقت پسندی پر مبنی ہو، میرے کام کے حوالے سے ہو اور میں ان موضوعات پر بات کروں جو میرے دل کے قریب ہیں جیسے کہ ذہنی صحت جس پر میں روانی سے بات کر سکتی ہوں۔‘
آنے والے برسوں میں اگر عینا انڈسٹری کا حصہ رہیں اور انھیں موقع ملا تو وہ کام کے اوقات کار میں کمی کرنا چاہیں گی۔
’ہمارے ورکنگ آورز بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ دن کے 12 گھنٹے۔ اور اس وجہ سے کچھ اور کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ اگر میرے ہاتھ میں ہو تو میں یہ دورانیہ تھوڑا کم کرنا چاہوں گی۔‘
اس کے علاوہ عینا کا کہنا ہے کہ ’ہماری انڈسٹری میں بہت زیادہ سخت مقابلے فضا ہے۔ مجھے لگتا ہے ہمیں دوسروں کی کامیابی پر خوش ہونا چاہیے اور میں نے انڈسٹری میں یہ بہت کم دیکھا ہے۔‘