پاکستان میں قانون سازی کے ذریعے بچوں کے سوشل میڈیا استعمال پر پابندی عائد کرنا کتنا مشکل ہے؟

اس بِل میں کہا گیا ہے کہ فیس بُک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک، واٹس ایپ، بیگو لائیو، سییپ چیٹ، یوٹیوب اور تھریڈز سمیت تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو پابند کیا جائے کہ وہ 16 برس سے کم عمر نوجوانوں کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں۔
سوشل میڈیا
Getty Images

پاکستان کی سینیٹ میں ایک ایسا بِل پیش کیا گیا ہے جس کے قانون بننے کی صورت میں سوشل میڈیا کمپنیوں پر یہ پابندی ہو گی کہ ان کے پلیٹ فارمز 16 برس سے کم عمر کے بچے اور نوجوان استعمال نہ کر پائیں۔

رواں ہفتے سینیٹ میں یہ بِل پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز سرمد علی اور مسرور احسن نے پیش کیا ہے۔

اس بِل میں کہا گیا ہے کہ فیس بُک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک، واٹس ایپ، بیگو لائیو، سنیپ چیٹ، یوٹیوب اور تھریڈز سمیت تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو پابند کیا جائے کہ وہ 16 برس سے کم عمر نوجوانوں کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں۔

واضح رہے کہ یہ بِل فی الوقت صرف سینیٹ میں پیش کیا گیا ہے اور اسے قانون میں تبدیل کرنے کے لیے اسے سینیٹ اور قومی اسمبلی دونوں سے منظوری کی ضرورت ہو گی۔

بِل میں مزید کیا کہا گیا ہے؟

اس بِل کو ’سوشل میڈیا (حدِ عمر برائے صارفین)، 2025‘ کا نام دیا گیا ہے۔

اس بِل کے مطابق حدِ عمر کی خلاف ورزی کرنے والے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو 50 ہزار سے 50 لاکھ روپے تک جُرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

بِل میں 16 برس سے کم عمر افراد کو سوشل میڈیا اکاؤنٹ بنانے میں مدد دینے والے افراد کے لیے بھی چھ مہینے تک کی قید اور 50 ہزار سے 50 لاکھ تک جُرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔

سوشل میڈیا
Getty Images

بِل کے مطابق پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے پاس یہ اختیارات ہونے چاہییں کہ وہ 16 برس سے کم عمر نوجوانوں کے موجودہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس بلاک کر سکے۔

بِل پیش کرنے والے دونوں سینیٹرز نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ایسی علامات موجود ہیں کہ سوشل میڈیا نوجوانوں پر منفی اثرات ڈال رہا ہے اور اس بِل کا مقصد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو پابند بنانا ہے کہ وہ بِل میں درج شدہ عمر سے کم عمر صارفین کو اکاؤنٹس بنانے کی اجازت نہ دیں۔

دونوں سینیٹرز کے مطابق ایسے قوانین پہلے ہی نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا جیسے ممالک میں نافذ العمل ہیں۔

آسڑیلیا میں گذشتہ برس 16 سال سے کم عمر افراد پر ٹک ٹاک، فیس بک، انسٹاگرام اور ایکس جیسے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے استعمال پر پابندی عائد کرنے کا قانون پاس کیا گیا تھا۔

اس قانون میں سوشل میڈیا کمپنیوں سے کہا گیا تھا کہ وہ 16 سال سے کم عمر نوجوانوں کو اپنے اکاؤنٹس بنانے سے روکنے کے لیے مناسب اقدامات کریں۔

تاہم تاحال اس قانون کے نافذ العمل ہونے کے حوالے سے آسٹریلیا میں خدشات موجود ہیں اور نومبر میں بننے والے اس قانون پر تاحال عمل درآمد نہیں ہو پایا۔

اس کی سب سے بڑی وجہ سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے صارفین کی درست عمر کا تعین کرنے کے لیے اقدامات متعارف کروانا ہے۔

کیا یہ بِل نافذ العمل ہے؟

برطانوی ادارے چائلڈ ایکسپلوئٹیشن اینڈ آن لائن پروٹیکشن کمانڈ کے مطابق زیادہ تر مقبول سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر صارفین کے لیے کم سے کم حدِ عمر 13 برس مقرر کی گئی ہے۔

ماہرین کو موجودہ حالت میں اس بِل کا نفاذ مشکل نظر آتا ہے۔

غیر سرکاری ادارے بولو بھی سے منسلک یجیٹل رائٹس ایکٹوسٹ فریحہ ادریس کہتی ہیں کہ اس طرح کی قانون سازی ’خواہشات کی ایک فہرست‘ کی طرح نظر آتی ہے اور ’اس طرح کے نکات ہم نے سوشل میڈیا رولز 2021 میں بھی دیکھے تھے جس میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو پاکستان میں دفاتر قائم کرنے کا پابند بنایا گیا تھا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔‘

’ایسا کرنے کی کوششیں برسوں سے ہو رہی ہیں لیکن ضروری نہیں کہ قانون بنانے سے ایسا ہو بھی جائے گا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ہر چیز کو روکنے کے لیے حکام سزاؤں کی راہ اپناتے ہیں جیسے کہ جرمانے اور دیگر سزائیں۔

سوشل میڈیا
Getty Images

بِل میں پی ٹی اے کو سوشل میڈیا اکاؤنٹس بلاک کرنے کے اختیارات دینے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ پاکستان نے سائبر کرائم کی روک تھام کے لیے حال ہی میں نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشنز ایجنسی (این سی سی آئی اے) نامی نیا ادارہ قائم کیا ہے۔

فریحہ ادریس نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ پیکا قانون کے مطابق سوشل میڈیا کے معاملات پی ٹی اے نہیں بلکہ ایک نئے ادارے کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔

’اس بِل کو دیکھ کر لگتا ہے جیسے کہ اسے بنا سوچے سمجھے بنایا گیا ہے۔‘

آئی ٹی قوانین پر مہارت رکھنے والے وکیل حسن نیازی کہتے ہیں کہ اس بِل کو نافذ کرنے کے لیے پاکستان کے پاس صرف ایک آپشن ہے کہ وہ ’ان کمپنیوں کو ملک میں بلاک کرنے کی دھمکی دے۔‘

’جُرمانے جیسی روایتی سزاؤں کے ذریعے اس بِل کا اطلاق ممکن نہیں نظر آتا کیونکہ اس کے لیے آپ کو امریکہ جیسے ممالک میں بھی اپنے دعوے دائر کرنے پڑیں گے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ انھیں نہیں لگتا کہ سوشل میڈیا کمپنیاں اس قانون پر عمل کریں گی کیونکہ اس کے لیے انھیں اپنی پروڈکٹس میں بہت تبدیلیاں کرنی پڑیں گی۔

’پاکستان ان کے لیے اتنی بڑی مارکیٹ نہیں ہے اور اس کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کریں گے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow