خیالی ملک کے فرضی سفیر کا جعلی سفارتخانہ: ’ملزم اپنا تعارف نام نہاد ملک کے سفیر کے طور پر کرواتا تھا‘

انڈیا کی ریاست اتر پردیش میں سپیشل ٹاسک فورس نے غازی آباد سے ایک شخص کو گرفتار کیا ہے جس پر الزام ہے کہ وہ خود کو ویسٹ آرکٹیکا، سبورگا، پالویا، لوڈونیا اور کچھ دوسرے 'ممالک' کا سفیر بتا کر لوگوں سے رابطہ کرتا تھا۔
ملزم کے پاس سے سفارتخانوں کو جاری کی جانے والی نمبر پلیٹوں کے طرز کی پلیٹیں برآمد ہوئی ہیں
ANI
ملزم کے پاس سے سفارتخانوں کو جاری کی جانے والی نمبر پلیٹوں کے طرز کی جعلی نمبر پلیٹس بھی برآمد ہوئی ہیں

انڈیا کی ریاست اتر پردیش میں حکام نے ایک ایسے شخص کو گرفتار کیا ہے جس پر الزام ہے کہ وہ نام نہاد ملک کا فرضی سفارتخانہ چلا رہا تھا۔

سپیشل ٹاسک فورس کے افسر سشیل گھولے کے مطابق ملزم خود کو ویسٹ آرکٹیکا، سبورگا، پالویا، لوڈونیا اور کچھ دوسرے ’ممالک‘ کا سفیر بتا کر لوگوں سے رابطہ کرتا تھا۔

حکام کے مطابق ملزم کے قبضے سے برآمد ہونے والی گاڑیوں پر سفارتخانوں کو جاری ہونے والی نمبر پلیٹوں کی طرز کی جعلی پلیٹیں نصب تھیں جو کہ کسی مجاز ادارے کی جانب سے جاری کردہ نہیں تھیں۔

پولیس نے ملزم کی شناخت ہرش وردھن جین کے نام سے کی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ہرش وردھن نے غازی آباد کے علاقے کاوی نگر میں ایک مکان کرائے پر لے رکھا تھا جہاں سے وہ مبینہ طور پر فرضی سفارتخانہ چلا رہا تھا۔

جعلی مہریں اور ترمیم شدہ تصاویر

ایس ایس پی سشیل گھلے کا کہنا ہے کہ ملزم غازی آباد کا ہی رہائشی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ملزم لوگوں کو مرعوب کرنے اور دھوکہ دینے کے لیے ترمیم شدہ (ایڈیٹڈ) تصویروں کا سہارا لیتا تھا جن میں وہ معروف شخصیات کے ساتھ نظر آتا تھا۔

تفتیش کے دوران سامنے آیا ہے کہ ملزم لوگوں کو بیرون ملک نوکریوں کے نام پر دھوکہ دے رہا تھا۔ اس کے علاوہ وہ شیل کمپنیوں کے ذریعے منی لانڈرنگ کا کاروبار چلا رہا تھا۔

پولیس کے مطابق گرفتاری کے وقت ملزم سے جو مشکوک سامان برآمد کیا گیا ہے اس میں جعلی نمبر پلیٹیں جن سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی کہ گاڑی سفارتخانے کی ہے، 12 مختلف جعلی پاسپورٹس، دو جعلی پین کارڈ، 34 مختلف ممالک اور کمپنیوں کی جعلی مہریں، دو پریس کارڈ، 44لاکھ 70 ہزار روپے نقدی، کئی ممالک کی کرنسیاں اور فرضی کمپنیوں سے متعلق جعلی دستاویزات شامل ہیں۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق اس سے قبل 2011 میں بھی ہرش وردھن کو ایک کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔

ایس ایس پی سشیل گھولے کا کہنا ہے کہ ’اُس وقت ملزم کے پاس سے ایک سیٹلائٹ فون برآمد ہوا تھا اور اس کے خلاف کاوی نگر پولیس سٹیشن میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔‘

تاہم اب کی بار غازی آباد پولیس نے ان کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے، جعلی دستاویزات رکھنے اور بنانے اور دھوکہ دہی کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

کیا ویسٹ آرکٹیکا نام کا کوئی ملک موجود ہے؟

वेस्ट अंटार्कटिका का झंडा
https://www.westarctica.info/
فرضی ملک ویسٹ آرکٹیکا کا جھنڈا

ہرش وردھن کی جانب سے جن ممالک کا سفیر ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا تھا ان میں سے ایک ملک مغربی آرکٹیکا (ویسٹ آرکٹیکا) تھا۔

بظاہر تو یہ دور دراز کے کسی چھوٹے سے ملک کا نام لگتا ہے لیکن ویسٹ آرکٹیکا دراصل ایک خیالی ملک ہے جسے 2001 میں امریکی بحریہ کے سابق افسر ٹریوس میک ہینری نے تخلیق کیا تھا۔

ویسٹ آرکٹیکا کی اپنی ویب سائٹ، جھنڈا اور کرنسی ہے۔ یہ انٹارکٹیکا کے اس برفیلے حصے کی نمائندگی کا دعویٰ کرتا ہے جس کی ملکیت پر کوئی بھی ملک باضابطہ دعویٰ نہیں کرتا ہے۔

ویسٹ آرکٹیکا کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق، یہ ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے جس کا مقصد ماحولیاتی تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں آگاہی پھیلانا ہے۔ یہ فرضی ملک ’سفیر‘، ’شہریت‘ اور ’اعزازی القابات‘ بھی پیش کرتا ہے۔

تاہم اسے اقوام متحدہ یا دنیا کے کسی بھی حقیقی ملک کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔

اس خیالی ملک کی ویب سائٹ کے مطابق، اس ’ملک‘ کی حکومت گرینڈ ڈیوک ٹریوس کی سربراہی میں قائم ہے جس کی مدد ایک وزیر اعظم اور ’رائل کونسل‘ کرتی ہے۔

اس کے علاوہ ’گرینڈ ڈوکل کورٹ‘ کے نام سے ایک ادارہ بھی ہے جس کا کام ویسٹ آرکٹیکا میں بنائے گئے قوانین کی تشریح ہے۔

ویب سائٹ پر بتایا گیا ہے کہ اس کے اراکین وہ لوگ ہیں جو تنظیم کے مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنا علم، وقت اور مہارت کا استعمال کرتے ہیں۔

تاہم، یہ سب چیزیں محض ڈیجیٹل اور علامتی ڈھانچے تک محدود ہیں اور ان کی حقیقی دنیا میں کوئی قانونی یا سفارتی حیثیت نہیں ہے۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ آیا مغربی آرکٹیکا کا ملزم ہرش وردھن سے کوئی تعلق ہے یا نہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow