جب سے ایشیا کپ کے شیڈول کا اعلان کیا گیا ہے انڈیا میں پاکستان کے خلاف میچ کھیلنے پر سوال اٹھنے لگے ہیں اور سیاسی حلقوں میں بھی اس پر مباحثہ ہو رہا ہے۔ یہاں تک کہ گذشتہ روز اس کی بازگشت انڈین پارلیمنٹ (لوک سبھا) میں بھی سنی گئی۔
انڈیا اور پاکستان کو ایک ہی گروپ میں رکھا گيا ہے اور دونوں 14 ستمبر کو مدمقابل ہوں گےجب سے ایشیا کپ کے شیڈول کا اعلان کیا گیا ہے انڈیا میں پاکستان کے خلاف میچ کھیلنے پر سوال اٹھنے لگے ہیں اور سیاسی حلقوں میں بھی اس پر مباحثہ ہو رہا ہے۔ یہاں تک کہ گذشتہ روز اس کی بازگشت انڈین پارلیمنٹ (لوک سبھا) میں بھی سنی گئی۔
مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اور حیدرآباد سے رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے پارلیمان میں حکومت سے سوال کیا کہ جب پاکستان کے ساتھ سارے تعلقات منقطع ہیں تو کرکٹ کس ضمیر کے ساتھ کھیلی جا رہی ہے۔
دوسری جانب انڈیا کے سابق کرکٹر اور کپتان سوربھ گانگولی نے انڈیا پاکستان میچ کے حق میں بات کی جبکہ سابق کپتان محمد اظہرالدین ان سے مختلف رائے رکھتے ہیں۔
اس سے قبل گذشتہ دنوں انڈیا کے بعض سینیئر کھلاڑیوں نے لندن میں جاری لیجنڈز کرکٹ لیگ میں پاکستان کے خلاف کھیلنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہونے والا میچ منسوخ ہو گیا۔
’ضمیر گوارا نہیں کرتا کہ پاکستان اور انڈیا کا میچ دیکھوں‘
گذشتہ روز ایوان زیریں (لوک سبھا) میں پاکستان کے خلاف انڈین کے ’آپریشن سندور‘ پر مباحثے کے دوران اسدالدین اویسی نے جن خیالات کا اظہار کیا اسے لوگ سوشل میڈیا پر شیئر کر رہے ہیں۔
اسدالدین اویسی نے پارلیمان میں خطاب سے کہا کہ ’کیا آپ کا ضمیر اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ بیسرن میں مارے گئے افراد کے لواحقین سے انڈیا کا پاکستان کے ساتھ کرکٹ میچ دیکھنے کے لیے کہیں؟۔۔۔ ہم پاکستان کا 80 فیصد پانی روک رہے ہیں، یہ کہہ کر کہ پانی اور خون ایک ساتھ نہیں بہے گا، کیا ایسے میں آپ یہ میچ کھیلیں گے؟ میرا ضمیر مجھے اس میچ کو دیکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ کیا اس حکومت کے پاس یہ ہمت ہے کہ مرنے والوں کے لواحقین کو فون کر کے کہیں کہ دیکھو ہم نے بدلہ لیا، اب تم پاکستان کا میچ دیکھو۔ بڑے افسوس کی بات ہے۔‘
کانگریس رہنما اور ترجمان اتل لونڈھے پاٹل نے انڈین خبر رساں ادارے پی ٹی آئی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ میچ نہیں ہونا چاہیے۔ جب کہا جاتا ہے کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے، جب بات چیت اور دہشت گردی ایک ساتھ نہیں ہو سکتے، تو پھر دہشت گردی اور کرکٹ ایک ساتھ کیسے چل سکتے ہیں۔ ہم نے پاکستان کو کافی مواقع دیے ہیں، اگر یہ کرکٹ میچ ہوا تو وہ ان خواتین کو کیا جواب دیں گے جن کا ’سندور‘ پہلگام دہشت گرد حملے میں پاکستان نے چھین لیا تھا۔‘
یاد رہے کہ پہلگام حملے میں ہلاک ہونے والے تمام 26 سیاح مرد تھے اور مرنے والوں میں نئے شادی شدہ مرد بھی تھے۔ اسی تناظر میں انڈیا کی جانب سے پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کو ’آپریشن سندور‘ کا نام دیا گیا تھا۔
پاکستان نے ہمیشہ ان حملوں میں ملوث ہونے سے متعلق انڈین الزامات کو مسترد کیا اور آزادانہ تحقیقات کروانے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس میں تعاون کی پیشکش بھی کی۔
ان کے برعکس سابق انڈین کپتان اور بی سی سی آئی کے سابق سربراہ سوربھ گنگولی انڈیا اور پاکستان کے درمیان میچ کے حق میں ہیں۔
گذشتہ روز انھوں نے انڈین میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈیا دہشت گردی کے خلاف ضرور سخت قدم اٹھائے لیکن کرکٹ جاری رہنا چاہیے۔‘
انھوں نے خبر رساں ادارے اے این آئی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’دہشت گردی نہیں ہونی چاہیے، اسے روکنے کی ضرورت ہے۔ انڈیا نے دہشت گردی کے خلاف سخت موقف اپنایا لیکن کھیل کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔‘
گنگولی کے اس بیان پر بہت سے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ انھیں گنگولی سے ایسی توقع نہیں تھی جبکہ ایک صارف نے پہلگام حملے کے بعد ان کے موقف کی ایک ویڈیو شیئر کی اور پوچھا کہ کیا یہ وہی شخص ہیں۔
اسی طرح سابق کپتان محمد اظہرالدین نے کہا کہ ’موجودہ صورتحال میں پاکستان کے ساتھ میچ کھیلنا مناسب نہیں۔‘
اظہرالدین نے خبر رساں ادارے آئی اے این ایس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگرچہ یہ ان کی ذاتی رائے ہے لیکن حتمی فیصلہ حکومت اور بی سی سی آئی پر منحصر ہے۔
https://twitter.com/ANI/status/1949474845340901476
’منتخب قوم پرستی انتہا پر‘
وزیر داخلہ امت شاہ کی پہلگام میں مارے جانے والے لوگوں کے تابوت پر پھول پیش کرتی ہوئی تصویر شیئر کرتے ہوئے الفا ڈیفینس نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’اگر میری کرکٹ ٹیم پاکستان کے خلاف ایشیا کپ نہ کھیلنے کا فیصلہ کرتی ہے اور انھیں پوائنٹس دیتی ہے تو مجھے کوئی غم نہیں۔‘
بھیکو مہاترے نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’بی سی سی آئی ایشیا کپ سے دستبردار نہیں ہو سکتی، شیڈول کے مطابق انڈیا پاک میچ ہونا ہے۔‘
انھوں نے مزید لکھا کہ ’بی سی سی آئی کو ختم کر دیا جائے۔ بی سی سی آئی کا کوئی بھی کھلاڑی جو پاکستان کے خلاف کھیلتا ہے اس کا تاحیات بائیکاٹ کیا جائے۔ کرکٹ کو انڈین حکومت کی کھیلوں کی وزارت کے تحت لایا جانا چاہیے۔‘
سومت سوربھ نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’میں ہر اس سپانسر کا بائیکاٹ کروں گا جو انڈین کرکٹ میچوں میں اشتہار دے رہا ہے۔ یہ میرا چھوٹا سا احتجاج ہے۔ اس سے ان کے منافع میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی لیکن میں کسی ایسی تنظیم کو سپورٹ نہیں کروں گا جو پاکستان اور انڈیا کرکٹ کو سپورٹ کر رہی ہو۔‘
اسی طرح موسا جٹ نامی ایک صارف نے لکھا: ’منتخب قوم پرستی اپنی انتہا پر۔ پاکستانی اداکاروں کے ساتھ پنجابی فلم پر پابندی لگ گئی لیکن انڈیا اور پاکستان کرکٹ میچز ٹھیک ہیں۔ یہ کیسی منتطق ہے؟ منافقت اپنے عروج پر ہے۔‘
ایشیا کپ کا شیڈول
ایشیا کپ انڈیا میں ہونا تھا لیکن اب یہ متحدہ عرب امارات میں ہو رہا ہے۔ 9 ستمبر سے اس کی ابتدا ہو رہی ہے جبکہ فائنل 28 ستمبر کو ہو گا۔
انڈیا اور پاکستان کو ایک ہی گروپ میں رکھا گيا ہے اور دونوں 14 ستمبر کو مدمقابل ہوں گے۔
ایک ہی گروپ میں ہونے سے اس بات کا امکان بڑھ گيا ہے کہ روایتی حریف اس ٹورنامنٹ میں دو بار ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہو سکتے ہیں۔
دونوں ٹیموں نے سنہ 2013 کے بعد سے کوئی دو طرفہ کرکٹ نہیں کھیلی اور صرف آئی سی سی ایونٹس اور ایشیا کپ میں ایک دوسرے کے خلاف میدان میں اتری ہیں۔