کراچی پولیس سرجن ڈاکٹر سمیعہ سید کا کہنا ہے لڑکی کے ابتدائی طبی معائنے میں اس بات کی تصدیق ہوئی تھی کہ اُس کو پُرتشدد اینل سیکس کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
ایف آئی آر کے مطابق 19 سالہ شانتی کو شادی کے دو روز بعد مبینہ طور پر شوہر کی جانب سے شدید جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھاتنبیہ: اس رپورٹ میں جنسی تشدد سے متعلق ایسی پریشان کُن تفصیلات موجود ہیں جو قارئین کے لیے باعث تکلیف ہو سکتی ہیں۔
صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں شادی کی دوسری رات شوہر کے ہاتھوں مبینہ طور پر غیرفطری سیکس اور جنسی تشدد کا نشانہ بننے والی 19 سالہ لڑکی مقامی ہسپتال میں لگ بھگ تین ہفتوں تک زیر علاج رہنے کے بعد وفات پا گئی ہے۔
19 سالہ شانتی گذشتہ لگ بھگ تین ہفتوں سے کراچی کے ٹراما سینٹر میں زیر علاج تھیں جہاں اس دورانیے میں اُن کے تین آپریشن ہوئے۔
ٹراما سینٹر کے حکام کے مطابق پوسٹ مارٹم کے بعد لڑکی کی میت ورثا کے حوالے کر دی گئی ہے۔ ورثا کا کہنا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی آخری رسومات کے لیے میت کو ضلع سجاول لے جا رہے ہیں۔
کراچی پولیس سرجن ڈاکٹر سمیعہ سید کا کہنا ہے لڑکی کے ابتدائی طبی معائنے میں اس بات کی تصدیق ہوئی تھی کہ اُس کو پُرتشدد اینل سیکس کا نشانہ بنایا گیا تھا، تاہم موت کی حتمی وجوہات جاننے کے لیے پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے جس کی رپورٹ آئندہ چند روز میں سامنے آئے گی۔
کراچی پولیس کے ایس پی انویسٹیگیشن فتح شیخ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ملزم (شوہر) کے خلاف پہلے ہی اقدام قتل اور ریپ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج ہے اور اب لڑکی کی وفات کے بعد اس میں قتل کی دفعہ (302) کا اضافہ کیا جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ ملزم کو ابتدائی ایف آئی آر کے اندراج کے بعد گرفتار کر لیا گیا تھا اور اس نے عدالت کو دیے گئے اپنے بیان میں اعتراف جرم کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُس سے غلطی ہوئی ہے۔ ایس پی انویسٹیگیشن فتح شیخ کے مطابق ملزم کے عدالت میں اعتراف کے بعد اسے جیل کسٹڈی (جوڈیشل) میں بھیج دیا گیا تھا۔ پولیس افسر کے مطابق پولیس تحویل میں ہونے والے میڈیکل میں پتا چلا تھا کہ ملزم کا دماغی توازن ٹھیک ہے۔
کراچی پولیس سرجن ڈاکٹر سمیعہ سید کا کہنا ہے لڑکی کے ابتدائی طبی معائنے میں اس بات کی تصدیق ہوئی تھی کہ اُس کو پُرتشدد اینل سیکس کا نشانہ بنایا گیا تھاایف آئی آر میں کیا ہے؟
اس واقعے کی ایف آئی آر پانچ جولائی کو کراچی کے بغدادی لیاری تھانے میں لڑکی کے بھائی کی مدعیت میں درج کی گئی تھی۔
ایف آئی آر کے مطابق 19 سالہ شانتی کی شادی 15 جون 2025 کو ملزم اشوک کے ساتھ ہوئی تھی اور اُسی روز لڑکی کی رخصتی ہو گئی تھی۔ 30 جون کو شانتی کی طبعیت زیادہ خراب ہونے پر ہسپتال پہنچایا گیا۔ مدعی مقدمہ کے مطابق اُسی روز اس کی بہن نے انھیں بتایا کہ شادی کے دو روز بعد یعنی 17 جون کو اُن کے شوہر نے غیرفطری انداز میں سیکس کیا اور اس کے بعد مبینہ طور پر لوہے کا پائپ اُس کے جسم میں زبردستی داخل کیا گیا۔
ایف آئی آر کے مطابق ملزم نے مبینہ طور پر اُسی رات اپنا ہاتھ بھی لڑکی کے جسم میں زبردستی داخل کیا جس کی وجہ سے اُن کی طبعیت انتہائی خراب ہو گئی اور انھیں پاخانے کے راستے خون آنے لگا۔
ایف آئی آر میں مدعی مقدمہ نے دعویٰ کیا کہ طبعیت خراب ہونے پر ملزم نے شانتی کو دھمکی دی کہ اگر اس نے اس سے متعلق کسی کو بتایا تو وہ اسے جان سے مار دے گا۔
مدعی مقدمہ نے بتایا کہ اس روز طبعیت خراب ہونے پر اُن کی بہن کو اس کے سسرال والے ایک مقامی ہسپتال لے گئے تاہم طبعیت ٹھیک نہ ہونے پر اسے واپس گھر لے آئے۔
ایف آئی آر کے مطابق طبعیت ٹھیک نہ ہونے پر بلآخر چار جولائی کو لڑکی کا بھائی انھیں لے کر ٹراما سینٹر پہنچا جہاں وہ لگ بھگ تین ہفتے آئی سی یو میں زیر علاج رہیں اور آخری وقت پر کومہ میں تھیں۔
کراچی پولیس کے مطابق ابتدائی ایف آئی آر کے اندراج کے بعد ملزم شوہر کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
آخری ویڈیو بیان
