ایئر انڈیا حادثے میں ہلاک ہونے والی شوبھانا پٹیل کے بیٹے کا کہنا ہے کہ انڈیا سے جس تابوت میں ان کی والدہ کی میت بھیجی گئی ہے، اس میں کسی دوسرے شخص کی باقیات بھی ہیں۔
ایئر انڈیا حادثے میں ہلاک ہونے والی شوبھانا پٹیل کے بیٹے کا کہنا ہے کہ انڈیا سے جس تابوت میں ان کی والدہ کی میت بھیجی گئی ہے، اس میں کسی دوسرے شخص کی باقیات بھی ہیں۔12 جون کو اشوک اور شوبھانا پٹیل برطانیہ میں اپنے بچوں اور پوتے پوتیوں سے ملنے کے لیے آحمد آباد سے ایئر انڈیا کی پرواز 171 میں سوار ہوئے۔
تاہم جہاز ٹیک آف کے بعد بمشکل 40 سیکنڈ تک فضا میں رہنے کے بعد ایئرپورٹ کے نزدیک واقع ایک گنجان آباد علاقے میں گِر کر تباہ ہو گیا۔ اسے انڈیا کی ہوابازی کی تاریخ کے سب سے پراسرار حادثات میں سے ایک میں شمار کیا جا رہا ہے
اس حادثے میں اشوک اور شوبھانا پٹیل سمیت طیارے پر سوار 241 افراد اور زمین پر موجود 19 افراد ہلاک مارے گئے جبکہ ایک مسافر معجزانہ طور پر زندہ بچ گیا۔
اس حادثے کے بعد جن افراد کی میتیں سب سے پہلے برطانیہ واپس لائی گئیں اس میں اشوک اور شوبھانا کی لاشیں بھی شامل ہیں۔
تاہم، اب ان کے بیٹے نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انڈیا سے جس تابوت میں ان کی والدہ کی میت بھیجی گئی ہے، اس میں کسی دوسرے شخص کی باقیات بھی ہیں۔
بی بی سی اردو کے فیچر اور تجزیے براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں۔
مِتن پٹیل کا کہنا ہے کہ کورونر کی جانب سے اس بات کی نشاندہی کے بعد انھیں فکر لاحق ہو گئی ہے کہ 'اس میں اور کتنے لوگوں کی باقیات ہیں؟'
برطانیہ میں کورونر ایک سرکاری اہلکار ہوتا ہے جس کا بنیادی کام موت کی تحقیقات کرنا ہوتا ہے، خاص طور ایسی اموات جو حادثاتی، پرتشدد، یا مشتبہ ہوں۔
برطانوی جریدے ڈیلی میل نے بدھ کے روز خبر دی تھی کہ فلائیٹ 171 حادثے میں مارے جانے افراد کے اہلِ خانہ کو غلط لاشیں بھیجی گئی ہیں۔
ڈیلی میل کے مطابق، برطانیہ میں اب تک ایسے دو واقعات سامنے آچکے ہیں جن میں لواحقین کو غلط شخص کی باقیات بھیج دی گئی ہیں۔
بظاہر ایک کیس میں تو پوری لاش ہی غلط لواحقین کو بھیج دی گئی ہے جبکہ دوسرے واقعے میں ایک تابوت سے ایک سے زیادہ افراد کی باقیات ملی ہیں۔
برطانوی حکومت کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ لاشوں کی باضابطہ شناخت انڈین حکام کا کام ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ لاشوں کی شناخت کے معاملے پر حکومتِ گجرات اور انڈین حکومت کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
مِتن پٹیل کا کہنا ہے کہ ان کی والدہ کے تابوت سے کسی اور شخص کی باقیات ملنا واقعتاً ان کے لیے کافی پریشان کن ہے۔ تاہم انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ایسی غلطیاں ہو جاتی ہیں۔
’لوگ بہت تھکے ہوئے تھے اور دباؤ بھی بہت تھا۔ لیکن کچھ تو ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے کہ آپ صحیح لاشیں برطانیہ بھیج رہے ہیں۔‘
’اب مجھے کیسے پتا کہ اس تابوت میں کسی اور کی باقیات نہیں ہیں۔‘
’طے شدہ پروٹوکول اور تکنیکی تقاضوں کے مطابق متاثرین کی شناخت کی گئی‘
انڈیا کی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ انھیں اس بارے میں اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب سے ان کے سامنے یہ خدشات اور مسائل اٹھائے گئے ہیں، تب سے وہ برطانوی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اس المناک حادثے کے پیش نظر متعلقہ حکام نے طے شدہ پروٹوکول اور تکنیکی تقاضوں کے مطابق متاثرین کی شناخت کی تھی۔‘
’تمام باقیات کو انتہائی پیشہ ورانہ مہارت اور احترام و وقار کے ساتھ سنبھالا گیا تھا۔‘
’ہم اس معاملے میں کسی بھی قسم کے خدشات کو دور کرنے کے لیے برطانوی حکام کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔‘
’متاثرہ خاندانوں کا حق ہے کہ انھیں اپنے پیاروں کے بارے میں صحیح معلومات فراہم کی جائے‘
ایئر انڈیا حادثے سے متاثر ہونے والے کئی خاندانوں کی نمائندگی کرنے والے وکیل کا کہنا ہے کہ انھیں امید ہے کہانڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ برطانیہ کے دورانبرطانوی وزیرِ اعظم سر کیر سٹامر ’ان سنگین مسائل‘ کو ان کے ساتھ اٹھائیں گے۔
ان کا کہنا ہے متاثرہ خاندانوں کو حق حاصل ہے کہ انھیں اپنے پیاروں کی باقیات کے بارے میں صحیح معلومات فراہم کی جائے۔
برطانوی دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ مسلسل متاثرہ خاندانوں کی مدد کر رہے ہیں۔
دفترِ خارجہ کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ متاثرہ خاندانوں کی خواہش کے مطابق انھیں کیس ورکرز مختص کیے جا رہے ہیں، اور جن لوگوں نے فیملی لائزن آفیسر کی درخواست کی ہے انھیں ان کی خدمات فراہم کی جا رہی ہے۔