انڈیا میں کُتے اور بلّیوں پر جنسی تشدد: ’پولیس کو جانوروں کے ساتھ یہ سلوک مذاق لگتا ہے‘

انڈیا میں جانوروں پر جنسی تشدد کے مقدمات کم ہی درج ہوتے ہیں اور اسی سبب اس مسئلے کی گہرائی کو جاننا ایک چیلنج بن گیا ہے۔ ایسے مقدمات پولیس تک تب ہی پہنچ پاتے ہیں جب کسی گواہ نے جانوروں کے ساتھ ہونے والا ظلم اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو یا پھر اس جُرم کی کوئی ویڈیو ہو۔
گریس
Purnima Motwani

جب پرنما نے ایک آوارہ بلّی کے بچے کی اضطراب سے بھری آواز سُنی تو انھوں نے فوراً جانوروں کے ڈاکٹر کو فون کیا اور اسے دکھانے کے لیے وقت لے لیا۔

ممبئی میں مقیم انسانی حقوق کی کارکن پُرنما کہتی ہیں کہ بلّی ’بہت کمزور تھی، ڈری ہوئی تھی اور شدید تکلیف میں تھی۔‘

’اس کے زخم بہت گہرے تھے اور اُسے دو بار ٹانکے لگانے پڑے۔‘

اپنی رپورٹ میں ڈاکٹر نے لکھا کہ چار مہینے کے بلّی کے بچے کو یہ زخم ’ممکنہ طور پر کسی انسان کے جنسی حملے کے نتیجے یا شدید تشدد کے باعث‘ آئے ہیں۔

پُرنما کو شک تھا کہ اس حرکت کے پیچھے کون ہو سکتا ہے کیونکہ ان کے ایک جان پہچان والے شخص کے پڑوسی نے ایک آدمی کو اس بلّی کے بچے کو اپنے گھر لے جاتے ہوئے دیکھا تھا اور بعد میں وہ اس جانور کو اضطراب کی کیفیت میں باہر چھوڑ گیا تھا۔

اس شخص کو قانون کی گرفت میں لانے کے عزم کے ساتھ پُرنما پولیس کے پاس گئیں اور انھیں امید تھی کہ مشتبہ شخص سے نوآبادتی دور کے قانون ’ان نیچرل آفینسز ایکٹ‘ کے تحت پوچھ گچھ کی جائے گی۔

اس قانون کے تحت کسی جانور پر جنسی تشدد کرنے والے شخص کو دس برس سے عمر قید تک کی سزا سُنائی جا سکتی ہے لیکن اسی مہینے جولائی 2024 میں انڈیا نے بھارتیہ نیائے سنھیتا نامی قانون متعارف کروا کر پُرانے قانون کو خیرباد کہہ دیا۔

اس کے بعد پُرنما کو ایک ایسے قانون کا سہارا لینا پڑا جس کے تحت جانوروں کو تشدد سے بچانے کے لیے زیادہ سے زیادہ 50 روپے کا جُرمانہ رکھا گیا اور اگر کوئی پہلے جُرم کے تین مہینوں کے اندر دوبارہ وہی جُرم دُہراتا ہے تو اس پر عائد جُرمانہ ڈبل کر دیا جاتا ہے۔

انڈیا میں جانوروں پر تشدد کے مقدمات کم ہی درج ہوتے ہیں اور اسی سبب اس مسئلے کی گہرائی کو جاننا ایک چیلنج بن گیا ہے۔ ایسے مقدمات پولیس تک تب ہی پہنچ پاتے ہیں جب کسی گواہ نے جانوروں کے ساتھ ہونے والا ظلم اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو یا پھر اس جُرم کی کوئی ویڈیو ہو۔

پُرنما
Purnima Motwani
پُرنما جانوروں کا علاج کرواتی ہیں

فیڈریشن آف انڈین اینیمل پروٹیکشن آرگنائزیشنز (فیاپو) کے اندازے کے مطابق سنہ 2010 اور 2020 کے درمیان جانوروں پر تشدد کے 1000 کیسز میں سے 83 میں جنسی تشدد کا شائبہ موجود تھا۔

