میری بیٹی اتنی گری ہوئی بات کبھی نہیں کر سکتی۔۔ لاش لینے سے انکار کیوں کیا تھا؟ حمیرا اصغر کے والدین پہلی بار کھل کر بول پڑے

image

"ہمیشہ سے فنونِ لطیفہ کی طرف مائل تھی۔ این سی اے میں پڑھا، پھر شوبز میں گئی۔ سات سال پہلے کراچی منتقل ہوئی، میں نے خود اجازت دی تھی کہ اپنے خواب پورے کرے۔ وہ ہر دو ماہ بعد گھر آتی تھی، ہمارے تعلقات بہت اچھے تھے۔ میں نے کبھی لاش لینے سے انکار نہیں کیا، میں خود ڈاکٹر ہوں، جانتا ہوں کہ پوسٹ مارٹم کے بغیر لاش نہیں دی جا سکتی۔ مجھے اس کیس میں کچھ گڑبڑ لگتی ہے۔ اور جہاں تک جائیداد کی بات ہے، وہ کبھی ایسی کمینی بات نہیں کر سکتی کہ حصہ مانگے۔ اس کے پاس پیسہ تھا، یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ کرایہ نہ دے سکے۔" – ڈاکٹر اصغر (والد)

کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس سے اداکارہ و ماڈل حمیرا اصغر کی نو ماہ پرانی لاش ملنے کا لرزہ خیز واقعہ پورے ملک میں ہلچل مچا چکا ہے۔ جیسے ہی یہ خبر وائرل ہوئی، سب کی نظریں ایک ہی سوال پر جمی رہیں: آخر ایسا کیسے ہو گیا کہ کوئی خاتون، جو کبھی اسکرین پر جگمگاتی تھی، اتنے طویل وقت تک اکیلی، تنہا اور بے خبر مرنے کے بعد بھی کسی کی توجہ حاصل نہ کر سکی؟

اس واقعے میں ایک پہلو ایسا بھی تھا جس نے کہانی کو اور زیادہ پراسرار بنا دیا. وہ تھا والدین کی مبینہ خاموشی اور بیٹی کی لاش کو وصول نہ کرنے کی خبریں۔ مگر اب، حمیرا اصغر کے والد ڈاکٹر اصغر اور والدہ نے لاہور رنگ سے گفتگو کرتے ہوئے حقیقت کی پرتیں کھولنا شروع کی ہیں۔

والد کا کہنا تھا کہ حمیرا نے ہمیشہ فن سے لگاؤ رکھا، اس نے نیشنل کالج آف آرٹس (NCA) میں تعلیم حاصل کی اور شو بزنس میں قدم رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا، جس کی انہوں نے باقاعدہ اجازت دی۔ سات برس قبل وہ کراچی منتقل ہوئی تاکہ شوبز میں اپنا مقام بنا سکے۔

حمیرا کی والدہ نے بتایا کہ آخری بار ان کی بات اگست 2023 میں ہوئی تھی۔ اُس وقت حمیرا نے بتایا کہ اس کی سمز بلاک ہو رہی ہیں اور وہ کسی مدد کی متقاضی ہے، لیکن اس نے واضح نہیں کیا کہ کس قسم کی مدد درکار ہے۔ اس کے بعد کوئی رابطہ نہ ہو سکا۔

اہلِ خانہ نے وضاحت دی کہ ان کا کراچی میں کوئی جاننے والا نہیں تھا، اس لیے مسلسل رابطہ ممکن نہیں ہو پایا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ہر دو مہینے بعد لاہور آتی تھیں، اور ان کا اپنے خاندان سے کوئی جھگڑا یا تناؤ نہیں تھا۔

ڈاکٹر اصغر نے خاص طور پر اس بات کی تردید کی کہ انہوں نے بیٹی کی لاش لینے سے انکار کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ قانونی تقاضے مکمل ہونے کے بغیر لاش وصول کرنا ممکن ہی نہیں ہوتا، اور ایک ڈاکٹر ہونے کے ناطے وہ یہ بات بہتر جانتے ہیں۔ انہوں نے شبہ ظاہر کیا کہ معاملہ قدرتی موت کا نہیں بلکہ اس میں کسی سازش کا پہلو شامل ہو سکتا ہے۔

ان کے مطابق حمیرا مالی طور پر خودمختار تھی، اس کے پاس معقول رقم تھی، اور یہ کہنا غلط ہے کہ وہ فلیٹ کا کرایہ نہیں دے سکتی تھی۔ جہاں تک جائیداد کے حصے کی بات ہے، والد کا کہنا تھا کہ ’’میری بیٹی اتنی گری ہوئی بات کبھی نہیں کر سکتی۔‘‘

یہ انٹرویو اس المناک کہانی کو ایک اور زاویہ دے رہا ہے۔ کیا یہ محض تنہائی کا شکار ایک فنکارہ کا افسوسناک انجام تھا یا پس پردہ کوئی اور سچائی چھپی ہے؟ والدین کی خاموشی اب سوالوں میں تبدیل ہو چکی ہے — اور شاید تحقیقات کا نیا دروازہ کھول رہی ہے۔


Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts