لاہور کے علاقے سوئے آصل میں محمد اسلم (فرضی نام) اور ان کے کزن دونوں موٹر سائیکل پر جا رہے تھے۔ کہ اچانک ان کی موٹر سائیکل کا پیٹرول ختم ہو گیا۔یہ واقعہ 19 جولائی کا ہے۔ تھانہ رائیونڈ سٹی میں درج ایف آئی آر کے مطابق اسلم بتاتے ہیں کہ ’تھوڑی دیر بعد ہمارے قریب سے دو پولیس اہلکار موٹر سائیکل پر گزرے تو ہم نے ان سے مدد مانگی۔‘تاہم جو منظر اس کے بعد سامنے آیا وہ کسی ڈرامائی فلم سے کم نہ تھا۔ ایف آئی آر کے مطابق پولیس اہلکاروں نے مدد دینے کے بجائے دونوں کی تلاشی لینا شروع کر دی اور ’چائے پانی‘ کے لیے پیسوں کا مطالبہ کیا۔جب اسلم نے انکار کیا تو اہلکاروں نے خود کو کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ (سی سی ڈی) کا حصہ بتایا اور تیسرے ساتھی کو گاڑی سمیت بلا لیا۔ اسلم کو زبردستی ایک عمارت میں لے جایا گیا، جہاں انہیں 12 گھنٹے تک محبوس رکھا گیا اور 25 لاکھ روپے کے تاوان کا مطالبہ کیا گیا۔ایف آئی آر کے مطابق انہیں دھمکی دی گئی کہ اگر پیسے نہ دیے تو سی سی ڈی کے ’پولیس مقابلوں‘ کی طرح کا پولیس مقابلہ کر کے انہیں ختم کر دیا جائے گا۔اسلم کی درخواست پر تھانہ رائیونڈ سٹی نے تین پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔ ایف آئی آر میں اغوا اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی دفعات لگائی گئی ہیں۔سی سی ڈی ہے کیا؟اگر آپ پنجاب کے باسی نہیں بھی ہیں تو ان دنوں اس صوبے میں جس پولیس فورس کے چرچے ہیں وہ ہے سی سی ڈی جو پولیس کا ایک ذیلی محکمہ ہے۔کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ (سی سی ڈی) کو رواں سال میں وزیراعلٰی مریم نواز کی ہدایت پر قائم کیا گیا۔ اس کا مقصد منظم جرائم جیسے ڈکیتی، قتل، زیادتی، قبضہ مافیا، اور گینگسٹر ریکٹ کے خلاف فوری اور موثر کارروائی کرنا ہے۔ سی سی ڈی ساڑھے چار ہزار افسروں اور اہلکاروں پر مشتمل ہے۔ اس کا دائرہ کار تحصیل کی سطح تک پھیلا ہوا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی، جیسے ڈرون سرویلنس، اور ڈیٹا مینجمنٹ سسٹم کے ذریعے یہ شعبہ جرائم پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہے۔ تاہم، اس کے قیام کے چند ماہ بعد ہی اس کی کارروائیوں، خاص طور پر پولیس مقابلوں کی تعداد میں اضافے نے سوالات اٹھائے ہیں۔
سی سی ڈی کی کارروائیوں میں متعدد مشہور جرائم پیشہ افراد ہلاک ہوئے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
سی سی ڈی کے قیام کے بعد پنجاب میں پولیس مقابلوں میں 35 فیصد اضافہ ہوا، اور اب تک 800 سے زائد مقابلوں میں 160 ملزمان ہلاک، 53 زخمی، اور 49 گرفتار ہوئے ہیں۔
سی سی ڈی کی کارروائیوں میں متعدد مشہور جرائم پیشہ افراد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں لاہور کے بادامی باغ میں عرفان عرف عفی (65 مقدمات میں مطلوب)، احمد پور شرقیہ میں چھ سالہ بچی سمیرا کے قاتل، اور چارسدہ میں پولیس اہلکار کے قاتل اسماعیل اور حمزہ شامل ہیں۔ان مقابلوں سے متعلق جو بیان جاری کیا جاتا ہے وہ تقریباً ایک ہی طرح کا ہوتا ہے۔ ’ملزمان کو گرفتار کرنے کی کوشش کے دوران، جب وہ مبینہ طور پر فائرنگ کرتے ہیں، تو جوابی کارروائی میں وہ اپنے ہی ساتھیوں کے فائرنگ سے ہلاک ہو گئے۔‘حافظ آباد گینگ ریپ کیس کے ملزمان بھی پولیس مقابلے میں ہلاک ہوئے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ نیچا مانگٹ گاؤں کے قریب میاں بیوی کو روک کر ریپ کرنے والے چار ملزمان واقعے کے ایک ہفتے بعد ہی پولیس کے ساتھ مڈبھیڑ میں ہلاک ہوگئے۔ جبکہ ان کا چوتھا ساتھی جو ملک سے باہر فرار تھا اسے بھی گرفتار کر کے واپس لایا جا چکا ہے۔’متنازعہ مقابلوں‘ پر عدالتی ریمارکسسی سی ڈی کے پولیس مقابلوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے عدلیہ کو بھی متحرک کر دیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم نے حال ہی میں ایک سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ’ایک ایک دن میں پچاس پچاس درخواستیں آ رہی ہیں، جن میں لوگ سی سی ڈی کے مقابلوں سے خوفزدہ ہیں۔‘انہوں نے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کو ان واقعات کا تفصیلی جائزہ لینے کی ہدایت کی۔ گذشتہ روز ایک کیس میں آئی جی کو طلب کیا گیا، جہاں ایک شہری نے اپنے بیٹے کو مبینہ طور پر پولیس مقابلے سے بچانے کی استدعا کی تھی۔ آئی جی کی رپورٹ پر عدالت مطمئن ہوئی، لیکن چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ ان معاملات کو شفافیت کے ساتھ دیکھا جائے۔
جسٹس فاروق حیدر نے سوال اٹھایا کہ ’جب پنجاب پولیس موجود ہے تو سی سی ڈی بنانے کی کیا ضرورت تھی؟‘ (فوٹو: اے پی پی)
ایک حالیہ سماعت میں ایک ملزم کی والدہ نے لاہور ہائی کورٹ سے درخواست کی کہ پولیس کو ان کے بیٹے کو جیل سے ریمانڈ پر لانے سے روکا جائے، کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ اسے مقابلے میں مار دیا جائے گا۔
عدالت نے استدعا کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے خارج کر دیا، لیکن یہ واقعہ سی سی ڈی کے مقابلوں کے گرد عوامی خوف کی عکاسی کرتا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس فاروق حیدر نے بھی سی سی ڈی کے قیام پر سوال اٹھایا کہ ’جب پنجاب پولیس موجود ہے تو سی سی ڈی بنانے کی کیا ضرورت تھی؟‘وکلا کی آراسی سی ڈی کے پولیس مقابلوں پر وکلا برادری کی آرا منقسم ہیں۔ ایڈووکیٹ سعد رسول کہتے ہیں کہ ’یہ مقابلے بعض اوقات قانون کی بالادستی کے بجائے ماروائے عدالت قتل کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ کمزور پراسیکیوشن کی وجہ سے ملزمان عدالتوں سے رہائی پا لیتے ہیں، جس سے پولیس مقابلوں پر انحصار بڑھ جاتا ہے۔‘دوسری جانب ایڈووکیٹ بشارت اللہ خان نے کہا کہ ’سی سی ڈی کی کارروائیاں جرائم کے خاتمے کے لیے ضروری ہیں، لیکن ان کی شفافیت پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ہر مقابلے کی آزادانہ تحقیقات ہونی چاہیے۔‘عوامی ردعمل: ستائش یا تنقید؟سی سی ڈی کے پولیس مقابلوں پر عوام کی رائے منقسم ہے۔ سوشل میڈیا پر پنجاب کے لوگوں نے سی سی ڈی کی کارروائیوں پر اطمینان اور اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ تاہم کئی افراد ان مقابلوں کو ماروائے عدالت قتل قرار دیتے ہیں۔
پولیس مقابلوں کی تعداد اور طریقہ کار نے عوام، وکلا اور عدلیہ میں سوالات اٹھائے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
پنجاب کے کچھ علاقوں میں جرائم پیشہ افراد مساجد میں قرآن ہاتھوں میں تھامے نظر آئے ہیں، جو شاید سی سی ڈی کے خوف سے عوامی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ یہ مناظر سماجی میڈیا پر وائرل ہوئے اور عوام کے درمیان بحث کا باعث بنے۔
ایس پی سی سی ڈی آفتاب پھلروان نے ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم صرف جرائم پیشہ افراد کو نشانہ بنا رہے ہیں جو معاشرے کے لیے خطرہ ہیں۔ یہ مقابلے منصوبہ بندی کے تحت نہیں ہوتے، بلکہ ملزمان کی فائرنگ کے جواب میں ہوتے ہیں۔ تمام الزامات کہ یہ ماروائے عدالت قتل ہیں، محض پروپیگنڈہ ہیں جو جرائم پیشہ افراد اور ان کے ہمدرد پھیلاتے ہیں۔ ہمارا مقصد عوام کو تحفظ فراہم کرنا ہے، اور ہم قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ سی سی ڈی جدید ٹیکنالوجی اور تربیت یافتہ اہلکاروں کے ساتھ جرائم کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ہر مقابلے کی تحقیقات کی جاتی ہیں اور شفافیت کو یقینی بنایا جاتا ہے۔کریمنل کنٹرول ڈیپارٹمنٹ (سی سی ڈی) کا قیام 2025 میں پنجاب میں منظم جرائم کے خاتمے کے لیے ایک اہم قدم تھا، لیکن اس کے پولیس مقابلوں کی تعداد اور طریقہ کار نے عوام، وکلا اور عدلیہ میں سوالات اٹھائے ہیں۔صوبائی دارالحکومت لاہور میں ایک ایک دن میں پانچ سے سات پولیس مقابلوں کی رپورٹنگ اب تقریباً ایک طرح کا معمول بن چکا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ تمام علاقوں کی فہرستیں بن چکی ہیں جو جو بھی جرائم پیشہ افراد ہیں وہ یا تو علاقے چھوڑ گئے ہیں یا جرائم سے کنارہ کش ہو رہے ہیں۔