پاکستان کے پولیس حکام نے کہا ہے کہ ملک کے شمال مغربی علاقوں میں شدت پسند سکیورٹی فورسز پر بم گرانے کے لیے کمرشل ڈرونز کا استعمال کر رہے ہیں۔برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ ایک غیرمستحکم خطے میں ممکنہ طور پر خطرناک پیشرفت ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ ایسے ڈرونز کا استعمال جو چار روٹرز سے چلتے ہیں، کم وسائل کی حامل ایک پولیس فورس کے لیے پریشانی کا باعث ہے جو شدت پسندوں کے حملوں کے خلاف ہر اول دستے کا کردار ادا کر رہی ہے۔
پولیس افسر محمد انور نے بتایا کہ رواں مہینے کے شروع میں شدت پسندوں نے ضلع بنوں میں ایک پولیس سٹیشن کو نشانہ بنایا جس سے قریبی گھر میں رہنے والی خاتون ہلاک اور تین بچے زخمی ہو گئے۔
انہوں نے بتایا کہ دو روز قبل سنیچر کو ایک پولیس سٹیشن کے قریب ڈرون دیکھا گیا جسے رائفلز کی مدد سے مار گرایا گیا۔ ڈرون مارٹر شیل سے مسلح تھا۔محمد انور کا کہنا تھا کہ گذشتہ ڈھائی مہینوں میں بنوں اور اس سے ملحقہ علاقوں میں کم از کم آٹھ ڈرونز حملوں میں پولیس اور سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔علاقائی پولیس کے سربراہ سجاد خان نے کہا کہ شدت پسند ابھی بھی ڈورنز کو استعمال کرنا سیکھ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’شدت پسندوں نے یہ جدید ٹولز حاصل تو کر لیے ہیں لیکن وہ ابھی تجرباتی مرحلے میں ہیں اور اسی لیے وہ اپنے اہداف کو کامیابی سے نشانہ نہیں بنا سکے۔‘پانچ سکیورٹی اہلکاروں نے روئٹرز کو بتایا کہ شدت پسند اپنے اہداف پر آئی ای ڈی یا مارٹر گولے گرانے کے لیے ڈرونز کا استعمال کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ یہ دھماکہ خیز آلات بال بیرنگ یا لوہے کے ٹکڑوں سے بھرے ہوتے ہیں۔شدت پسندوں کی جانب سے اس جدید ٹیکنالوجی کے استعمال پر صوبائی پولیس کے سربراہ ذوالفقار حمید نے کہا کہ پولیس کے پاس اس نئے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے وسائل کی کمی ہے۔انہوں نے اتوار کو مقامی نیوز چینل جیو کو بتایا کہ ’ہمارے پاس ڈرونز کا مقابلہ کرنے کے لیے آلات نہیں ہیں۔ عسکریت پسند ہم سے بہتر ہتھیاروں سے لیس ہیں۔‘
پانچ سکیورٹی اہلکاروں نے بتایا کہ شدت پسند اپنے اہداف پر آئی ای ڈی یا مارٹر گولے گرانے کے لیے ڈرونز کا استعمال کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو: الائنس)
تاہم کسی بھی مسلح تنظیم نے ڈرون حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
خیبر پختونخوا میں سرگرم مرکزی شدت پسند گروہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ہے، جسے پاکستانی طالبان بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن انہوں نے ڈرون استعمال کرنے کی تردید کی ہے۔ٹی ٹی پی کے ترجمان نے رؤئٹرز کو بتایا کہ ’ہم اس ٹیکنالوجی کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘شدت پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے کام کرنے والے ادارے پاکستان انسٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے مطابق سنہ 2024 میں شدت پسندوں نے پورے ملک میں 335 حملے کیے جن میں 520 افراد ہلاک ہوئے۔