فوجی کمان دار رضا پہلوی، جو بعد میں شاہِ ایران بنے اور تاج الملوک کے ہاں اپنے بھائی محمد رضا کے پانچ گھنٹے بعد 26 اکتوبر 1919 کوپیدا ہونے والی اشرف الملوک پہلوی طاقت کے اس کھیل میںایک فیصلہ کن کھلاڑی تھیں۔
شہزادی اشرف پہلوی شاہِ ایران کی جڑواں بہن تھیں’تممرد ہو یا چُوہا؟‘
یہ سوال شاہِ ایران سے کسی اور نے نہیں بلکہ اُن کی جُڑواں بہن شہزادی اشرف پہلوی نے پوچھا تھا۔
مئی 1972 کی ایک امریکی خفیہ دستاویز ’سنٹرز آف پاور‘ (طاقت کے مراکز) کے مطابق جب امریکی سفیر نے شاہ کو مشورہ دیا کہ وہ سیاست سے کنارہ کش ہو کر قومی اتحاد کی علامت بن جائیں تو انھوں نے ایک خفیف سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا: ’اشرف نے کل ہی مجھ سے پوچھا تھا کہ میں مرد ہوں یا چُوہا؟‘
سٹیفن کنزر نے اپنی کتاب ’آل دی شاہز مین‘ میں لکھا ہے کہ ’شہزادی اشرف کی اپنے بھائی کو جھاڑ پلانے کی کہانیاں زبان زدِ عام تھیں، جن میں ایک موقع وہ بھی شامل تھا جب غیر ملکی سفیروں کی موجودگی میں انھوں نے شاہ سے کہا کہ ثابت کرو تم مرد ہو ورنہ سب پر آشکار ہو جائے گا کہ تم ایک چوہے ہو۔‘
فوجی کماندار رضا پہلوی، جو بعد میں شاہِ ایران بنے، اور تاج الملوک کے ہاں اپنے بھائی محمد رضا کی پیدائش کے پانچ گھنٹے بعد 26 اکتوبر 1919 کو پیدا ہونے والی شہزادی اشرف الملوک پہلوی طاقت کے اس کھیل میں ایک فیصلہ کُن کھلاڑی تھیں۔
یہی محمد رضا بعدازاں اپنے والد کی جگہ شاہِ ایران بنے تھے۔ لیکن ایک طویل عرصے تک خفیہ رکھی گئی امریکہ کی سی آئی اے کی رپورٹ میں کہا گیا کہ وہ ’قوتِ فیصلہ سے عاری شخص‘ تھے۔ یہ رپورٹ پہلی بار سنہ 2000 میں نیویارک ٹائمز میں شائع ہوئی تھی۔
اسی دستاویز میں لکھا ہے کہ رضا پہلوی کی شخصیت کے جو اوصاف تھے، وہ سب اُن کے بیٹے کو منتقل نہیں ہوئے۔
’ایک مبصر نے کہا کہ رضا شاہ کی سب سے بڑی بیٹی شمس نے اُن کی فہم و فراست ورثے میں پائی۔ چھوٹے بیٹے علی نے اُن کی جسمانی طاقت اور اُن کی جڑواں بیٹی اشرف نے ان کی بے رحمانہ عزم و ہمت حاصل کی۔‘ جبکہ محمد رضا کو اپنے والد کا قومی ترقی کا خواب ورثے میں ملا۔
’شاہ بننے کے ابتدائی دنوں میں ہی محمد رضا کو اپنے ہی خاندان میں عزت و توقیر حاصل نہ تھی۔ ملکہ مادر (شاہ کی والدہ) بظاہر اپنے سب سے بڑے بیٹے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتی تھیں۔ اکثر رپورٹس میں بتایا گیا کہ وہ ان کے خلاف سازشیں کرتی رہیں اور علی کو زیادہ موزوں جانشین کے طور پر آگے بڑھاتی رہیں اور ایک موقع پر انھوں نے یہاں تک کہا کہ افسوس (شہزادی) اشرف شاہ نہیں بنی۔‘
واشنگٹن پوسٹ کے برائن مرفی کے مطابق 1930 کی دہائی کے اوائل میں اشرف پہلوی، اُن کی بڑی بہن شمس اور اُن کی والدہ اُن اولین ایرانی خواتین میں شامل تھیں جنھوں نے روایتی حجاب ترک کیا۔
اشرف پہلوی ان ایرانی خواتین میں سے ایک تھیں جنھوں سے سب سے پہلے روایتی حجاب کا استعمال ترک کیاانسائیکلو پیڈیا برٹینیکا کے مطابق سنہ 1951 سے لے کر سنہ 1953 تک ایران کے وزیر اعظم رہنے والے محمد مصدقکے برطانوی کمپنی کے زیرِ قبضہ ایران کے وسیع تیل ذخائر کو قومی ملکیت میں لینے سے ایران میں شدید سیاسی اور معاشی بحران پیدا ہو گیا۔
’مصدق اور شاہ کے درمیان حکومت پر اختیار کی مسلسل کشمکش میں اگست 1953 میں جب شاہ نے مصدق کو برطرف کرنے کی کوشش کی تو مصدق کے حامی سڑکوں پر نکل آئے اور شاہ اور اُن کی بہن اشرف پہلوی کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔‘
’تاہم چند ہی دنوں میں مصدق کے مخالفین نے امریکی اور برطانوی ایجنسیوں کے تعاون سے ایکفوجی بغاوت کے ذریعے اُن کی حکومت گرا دی اور شاہ کو دوبارہ اقتدار میں واپس لے آئے۔‘
سنہ 1953 کے اس عمل کو ’آپریشن ایجیکس‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
شہزادی اشرف پہلوی نے آپریشن ایجیکس میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ انھوں نے محمد رضا شاہ کا ذہن بدل کر امریکی اور برطانوی خفیہ ایجنسیوں کو اس بغاوت کا آغاز کرنے کی اجازت دینے پر آمادہ کیا۔
شاہ ابتدا میں اس کارروائی کے سخت خلاف تھے اور کچھ عرصے تک اس کی منظوری دینے سے انکار کرتے رہے۔
سال کے اوائل میں سی آئی اے کے ایجنٹس نےاشرف سے درخواست کی کہ وہ اپنے بھائی سے بات کریں کیونکہ وہ واحد شخصیت تھیں جو شاہ پر اثر ڈال سکتی تھیں۔
مؤرخ سٹیفن کنزر اپنی کتاب ’آل دی شاہزمین‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اشرف اُس وقت فرانس کے کیسینوز اور نائٹ کلبوں میں زندگی کا لطف اُٹھا رہی تھیں، جب (آپریشن کے انچارج سی آئی اے افسر) کرمٹ روزویلٹ کے ایک نمایاں ایرانی ایجنٹ، اسداللہ رشیدیان، اُن سے ملاقات کے لیے پہنچے۔‘
’اشرف نے مزاحمت دکھائی تو اگلے روز امریکی اور برطانوی ایجنٹوں کا ایک وفد یہ دعوت مزید ’مؤثر انداز‘ میں پیش کرنے آ پہنچا۔‘
’وفد کی قیادت ایک سینیئر برطانوی خفیہ اہلکار نارمن ڈاربی شائر کر رہے تھے، جو اپنے ساتھ ایک قیمتی منک کوٹ اور نقد رقم کا ایک پیکٹ لائے تھے۔‘
ڈاربی شائر کے بقول جیسے ہی اشرف کی نظر ان تحائف پر پڑی ’اُن کی آنکھوں میں چمک آ گئی اور اُن کی مزاحمت ٹوٹ گئی۔‘
تاہم، اشرف پہلوی کی کتاب ’فیسز اِن اے مِرر: میمائرزفرام ایگزائل‘ میں اُن کے اپنے بیان کے مطابق انھیں زبردستی فرانس میں جلاوطنی سے وطن واپسی پر آمادہ کرنے کے لیے ایک بلینک چیک پیش کیا گیا، مگر انھوں نے رقم لینے سے انکار کیا اور اپنی مرضی سے ایران واپس آئیں۔
بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ 1953 کی بغاوت اشرف پہلوی کی اپنے بھائی کو منانے کی کوششوں کے بغیر بھی ہو سکتی تھی۔
انٹرنیشنل جرنل آف مڈل ایسٹ سٹڈیز میں شائع ایک مضمون میں مصنف مارک گیسوریوسکی لکھتے ہیں کہ شاہ کو ’نہ تو بغاوت کے فیصلے میں شامل کیا گیا، نہ اس کے طریقۂ کار پر مشورہ دیا گیا، اور نہ ہی اُن سے پوچھا گیا کہ مصدق کی جگہ کون لے گا۔‘
گیسوریوسکی کے مطابق یہ بغاوت زیادہ تر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے مصدق کو کمزور کرنے اور انھیں ہٹانے کے لیے کی گئی تھی اور شاہ اس میں محض ایک علامتی کردار تھے، اصل کارروائی پسِ پردہ غیر ملکی طاقتیں چلا رہی تھیں۔
مصدق کو غداری کے جرم میں تین سال قید کی سزا سنائی گئی اور سزا مکمل ہونے کے بعد باقی زندگی نظر بندی میں گزارنا پڑی۔
اگرچہ ایران کو تیل کی تنصیبات پر علامتی خودمختاری حاصل رہی لیکن سنہ 1954 کے معاہدے کے تحت تیل کی آمدن کا 50 فیصد حصہ ایک بین الاقوامی کنسورشیم کو جاتا رہا جو پیداوار اور فروخت پر مکمل اختیار رکھتا تھا۔
شہزادی اشرف پہلوی: شادیاں اور سکینڈلز
اگرچہ اشرف اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھیں مگر اس کے بجائے اُن کی شادی سنہ 1937 میں 18 سال کی عمر میں کر دی گئی۔ شہزادی اشرف نے تین شادیاں کیں جو تینوں طلاق پر منتج ہوئیں اور اُن کے تین بچے تھے۔
سنہ 1980میں نیویارک ٹائمز کو دیے گئے انٹرویو میں اشرف نے کہا: ’میں کبھی اچھی ماں نہیں رہی کیونکہ میرا طرزِ زندگی ایسا تھا کہ بچوں کے ساتھ وقت نہیں گزار سکی۔‘
سیاسی مخالفین نے شہزادی اشرف پر کرپشن کے الزامات لگائے اور ان کے ایرانی اداکاروں اور عوامی شخصیات کے ساتھ مشہور زمانہ معاشقوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
امریکی دستاویز کے مطابق شہزادی اشرف کئی برسوں تک شاہی دربار سے وابستہ تقریباً تمام سکینڈلز کی مرکزی شخصیت رہی ہیں۔
’ان کی اپنے عشّاق کے حق میں مداخلتیں بدنام تھیں اور عام طور پر یہ افواہیں بھی گردش میں رہیں کہ وہ خود منشیات کی سمگلنگ میں ملوث ہیں۔ تاہم اب وہ نسبتاً محتاط ہو گئی ہیں اور یہاں تک کہ اپنے بھائی کے لیے نیم سفارتی مشن بھی سرانجام دے رہی ہیں۔ اشرف نے اقوامِ متحدہ اور ایران میں خواتین کے حقوق کے فروغ کے لیے بھی سرگرمی سے کام کیا ہے اور دیگر سماجی مقاصد میں بھی حصہ لیا ہے۔‘
’اگرچہ اُن کی ساکھ میں بہتری آئی ہے، وہ اپنے کئی پرانے اطوار آج بھی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ تعمیراتی ٹھیکیداروں یا مشیروں کے حق میں ان کی سفارشات آج بھی سرکاری ٹھیکے دلوانے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں، اگرچہ اب بظاہر وہ اس کے عوض کمیشن نہیں لیتیں۔‘
’وقت کے ساتھ ساتھ اشرف نے کئی مردوں کو بیوروکریسی میں ترقی دلوانے میں مدد دی ہے۔‘
’52 سالہ شہزادی کی حالیہ پسندیدہ شخصیت 36 سالہ پرویز راجی دکھائی دیتے ہیں، جو وزیرِ اعظم ہویدا کے معاون ہیں۔ راجی، جن کے خاندانی تعلقات دو طاقتور گھرانوں سے ہیں، حکومت کے چند باصلاحیت نوجوان افسران میں شمار کیے جاتے ہیں۔ وہ آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ ہیں اور وزارتِ خارجہ میں خاصا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھیں سفیر کے مساوی ذاتی عہدہ بھی دیا گیا ہے۔‘
’ایسے تعلقات ذاتی فائدے کے علاوہ باہمی سیاسی فائدے بھی رکھتے ہیں۔ اشرف کو وزیرِاعظم کے دفتر تک ایک اہمرسائی حاصل ہوتی ہے، جبکہ راجی کو اپنے مستقبل کے کیریئر میں ایک مؤثر پشت پناہی میسر آتی ہے، بشرطیکہ ان کے تعلقات خوش اسلوبی سے ختم ہوں۔ لیکن اشرف کی دشمنی بھی اتنی ہی مؤثر ہو سکتی ہے۔ اشرف اور سابق وزیرِ خارجہ اردشیر زاہدی کے درمیان کشیدگی 1971 میں زاہدی کی برطرفی کا جزوی سبب بنی تھی۔‘
اشرف پہلویپر مالی بدعنوانی کے الزاماتبھی لگائے گئے لیکن ان کے مطابق ایسا اس لیے تھا کیونکہ وہ ’مختلف تنظیموں کی انتظامیہ میں سرگرم تھیں۔‘
سیاسی مخالفین نے شہزادی اشرف پر کرپشن کے الزامات بھی لگائے جس کی انھوں نے ہمیشہ تردید کیان کے بقول جب مصدق نے انھیں پیرس میں جلاوطن کیا، وہ محدود مالی وسائل کی حامل تھیں۔
تاہم بعد کے برسوں میں کہا گیا کہ انھوں نے بڑی دولت جمع کر لی۔
مرفی کے مطابق اشرف نے اپنی دولت کا سبب اپنے والد رضا شاہ سے وراثت میں ملی زمینوں کی قدر میں اضافے اور وراثت میں ملے کاروباروں کی آمدن کو قرار دیا۔
تاہم نکی کیڈی کی کتاب ’روٹس آف ریولیوشن: این انٹرپریٹیٹو ہسٹری‘ اور فریدون ہویدا کی کتاب ’دی فال آف دی شاہ‘ کے مطابق، اُن کی دولت کے پیچھے کی ایک کہانی یہ بھی ہے کہ جب ایران میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث صنعتی ترقی کا دور آیا، تو اشرف پہلوی اور اُن کے بیٹے شہرام نے نئی کمپنیوں کو حکومت سے آپریٹنگ، درآمد، برآمد یا سرکاری معاہدے کی اجازت دلوانے کے بدلے اُن کمپنیوں کے حصص میں سے 10 فیصد یا اُس سے زیادہ بغیر قیمت کے حاصل کیے۔
’کہا جاتا ہے کہ سرکاری لائسنس صرف چند بااثر کمپنیوں کو دیے جاتے تھے، جس کے نتیجے میں لائسنس حاصل کرنا ہر کاروبار کے لیے ایک لازمی اور مہنگا مرحلہ بن گیا۔‘
سنہ 1979میں نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ 17 ستمبر 1978 کی ایک دستاویز کے مطابق اشرف کے دفتر سے ایک درخواست کی گئی کہ بینک میں موجود اُن کے اکاؤنٹ سے 7,08,000 ڈالر سوئٹزرلینڈ کے یونین بینک آف جنیوا میں موجود اکاؤنٹ میں منتقل کیے جائیں، جسے خفیہ کوڈ یعنی SAIPA یعنی (S-on, A-ltesse, I-mperiale, P-rincesse, A-shraf) کے تحت کھولا گیا تھا۔
یہ فرانسیسی زبان میں اُن کی پسندیدہ اصطلاح تھی جس کا مطلب تھا ’شہزادی اشرف، شاہی عظمت کی مالک۔‘
حسین فردُوست نے ’دی رائزاینڈ فال آف دی پہلوی ڈائناسٹی‘ میں اشرف پہلوی کو منشیات سمگلنگ سے جوڑنے کی بھی کوشش کی۔
اس پر اشرف نے اپنی یادداشتوں میںلکھا: ’میرے مخالفین نے مجھ پر سمگلر، جاسوس، مافیا کی ساتھی، اور ایک بار تو منشیات فروش ہونے تک کا الزام لگایا۔‘
سنہ 1980میں اشرف نے نیویارک ٹائمز میں ایک مضمون میں مؤقف اختیار کیا کہ ان کی دولت ’ناجائز ذرائع‘ سے حاصل نہیں کی گئی، بلکہ وراثتی زمینوں سے تھی جن کی قیمت ایران کی ترقی اور خوشحالی کے باعث کئی گنا بڑھ گئی تھی۔
وہ اپنی یادداشتوں میں الزامات کا یوں جواب دیتی ہیں: ’میرے والد کی وفات پر مجھے تقریباً 3 لاکھ ڈالر وراثت میں ملے تھے (اور کیسپیئن سمندرکے قریب تقریباً 10 لاکھ مربع میٹر زمین، نیز جرجان اور کرمانشاہ میں کچھ جائیدادیں بھی، جو بعد میں بے حد قیمتی ثابت ہوئیں)۔‘
اپنی جوانی میں اشرف پہلوی خود اعتمادی کی کمی کا شکار تھیںنفسیاتی پہلو
اپنی جوانی میں اشرف پہلوی خود اعتمادی کی کمی کا شکار تھیں۔
انھوں نے لکھا: ’مجھے آئینے میں اپنی شکل پسند نہیں آتی تھی۔ میں کسی اور کے چہرے، گوری رنگت، اور زیادہ قد کی خواہش رکھتی تھی۔ ہمیشہ محسوس کرتی کہ دنیا میں مجھ سے کم قد لوگ بہت کم ہیں۔‘
شاید یہی احساس اُن کی جرأت مندی کا محرک بنا۔
اپنی یادداشتوں میں وہ لکھتی ہیں: ’بیس سال قبل، فرانسیسی صحافیوں نے مجھے ('La Panthère Noire') (کالی چیتی) کا لقب دیا۔ مجھے یہ لقب خاصا پسند آیا اور سچ کہوں تو بعض پہلوؤں میں یہ میرے مزاج سے میل بھی کھاتا ہے۔ چیتے کی طرح میری فطرت پرجوش، باغی اور خوداعتماد ہے۔‘
’اکثر مجھے عوامی محفلوں میں خود پر قابو رکھنے کے لیے بڑی محنت کرنا پڑتی ہے۔ مگر بعض اوقات میرا دل چاہتا ہے کہ کاش میرے پاس چیتے کے پنجے ہوتے کہ میں اپنے وطن کے دشمنوں پر جھپٹ پڑتی۔‘
بھائی کے ساتھ تعلق پر وہ کہتی تھیں کہ محمد رضا شاہ اُن کے سب سے قریبی دوست تھے۔
اپنی یادداشتوں میں اشرف لکھتی ہیں ’ہمارے بالغ ہونے سے بہت پہلے میرے لیے اُس کی آواز ہی زندگی کی غالب آواز بن چکی تھی۔‘
خواتین کے حقوق
بھائی کے ساتھ تعلق پر وہ کہتی تھیں کہ محمد رضا شاہ اُن کے سب سے قریبی دوست تھےاشرف پہلوی اپنے بھائی کی حکومت کے دوران ایران اور دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کی بھرپور حامی رہیں۔
تاہم ایک مضمون میں مصنفہ کی بوئل نے انھیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور لکھا کہ ’شہزادی جب بین الاقوامی بہن چارے کی بات کر رہی تھیں، تب ایران میں ان ہی کی تقریباً 4,000 ’بہنیں‘ سیاسی قیدی تھیں، جنھیں کسی فوجی یا دیوانی مقدمے کی امید بھی نہ تھی۔‘
اپنی یادداشتوں میں اشرف پہلوی نے ایران میں خواتین کے خراب حالات کا اعتراف کیا اور اس پر تشویش کا اظہار کیا۔
وہ لکھتی ہیں کہ ’ایران کی عورتوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا تھا، اس کی خبریں انتہائی تکلیف دہ تھیں۔۔۔ وہ الگ تھلگ کر دی گئی تھیں اور دوسرے درجے کی شہری بنادی گئی تھیں۔۔۔ بہت سی عورتوں کو قید یا جلاوطنی کا سامنا تھا۔‘
سنہ 1979کے انقلاب کے بعد اشرف پہلوی نے امریکی بینکار ڈیوڈ راک فیلر سے درخواست کی کہ وہ ان کے بھائی محمد رضا شاہ کو پناہ دلوانے میں مدد کریں۔
انھوں نے اُس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کرٹ والڈہائم پر بھی تنقید کی کہ انھوں نے انقلاب کے آغاز میں شاہ کا ساتھ نہیں دیا۔
جلاوطنی اور وفات
شہزادی اشرف پہلوی اپنے بھائی کی حکومت کے دوران ایران اور دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کی بھرپور حامی رہیںانقلاب کے بعد اشرف نیویارک، پیرس اور فرانسیسی ریویرا میں وقت گزارتی رہیں۔ سات جنوری 2016 کو مناکو میں الزائمر کے مرض کے بعد 96 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔
وفات کے وقت وہ پہلوی خاندان کی سب سے عمر رسیدہ فرد تھیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نےلکھا کہ شہزادی اشرف کی بعد کی زندگی شیکسپیئر کے المیے سے کم نہ تھی۔
’انقلاب کے فوراً بعد پیرس کی ایک سڑک پر ان کے بیٹے کو مار ڈالا گیا، ان کے جڑواں بھائی کینسر سے وفات پا گئے، اُن کی ایک بھتیجی 2001 میں لندن میں منشیات کی زیادتی سے مر گئی اور ایک بھتیجے نے دس برس بعد بوسٹن میں خودکشی کر لی۔‘
ولیم گرائمز نے نیویارک ٹائمز میں لکھا کہ ’اشرف پہلوی ایک دلکش مگر متنازع شخصیت تھیں۔ مغربی سوچ کی حامل، جدید، نفاست سے ملبوس، فرانسیسی اور انگریزی زبانوں میں روانی سے بات کرنے والی، اعلیٰ طبقے کی زندگی کی شوقین۔‘
’اُن کی شہرت ایک سخت گیر سیاسی کھلاڑی کی تھی، جو اپنے بھائی، شاہ محمد رضا پہلوی کی آمرانہ حکومت کی کھلم کھلا وکالت کرتی تھیں۔‘
اے پی کے مطابق ان نے کہنا تھا: ’میرے بھائی کی موت کے بعد، اگر ہمارے پاس واقعی وہ 65 ارب ڈالر ہوتے جن کا لوگ دعویٰ کرتے ہیں، تو ہم نے ایران کو پلک جھپکتے ہی واپس لے لینا تھا۔‘
وقت کے ساتھ وہ عوامی منظرنامے سے آہستہ آہستہ اوجھل ہوتی گئیں، تاہم 1994 میں وہ امریکی صدر رچرڈ نکسن کی آخری رسومات میں شریک ہوئیں۔
انھوں نے ہمیشہ کہا کہ انھیں اپنی زندگی پر کوئی پچھتاوا نہیں۔
’میں اگر دوبارہ جیئی تو وہی سب کچھ کروں گی۔ سب گزر گیا ہے، اب صرف یادیں ہیں۔ لیکن وہ پچاس سال— عظمت اور جاہ و جلال سے بھرپور تھے۔‘