ان کی یہ رپورٹ جانوروں کے تحفظ کے لیے بنائے گئے اداروں کے پاس آنے والی اطلاعات اور میڈیا میں نشر ہونے والے واقعات پر مشتمل ہے۔

نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو (این سی آر بی) کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2019 اور 2022 کے درمیان ’مردوں خواتین اور جانوروں کے خلاف غیرفطرتی سیکس‘ کے ایک ہزار کیسز رپورٹ ہوئے تھے لیکن ان کے پاس یہ تفصیلات موجود نہیں کہ ان کیسز میں سے جانوروں کے ساتھ زیادتی کے کتنے کیسز تھے۔

فیاپو نے دلّی ہائی کورٹ میں پیٹیشن دائر کی ہے کہ وہ این سی آر بی کو جانوروں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کی معلومات محفوظ کرنے کا حکم دے۔

فیاپو کے لیگل ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ ورنیکا سنگھ کہتی ہیں کہ ’پُرانے قانون میں زیادتی کو بالکل واضح کیا گیا تھا اور اسے (جانوروں کے خلاف زیادتی کو) ایک گھناؤنے جُرم کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔‘

دلّی ہائی کورٹ نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ’اُٹھائے گئے معاملے کا گہرا اثر ہو سکتا ہے‘ اور حکومت کو حکم دیا کہ وہ اس مسئلے پر غور کر کے ’جلد از جلد کوئی فیصلہ کرے۔‘

تاہم جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنان کا کہنا ہے کہ جانوروں کے خلاف جنسی جرائم کی روک تھام کے لیے کسی قانون کی غیرموجودگی میں انھیں مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

پُرنما کا کہنا ہے کہ متعدد مرتبہ فون کالز کرنے اور تھانے کا چکر لگانے کے بعد وہ بلّی کے بچے کے حوالے سے شکایت درج کروانے میں کامیاب ہو گئیں لیکن جانوروں کے خلاف برتے جانے والے سلوک اور کم جُرمانے کے سبب ’پولیس ایسے مقدمات درج کرنے میں دلچسپی نہیں لیتی اور انھیں جانوروں کے ساتھ جنسی زیادتی مذاق لگتا ہے۔‘

اس شخص کو معلوم ہوگیا تھا کہ اس کے خلاف شکایت درج کروا دی گئی ہے اور وہ وہاں سے کہیں اور منتقل ہو گیا، جس کے بعد کبھی بھی اس کی گرفتاری عمل میں نہیں آ سکی۔

حملے کا شکار ہونے والے بلّی کے بچے کا نام پُرنما نے گریس رکھا تھا۔ وہ خود پر ہونے والے جنسی حملے کے بعد ایک وائرس کا شکار ہو کر ہلاک ہو گیا۔

پُرنما سمجھتی ہیں کہ اگر ملزم کو گرفتار کر بھی لیا جاتا تب بھی اس نے ضمانت پر رہا ہوجانا تھا۔

بھٹاچاریا
Jaya Bhattacharya
جیا بھٹاچاریا نے اس کتے کے بچے کو ریسکیو کیا تھا

انڈین اداکارہ جیا بھٹاچاریا ممبئی میں جانوروں کے لیے بنائی گئی ایک پناہ گاہ چلاتی ہیں۔ دسمبر 2024 میں انھیں ایک ایک مہینے کے کُتے کے بچے کے ساتھ جنسی تشدد کے حوالے سے ایک فون کال موصول ہوئی۔

جیا کہتی ہیں کہ مشتبہ شخص اس کتے کے بچے کو کھانا کھلانے کے بہانے اپنے گھر لے گیا تھا اور اس کے بعد ’اس جانور کو محلے کے بچوں نے کراہتے ہوئے سُنا۔‘

جیا نے اس کتے کے بچے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ لگائی اور پولیس کے پاس شکایت بھی درج کروائی لیکن کچھ ہی گھنٹوں بعد مشتبہ شخص کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔

جیا کہتی ہیں کہ ’یہ مرد ہمارے معاشرے کا سب سے گھناؤنا حصہ ہیں، جب انھیں درست طریقے سے سزا نہیں ملتی تو ایسے جُرم کرنے کا موقع دوسروں کو بھی ملتا ہے۔‘

انسانی حقون کے کارکنان کا کہنا ہے کہ یہ لوگ صرف جانوروں پر ظلم نہیں کرتے بلکہ انسانوں پر بھی کرتے ہیں، اسی لیے سب کی حفاظت کے لیے ان کا احتساب ہونا ضروری ہے۔

بین الاقوامی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ جانوروں پر ظلم کرنے والے کچھ لوگ انسانوں کے ساتھ بھی زیادتی کرتے ہیں۔

سنہ 2019 میں جرنل آف دا امریکن اکیڈمی آف سائکیاٹری میں ایک تحقیق چھپی تھی۔ اس تحقیق میں انھوں نے سنہ 1975 سے سنہ 2015 تک رپورٹ ہونے والی 456 گرفتاریوں کا معائنہ کیا تھا۔

اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ جانوروں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والے 31.6 فیصد افراد بچوں اور بڑوں کے خلاف جنسی جرائم میں بھی ملوث تھے۔

انڈیا میں اگست 2024 میں بلند شہر نامی ضلع کے ایک گاؤں میں ایک سرکاری افسر پر ایک بکری اور اس کی دیکھ بھال پر مامور 10 سالہ بچی کے ساتھ جنسی استحصال کرنے کے الزامات عائد ہوئے تھے۔

اس بچی کے وکیل ورن کوشک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایک لڑکے نے اپنے گھر کی کھڑکی سے ان جرائم کے دوران اس شخص کی ویڈیو بنالی تھی۔ وہ تو اس نے یہ ویڈیو بچی کے باپ کو دکھا دی ورنہ یہ سنگین جُرم کبھی بھی سامنے نہیں آتا۔‘

وہ سرکاری افسر اب جیل میں قید مقدمے کا سامنا کر رہا ہے کیونکہ بچوں کے ساتھ زیادتی ایک ناقابلِ ضمانت جُرم ہے۔

انڈیا
Getty Images
انڈیا میں کروڑوں آوارہ کتے اور بلیاں ہیں

جانورں کے خلاف جنسی جرائم کو امریکہ، آسٹریلیا اور کینیڈا سمیت متعدد ممالک میں ایک سنگین جُرم تصور کیا جاتا ہے، ان ممالک میں ان جرائم میں ملوث افراد کو جیل میں قید کیا جاتا ہے۔ امریکہ اور آسٹریلیا میں ان جرائم کی سزا 20 برس تک بھی ہوسکتی ہے۔

دوسری جانب پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال میں نوآبادیاتی دور کا قانون اب بھی نافذ ہے۔

انڈیا میں اس قانون کے خاتمے سے قبل بھی جانوروں کے خلاف کام کرنے والے کارکنان اس قانون کو مزید مضبوط کرنے کے لیے مہم چلا رہے تھے تاکہ جانوروں پر جنسی تشدد کرنے والوں کو قانون کے سامنے لایا جا سکے۔

انڈین حکومت نے سنہ 2022 میں ان کارکنان کے مطالبے کو مسترد کر دیا تھا اور موجودہ قانون میں ترمیم کر کے اس میں جنسی زیادتی کی دفعات شامل کر دی تھیں لیکن یہ ترمیم ابھی تک پارلیمنٹ میں نہیِں لائی گئی اور جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنان کا صبر جواب دیتا جا رہا ہے۔

پُرنما کہتی ہیں کہ ’اگر ایک سخت قانون بن جائے اور اسے لوگوں تک پہنچایا جائے تو شاید ایسے سنگین جرائم کرنے والوں کو روکا جا سکے۔‘

’یہ افراد مستقبل میں قاتل بھی بن سکتے ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts