ہم تو ایسے دانتوں تلے انگلیاں دابے ماتھا پیٹ رہے ہیں گویا حمیرا اصغر اور عائشہ خان کا اپنے فلیٹس میں علی الترتیب نو ماہ اور ایک ہفتہ بعد مردہ پایا جانا کوئی انہونا واقعہ ہو۔
ہم تو ایسے دانتوں تلے انگلیاں دابے ماتھا پیٹ رہے ہیں گویا حمیرا اصغر اور عائشہ خان کا اپنے فلیٹس میں بالترتیب نو ماہ اور ایک ہفتہ بعد مردہ پایا جانا کوئی انہونا واقعہ ہو۔
انہونا شاید یوں لگ رہا ہے کہ ہمیں بچپن سے ریاست کے نظریاتی و تعلیمی نصاب کی کونڈی میں مسجع اردو کے ہاون دستے سے کوٹی گئی ’معجونِ مشرق‘ عربی و فارسی کے مقفی چمچ سے وہ مقطع چوقطع بزرگ کِھلا رہے ہیں جن میں سے زیادہ تر نے تاریخ، جغرافیہ، ثقافت اور تقابلی تہذیبی سفر خود پڑھنے یا مشاہدہ کر کے نتیجہ اخذ کرنے کے بجائے فلانے فلانے فلانے سیانے سے سُنا ہے۔فلانے سفر نامے میں پڑھا ہے یا پھر راہ چلتے سانڈے کا تیل بیچنے والے کے اردگرد مجمع میں گھڑی بھر کھڑے ہو کر چند من پسند رسالہ جاتی گرما گرم رنگین تصاویر دیکھ کے دیگر تہذیبوں کے رہن سہن سے متعلق ایک مصمم رائے قائم کر لی۔
ہماری عمومی تربیت کچھ ایسے خطوط پر کی گئی ہے کہ ہمیںاپنی اقدار کی برتری پر تب تک یقین نہیں آتا جب تک ہم غیر تہذیب اور عقیدےکی بُرائی نہ کر لیں۔ یعنی ہم بہت پیارے اور ایک دوسرے کے درد میں تڑپ اٹھنے والے لوگ ہیں۔
سماجی بے گانگی تو الحاد زدہ مغرب کا مسئلہ ہے۔ اسی لیے وہاں انسانوں سے نفرت میں مبتلا سیریل کلرز پیدا ہوتے ہیں، بِنا شادی بچے جنے جاتے ہیں، ہمسایہ ہمسائے سے ناواقف ہے، معاشی جبر اور مشترکہ خاندان ٹوٹنے کے بعد بوڑھوں کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ سگی اولاد انھیں اولڈ ہومز میں جمع کروا دیتی ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔
مگر ہم ان علِتوں سے کم و بیش اس لیے پاک ہیں کیونکہ ہمارا خاندانی نظام خاصی توڑ پھوڑ کے باوجوداب تک قائم ہے۔ حکمرانوں اور اُن کے کاسہ لیس امرا، فیشن زدہ عورتوں اور مولویوں میں بھلے ہو نہ ہو مگر عام آدمی میں اب تک کچھ نہ کچھ خوفِ خدا ہے۔ محلے داری اور حال احوال دریافت کرتے رہنے کی رسم برقرار ہے۔ لہٰذا ہم جتنے بھی بُرے ہو جائیں مغرب جیسے پھر بھی نہیں ہو سکتے۔
مگر خدا غارت کرے انٹرنیٹ ایجاد کرنے والے موذی کو، ہیضہ ہو جائے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز استعمال کرنے والوں کو اور ککھ نہ رہے موبائل فون میں کیمرہ لگانے والوں کا۔ ان سب ناہنجاروں نے مل ملا کے ہماری اقدار کی ململ پھاڑ کے اندرون عیاں کر دیا۔

پتہ یہ چلا کہ ’تم بالکل ہم جیسے نکلے، اب تک کہاں چھپے تھے بھائی۔‘
اولڈ ہومز ہمارے ہاں بھی اب کوئی انہونی خبر نہیں، ایدھی مرکز کے باہر رکھے جھولوں پر بھی لکھا ہے کہ ’معصوم بچے کو مارنے کے بجائے جھولے میں ڈال دیں۔‘
بیگانگی کے راون کے دس سے بھی زیادہ سر ہوتے ہیں۔ بس اتنا ہے کہ خبری ذرائع میں تیزی کے سبب یہ سر پہلے سے زیادہ صاف دکھائی دے رہے ہیں۔ اطلاعات کی تیز رفتار ترسیل نے اگرچہ ہمیں دوردراز واقعات سےجوڑ دیا ہے مگر آس پڑوس سے اور زیادہ بے خبری محسوس ہو رہی ہے۔
لاہور کا جاوید اقبال تو یاد ہو گا جس نے سو سے زائد بچوں کو قتل کرنے اور ان کی لاشیں غائب کرنے کا اعتراف کیا۔وہ کسی جنگل میں نہیں بلکہ گنجان آبادی میں رہ رہا تھا۔ اتنے بچے برس ہا برس غائب ہوتے رہے۔ والدین، محلے داروں، تھانے اور اڑتی چڑیا کے پر گرنے والی جاسوس ایجنسیوں کے عین ناک کے نیچے؟
جاوید اقبال نے پھانسیسے پہلے ہی خود کشی کر لی۔ جس زنجیر سے وہ بچوں کا گھلا گھونٹتا تھا وہ زنجیر لاہور کے پولیس میوزیم میں رکھی ہے۔ مگر اس کی زندگی پر 2022 میں بننے والی ایک فلم ’جاوید اقبال: این انٹولڈ سٹوری آف اے سیریل کلر‘ سینسر بورڈ کے سامنے گئی تو اعتراض ہواکہ اس فلم سے سماج میں جاوید اقبال جیسے کرداروں کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے۔ فلم کو سینما میں نمائش کی اجازت ملی؟ میں اس بابت لاعلم ہوں۔
سماجی بیگانگی کی ایک شکل یہ بھی تو ہے کہ بھرے بازار میں کسی حادثے کے زخمی نیچے گرے پڑے ہیں اور تماشائی ان کی خبر گیری ایسے کر رہے ہیں کہ اپنے اپنے موبائل پر وڈیو بنا کے سوشل میڈیا کے لائکس اکھٹے کر رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ شہری ماحول کی نفسانفسی اور مادیت کی دوڑ نے آدمی کی انسانیت چھیننے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔جبکہ دیہی ماحول میں اب بھی پرانے وقتوں کی مروت اور آنکھ کا پانی دیکھے جا سکتے ہیں۔
ضلع قصور کا ایک چھوٹا سا قصبہ حسین خان والا لاہور، کراچی یا اسلام آباد تو نہیں ہے۔ مگر 2006 تا 2014 اس دیہی علاقے میں ایک مقامی گروہ نے سینکڑوں مقامی بچوں کی جنسی تصاویر اور وڈیوز بنائیں اور انھیں اور ان کے خاندانوں کو بلیک میل کرتے رہے۔
اس آٹھ برس کے دوران آس پاس والوں کو کیسے نہیں معلوم ہوا کہ اردگرد کیا تماشہ ہو رہا ہے؟ اتفاقاً بھانڈا پھوٹ بھی گیا تب بھی کیا ہوا؟ کچھ دن کی پکڑ دھکڑ، چند کو مختلف المیعاد سزائیں۔ بہت سے متاثرہ بچے اور خاندان دباؤ اور دھمکیوں اور غربت کے سبب دربدر ہو گئے۔ گینگ کے چند مسٹنڈے آج بھی علاقہ معزز بنے گھوم رہے ہیں؟
اجازت ہو تو اس سکینڈل کو بھی میں سماجی بیگانگی کی انتہائی شکل میں شمار کر سکتا ہوں تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ شہری سماج دیہی سماج سے زیادہ تنہا ہے۔ اس واقعہ سے سماج اور ریاست نے گذشتہ دس برس میں کوئی سبق سیکھا؟ واقعات یا ان کے بھیانک پن میں کچھ کمی آئی؟
سماجی بیگانگی کی سب سے زیادہ تپش غالباً اقلیتیوں کو محسوس ہوتی ہو گی۔ جبکوئی کمسن ہندو یا مسیحی لڑکی اغوا ہوتی ہے، راتوں رات اس کا مذہب بدلا جاتا ہے، نکاح کروایا جاتا ہے، کچھ میڈیائی ہنگامہ ہوتا ہے۔ کوئی حکومتی ترجمان ایسی وارداتوں کے انسداد کے لیے نافذ قوانین گنوانے شروع کر دیتا ہے اور اگلی واردات تک اکثریت پر ایک اور گہری چپ سادھ جاتی ہے۔
جب کوئی بھی کسی بھی وجہ سے کسی بھی مسلمان یا مسیحی یا احمدی پر توہینِ مذہب کا الزام لگا کے زندہ جلانے یا تشدد سے مار ڈالنے کی کامیاب یا ناکام کوشش کرتا ہے تو چند سیاسی لوگوں کے منھ سے بس یہ جملہ ہی کیوں نکلتا ہے کہ یہ مٹھی بھر سماج دشمن ہیں اور ہم ان سے بیزار ہیں۔
مگر یہ بیزاری ایک بڑے احتجاج کی شکل کیوں اختیار نہیں کر پاتی۔ شاید یہ سماج دشمن ہمیں من ہی من میں اتنے بُرے بھی نہیں لگتے کہ ان کے خلاف منظم آواز اٹھائی جا سکے۔
یہ بتائیے کہ 1930 کے عشرے میں جرمنی میں بسنے والے یہودیوں، آج کے انڈیا کے کسی چھوٹے سے قصبے میں نسلوں سے رہائش پذیر کسی مسلمان گھرانے اور پاکستان میں مقیم احمدیوں کے حالات اور ان کے اردگرد موجود خاموش اکثریت کے رویوں میں کیا اور کتنا فرق ہے؟
انفرادی و اجتماعی سماجی بیگانگی جتانے کے لیے مزید مثالیں درکار ہیں یا فی الحال چند سے کام چل جائے گا؟