مقامی صحافی فقیر سلیم نے بی بی سی کو شانتی کا وہ ویڈیو پیغام فراہم کیا ہے جو انھوں نے ہسپتال میں ریکارڈ کیا تھا۔ اس ویڈیو پیغام کی تصدیق شانتی کے گھر والوں نے بھی بی بی سی کو کی ہے۔
اس ویڈیو میں شانتی اُن پر ہونے والے جنسی تشدد کی تمام تر مبینہ ہولناک تفصیلات بیان کرتی ہیں۔ اس ویڈیو میں شانتی دعویٰ کرتی ہیں کہ شادی کی دوسری رات اُن کے شوہر نے انھیں اپنے دانتوں سے اتنا کاٹا کہ وہ لہولہان ہو گئیں۔ انھوں نے اس ویڈیو میں پاخانے کے راستے لوہے کی راڈ اور ہاتھ اُن کے جسم میں داخل کرنے کی لگ بھگ وہی تفصیلات بتائیں جن کا تفصیلی ذکر ایف آئی آر میں موجود ہے۔
انھوں نے مزید دعویٰ کیا کہ جب انھوں نے اس سے متعلق اپنی ساس کو آگاہ کیا تو انھوں نے کہا ’میرے بیٹے کو حساب آتا ہے۔‘
’شانتی کی کہانی سُن کر دماغ سُن ہو گیا‘
شانتی کو تین ہفتے قبل ٹراما سینٹر منتقل کیا گیا تھاسماجی ورکر نجمہ مہیشوری اس واقعے کے بعد مسلسل شانتی کے ساتھ رہی ہیں اور میڈیا کو اس سے متعلق اپڈیٹس فراہم کرتی رہی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ جب وہ لیاری ہسپتال پہنچیں اور شانتی کی زبان سے یہ کہانی سُنی تو دس سے پندرہ منٹ کے لیے اُن کا ذہن ہی سن ہو گیا تھا کہ یہ سب کیسے ممکن ہے۔
نجمہ کے مطابق لیاری ہسپتال والوں نے بعدازاں شانتی کو ٹراما سینٹر منتقل کیا تھا جہاں اُن کے تین آپریشن ہوئے تاہم ڈاکٹروں کے مطابق انفیکشن اس قدر بڑھ چکا تھا کہ وہ صحتیاب نہ ہو سکیں۔
دوسری جانب شانتی کی والدہ کا الزام ہے کہ اس واقعے کے بعد ملزم کے اہلخانہ نے اُن پر زور دیا کہ وہ اپنا کیس واپس لیں اور ان کے بیٹے کی رہائی میں مدد کریں۔ والدہ کے مطابق انھیں دھمکیاں دی گئیں کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ’تمہارے خاندان کی باقی لڑکیوں کو بھی واپس بھیج دیں گے۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے شانتی کے والد کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے اور انھیں انصاف چاہیے۔
’خواتین واقعات رپورٹ نہیں کرتیں‘
پولیس سرجن ڈاکٹر سمیعہ سید کا کہنا ہے اگرچہ میریٹل ریپ اور شوہر کی جانب سے جنسی تشدد کے واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن وہ باقاعدہ رپورٹ نہیں ہو پاتے کیونکہ خواتین شکایت نہیں کرتیں۔
انھوں نے کہا کہ اس کی بنیادی وجہ تو یہی ہے کہ اگر مقدمہ ہوتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کے بعد بیوی اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہے سکے گی۔ انھوں نے کہا کہ اس نوعیت کے تشدد اور میریٹل ریپ کا شکار بننے والی خواتین اور ان کے گھر والوں کے ذہن میں بچے، فیملی ہوتی ہے اور یہ سوال بھی اس کے بعد کیا ہو گا۔
پولیس سرجن ڈاکٹر سمیعہ کے مطابق اُن کے پاس اس نوعیت کے معاملات پر از خود نوٹس لینے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا لیکن اگر کوئی خاتون یہ شکایت کرے تو پھر وہ اس کے تحت قانونی کارروائی کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں سنہ 2024 میں میریٹل ریپ کے صرف تین واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
سیکس کے دوران تشدد کی وجوہات کیا ہیں؟
مئی 2025 کی بی بی سی کی ایک رپورٹ کے لیے ڈاکٹر احسن نوید نے بتایا تھا کہ میریٹل ریپ یا شوہر کی جانب سے بیوی کو شدید جنسی تشدد کا نشانہ بنائے جانے کی ایک وجہ وائلینٹ پورن فلموں میں دکھائے جانے والے مناظر بھی ہو سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا تھا کہ ’مردوں میں بالادستی کا تصور خاتون یا اپنے پارٹنر کی مرضی کو نظرانداز کرنے پر اکساتا ہے۔ یہ رویہ اختیار کرنے والا عموماً شخصیت کے اضطرابی عوارض جیسے 'ہارٹ لائن پرسنیلٹی ڈس آرڈر' کا شکار ہو سکتا ہے۔‘
ڈاکٹر احسن نوید کا کہنا تھا کہ ازواجی تعلقات میں کسی بھی قسم کی جسمانی و جنسی زیادتی کو محض تشدد نہیں بلکہ بڑا جرم سمجھا جانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'سیکس سے متعلق تعلیم کا نہ ہونا اور اس پر بات نہ کرنا، اس کو انتہائی شرم سے جوڑ دینا بھی بہت بڑے مسائل ہیں۔'
ڈاکٹر سمعیہ سید کا کہنا تھا ایسے واقعات کی بنیادی وجہ پدرانہ ذہنیت اور معاشرے کے فرسودہ رسم و رواج ہیں۔ ’اگر کوئی خاتون اس بارے میں بات کرے تو اس کو انتہائی نجی معاملہ کہہ کر شرمندہ کرنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔‘