پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران گاڑیوں کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد عام آدمی کے لیے موٹر سائیکل ہی ایک حد تک مناسب اور قابلِ استطاعت سواری کا آپشن بچا تھا۔
گزشتہ تین برسوں کے دوران اگرچہ موٹر سائیکلوں کی قیمتوں میں بھی بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور جو موٹرسائیکل پہلے 60 سے 70 ہزار روپے میں دستیاب تھی، اس کی قیمت اب ڈیڑھ لاکھ روپے سے بھی تجاوز کر چکی ہے تاہم اس کے باوجود لوگ گاڑی کے مقابلے میں موٹر سائیکل خریدنے کو ہی ترجیح دے رہے ہیں۔
تاہم مالی سال 2025 کے بجٹ کے بعد نہ صرف گاڑیوں کی قیمتیں بڑھی ہیں بلکہ موٹر سائیکل کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان میں موٹر سائیکل بنانے والی بڑی کمپنیوں جیسے ہونڈا، سوزوکی اور مختلف چینی برانڈز کے مختلف ماڈلز کی قیمتوں میں 2,000 روپے سے 6,000 روپے تک اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
کمپنیاں اس اضافے کی وجہ حکومت کی جانب سے بجٹ میں نافذ کردہ نئے ٹیکسز جیسے کاربن لیوی اور نیو انوائرمنٹل وہیکل (NEV) لیوی کو قرار دیتی ہیں، جو ہر نئی بائیک پر ایک فیصد اضافی لاگت کا باعث بنے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ موٹر سائیکل چوںکہ عام آدمی کی بنیادی سواری ہے اس لیے حکومت کو اس شعبے کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ لیکن عملی طور پر دیکھا جائے تو حکومت کی موٹرسائیکل انڈسٹری کی جانب زیادہ توجہ نہیں جس کے باعث قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والے موٹر سائیکل ماڈلز میں ہونڈا، سوزوکی اور مختلف چینی برانڈز کے 70cc سے 150cc تک کے ماڈلز شامل ہیں۔ اگر صرف ہونڈا کمپنی کی بات کی جائے تو پاکستان میں اس کے 70cc اور 125cc ماڈلز سب سے زیادہ مقبول ہیں۔
بجٹ 2025 کے بعد ہونڈا نے اپنے مختلف ماڈلز کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ کیا ہے جو 2,000 روپے سے لے کر 6,000 روپے تک ریکارڈ کیا گیا۔
ہونڈا CD-70 کی قیمت میں 2,000 روپے اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد اس کی نئی قیمت 1,59,900 روپے ہو گئی ہے۔ اسی طرح CG-125 کی قیمت میں 4,000 روپے جبکہ CB150F ماڈل کی قیمت میں 6,000 روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
بجٹ کے بعد موٹر سائیکل کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
یہ تمام اضافے کمپنی کے فیکٹری ریٹ پر ہوئے ہیں، تاہم ان کا اثر براہِ راست ڈیلر پرائس اور صارفین پر بھی پڑا ہے، جس سے عام خریدار کے لیے موٹر سائیکل خریدنا مزید مشکل ہو گیا ہے۔
پاکستان میں اگر ایک اور معروف موٹر سائیکل ساز کمپنی سوزوکی کا ذکر کریں تو اس کی مختلف کیٹیگریز کی موٹر سائیکلوں کی قیمتوں میں بھی حالیہ دنوں میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ سوزوکی نے اپنے ماڈلز کی قیمتوں میں ساڑھے پانچ ہزار روپے تک کا اضافہ کیا ہے۔
سوزوکی GD110S کی قیمت میں 3,600 روپے اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد اس کی نئی قیمت 3 لاکھ 62 ہزار 600 روپے مقرر کی گئی ہے۔ اسی طرح GS150 کی قیمت میں 3,900 روپے اضافہ کیا گیا ہے، جس کے بعد اس کی نئی قیمت 3 لاکھ 92 ہزار 900 روپے ہو گئی ہے۔
GSX125 کی قیمت میں 5,000 روپے کا اضافہ ہوا ہے، جبکہ GR150 ماڈل کی قیمت میں 5 ہزار 500 روپے کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس اضافے کے بعد سوزوکی کی 150cc کیٹیگری کی بائیک کی قیمت 5 لاکھ 52 ہزار 900 روپے تک پہنچ چکی ہے۔
اسی طرح یونائیٹڈ موٹر سائیکل کمپنی نے بھی اپنے مختلف ماڈلز، جن میں 70cc، 100cc اور 125cc کیٹیگریز شامل ہیں، کی قیمتوں میں 1,000 روپے سے 3,000 روپے تک کا اضافہ کیا ہے۔
ٹیکسز کی وجہ سے موٹر سائیکل کیسے مہنگی ہوئی؟
پاکستان میں موٹر سائیکلوں کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کی سب سے بڑی وجہ وفاقی بجٹ 2025-26 میں متعارف کرائے گئے نئے ٹیکسز اور لیویز ہیں، جن میں سب سے اہم کاربن لیوی اور نیو انوائرمنٹل وہیکل لیوی شامل ہیں۔
پاکستان کے بڑے شہروں میں لڑکیوں میں موٹرسائیکل چلانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
حکومت نے ہر نئی موٹر سائیکل پر ایک فیصد کاربن لیوی نافذ کی ہے، جس کا مطلب ہے کہ اگر کسی بائیک کی اصل قیمت دو لاکھ روپے ہو تو اس پر دو ہزار روپے کا اضافی بوجھ صرف کاربن لیوی کی صورت میں آتا ہے۔
اسی طرح ایک فیصد نیو انوائرمنٹل وہیکل لیوی بھی عائد کی گئی ہے، جس سے بائیک کی قیمت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ یہ دونوں لیویز براہِ راست کمپنیوں کی لاگت بڑھاتی ہیں، جو وہ صارفین پر منتقل کر دیتی ہیں۔
پاکستان میں آٹو موبیل شعبے پر گہری نظر رکھنے والے ماہر سنیل منج کے مطابق ملک میں موٹر سائیکل بنانے والی کمپنیاں وقتاً فوقتاً قیمتوں میں چار سے پانچ ہزار روپے تک اضافہ کرتی رہتی ہیں، اور حکومت ان سے کوئی بازپرس نہیں کرتی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’حکومت کی زیادہ توجہ ہمیشہ بڑی گاڑیوں پر مرکوز رہتی ہے جبکہ عام آدمی کی سواری یعنی موٹر سائیکلوں کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔‘
تاہم انہوں نے یہ واضح کیا کہ حالیہ بجٹ میں حکومت نے آٹو موبیل کمپنیوں پر ٹیکسز میں اضافہ کیا ہے جس کے نتیجے میں گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔
ان کے مطابق یہ اضافہ نہ صرف ٹیکس پالیسیوں کا نتیجہ ہے بلکہ حکومت کی صنعتی ترجیحات کی عکاسی بھی کرتا ہے۔
پاکستان کے آٹو موبیل سیکٹر سے وابستہ ایک اور ماہر میاں شعیب کا کہنا ہے کہ جب بھی حکومت کسی چیز پر نیا ٹیکس عائد کرتی ہے تو اس کا براہِ راست اثر اُس چیز کی قیمت پر پڑتا ہے، اور بالآخر اس کا بوجھ عام خریدار کو اٹھانا پڑتا ہے۔
پاکستان میں الیکٹرک موٹرسائیکلوں کی مانگ میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ فائل فوٹو: زپ کمپنی
میاں شعیب نے مزید کہا کہ حکومت اگرچہ موجودہ حالات میں موٹر سائیکلوں یا گاڑیوں کی قیمتوں پر براہِ راست کوئی سبسڈی فراہم نہیں کر سکتی، تاہم اسے چاہیے کہ وہ موٹر سائیکل ساز کمپنیوں سے مشاورت کرے اور قیمتوں کے حوالے سے کچھ ضابطے طے کرے۔
ان کے مطابق حکومت کو کم از کم یہ تعین کرنا چاہیے کہ بائیک یا گاڑی کی قیمت ایک مخصوص حد سے تجاوز نہ کرے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ حالیہ دنوں میں حکومت پاکستان میں الیکٹرک بائیکس کو فروغ دینے کے لیے کام کر رہی ہے۔ اگر حکومت اس منصوبے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور عوام کو متبادل میسر آ جاتا ہے تو اس سے نہ صرف ایندھن پر انحصار کم ہوگا بلکہ روایتی موٹر سائیکلوں کی قیمتوں میں بھی کمی آ سکتی ہے۔