ڈسڑکٹ پولیس آفیسر سوات محمد عمر خان کے مطابق مرکزی ملزمان باپ بیٹا ہیں، جن کو عدالت میں پیش کر کے ان کا تین روزہ ریمانڈ بھی حاصل کر لیا گیا ہے۔
مبینہ تشدد سے ہلاک ہونے والے 12 سالہ فرحان کے والد روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم ہیں (فائل فوٹو)پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر سوات کی پولیس کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے ایک مدرسے میں اساتذہ کے مبینہ تشدد سے 12 سالہ بچے کی ہلاکت کے بعد مرکزی ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔
ڈسڑکٹ پولیس آفیسر سوات محمد عمر خان کے مطابق مرکزی ملزمان باپ بیٹا ہیں، جن کو عدالت میں پیش کر کے ان کا تین روزہ ریمانڈ بھی حاصل کر لیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ سوات میں ایک دینی مدرسے کے اساتذہ کی جانب سے مبینہ تشدد سے 12 سالہ بچے کی ہلاکت کے بعد ایف آئی آر مقتول 12 سالہ فرحان کے چچا کی مدعیت میں خوازہ خیلہ پولیس نے درج کی تھی۔
سوات پولیس کا کہنا تھا کہ بچے کے قتل اور دیگر طالبعلموں پر تشدد کے دو الگ الگ مقدمات درج کر کے مجموعی طور پر 11 افراد کو گرفتار کیا گیا تاہم دو ملزمان مفرور ہیں۔
سوات پولیس کے مطابق دونوں مرکزی ملزمان فرار ہونے کی کوشش میں مصروف تھے اور اپنی جگہ متواتر تبدیل کر رہے تھے جبکہ انھوں نے اپنے موبائل فون بھی بند کر رکھے تھے۔
سوات پولیس کے مطابق پولیس نے پہلے ہی اپنا نیٹ ورک فعال کیا ہوا تھا اور ملزمان کی موجودگی کی اطلاعات ملنے پر چھاپہ مار کر انھیں گرفتار کیا گیا۔
سوات پولیس کے مطابق اب مدرسے واقعہ کے تمام ملزمان گرفتار ہو چکے ہیں۔
اس سے قبل مقامی انتظامیہ نے مدرسہ سیل کر کے وہاں زیر تعلیم 160 طلبا کو بھی اُن کے والدین کے حوالے کر دیا تھا۔
کیا واقعہ پیش آیا؟
مبینہ تشدد سے ہلاک ہونے والے 12 سالہ طالبعلم فرحان کے چچا نے مقامی پولیس کو بتایا کہ اُن کا بھتیجا گذشتہ تین سال سے مدرسہ محزن العلوم (چالیار) میں زیر تعلیم تھا۔ انھوں نے پولیس کو بتایا کہ بچے کے والد ملازمت کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم ہیں۔
ایف آئی آر کے مطابق بچے اپنی موت سے چار روز قبل بچہ چھٹیوں پر گھر آیا تھا، تاہم اُس کا إصرار تھا کہ وہ واپس مدرسے نہیں جائے گا۔ لواحقین کے مطابق وجہ پوچھنے پر بچے نے بتایا کہ مدرسے کے مہتمم کا بیٹا مبینہ طور پر اُس سے ’ناجائز مطالبات‘ کرتا تھا۔
مدعی مقدمہ یعنی بچے کے چچا کے مطابق اِس پر وہ خود بچے کو اپنے ساتھ مدرسے لے کر گئے جہاں اُنھوں نے مدرسے کے مہتمم محمد عمر، اُن کے بیٹے احسان اللہ اور مدرسے کے ناظم عبداللہ سے ملاقات کی۔
بچے کے چچا نے بی بی سی کو بتایا کہ جب وہ اپنے بھتیجے کے ہمراہ مدرسے گئے تو ان تمام ملزمان نے قران پر ہاتھ رکھ کر اور قسمیں کھا کر یقین دلایا کہ ایسا کچھ نہیں اور بچہ پڑھائی سے بھاگنے کے بہانے بنا رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ مدرسے کے عہدیداروں کے اس بیان پر وہ اور ویڈیو کال پر موجود بچے کے والد مطمئن ہو گئے اور بچے کو مدرسے چھوڑ دیا گیا۔
ایف آئی آر کے مطابق اُسی روز شام کے اوقات میں بچے کے چچا کو مدرسے کے ناظم کا فون آیا جنھوں نے بتایا کہ فرحان غسل خانے میں گِر کر ہلاک ہو گیا۔
بچے کے چچا کے مطابق جب وہ یہ اطلاع ملنے کے بعد خوازہ خیلہ ہسپتال پہنچے تو وہاں ان کے بھتیجے کی ’تشدد زدہ لاش پڑی ہوئی تھی۔‘

’صرف چہرہ تشدد کے نشانات سے خالی تھا‘
فرحان کے چچا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے تو اُسے اچھا انسان بنانے کے لیے مدرسے میں داخل کروایا تھا، ہمیں نہیں معلوم تھا کہ یہ مدرسہ نہیں مذبح خانہ ہے۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ جب بچے کی میت کو غسل دیا گیا تو اس کے چہرے کے علاوہ پورے جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔
بچے کے چچا کے مطابق انھیں مدرسے کے دیگر طالبعلموں نے بتایا کہ ’جب میں (چچا) عصر کے بعد فرحان کو مدرسے چھوڑ کر گیا تو اس کے بعد مدرسے کے تین، چار لوگ جن میں مدرسے کا مہتمم، اس کا بیٹا اور مدرسے کا ناظم شامل ہیں، نے لاٹھیوں اور زنجیروں سے اس پر تشدد شروع کر دیا۔‘
’مجھے کئی طالب علموں نے بتایا کہ ایک شخص اس پر تشدد کرتا اور جب وہ تھک جاتا تو دوسرا شروع ہو جاتا۔‘
انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’اس دوران جب بچہ پانی مانگتا تو تشدد کرنے والے دوسرے بچوں سے کہتے کہ اگر اسے پانی لا کر دیا تو تمہارا بھی یہی حشر ہو گا۔‘
سوات کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) محمد عمر خان نے میڈیا کو بتایا کہ 21 جولائی کو پیش آنے والے اس واقعے کا مقدمہ بچے کے چچا کی مدعیت میں قتل، تشدد اور چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ کی دفعات کے تحت درج کیا گیا۔
ڈی پی او سوات نے کہا کہ مدرسہ میں دیگر بچوں پر بھی جسمانی تشدد کے شواہد ملنے پر دیگر اساتذہ کے خلاف پولیس کی مدعیت میں مقدمہ درج کرکے انھیں گرفتار کر لیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے مدرسہ سے لاٹھیاں اور زنجیریں بھی برآمد کی ہیں جبکہ اسسٹنٹ کمشنر خوازہ خیلہ نے مدرسہ کو سرکاری طور پر سیل کر دیا۔
محمد عمر خان کے مطابق مدرسے میں زیرِ تعلیم 160 کے قریب بچوں کو ان کے والدین کے حوالے کر دیا گیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ضلع بھر میں واقع غیر رجسٹرڈ مدارس کی فہرست مرتب کی جا رہی ہے اور ان کے خلاف بھی سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
’مدرسوں میں چیک اینڈ بیلنس کا نظام قائم کیا جائے‘
سوات میں انسانی حقوق کے کارکن افتخار افضل خان کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد وہ مدرسے کے مختلف طالب علموں سے ملے جنھوں نے بتایا کہ فرحان کے قتل کے مقدمے میں نامزد ملزمان دیگر بچوں سے بھی اس طرح کے مطالبات کرتے آئے تھے۔
’ایک بچے نے بتایا کہ ایک مرتبہ وہ اپنی ضرورت سے اٹھا تو اس نے دیکھا کہ ایک نامزد ملزم نامناسب حالات میں ہے۔ میرے دیکھنے پر اس نے مجھے تشدد کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اگر میں نے یہ بات کسی سے کی تو وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑے گا۔‘
افتخار افضل خان کا کہنا تھا کہ اس واقعے پتا چلتا ہے کہ مدرسوں پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام قائم کرنا کتنا ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو اس حوالے سے ایک بہتر پالیسی بنانا ہو گی اور حکام کو مدرارس کے باقاعدگی سے دورے بھی کرنے چاہییں۔