مسعود پزشکیان اور سیاسی کشمکش کے بیچ دم توڑتی امیدیں: ’ایران میں اگلا بحران باہر سے نہیں بلکہ ملک کے اندر ہی سے جنم لے گا‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ایران کی موجودہ قیادت اپنا راستہ نہیں بدلتی تو آئندہ بحران نہ تو فضائی حملوں کی صورت میں آئے گا اور نہ ہی پابندیوں کی وجہ سے، بلکہ یہ بحران ملک کے اندر ہی سے جنم لے گا۔
تصویر
Getty Images

جولائی 2024 میں مسعود پزشکیان نے جب ایران کے صدر کے طور پر حلف اٹھانے کے اگلے ہی روز صدارتی محل میں قدم رکھا تو وہ صرف ایک بحران زدہ ملک کی باگ ڈور نہیں سنبھال رہے تھے بلکہ وہ براہِ راست ایک سیاسی طوفان کے بیچ آن کھڑے ہوئے تھے۔

حلف برداری کی تقریب کے چند گھنٹوں بعد ہی ایک دھماکہ خیز خبر سامنے آئی: حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ، جو ایرانی صدر کی حلف برداری کی تقریب میں بطور مہمانِ خصوصی شریک تھے، ایک اسرائیلی فضائی حملے میں مارے گئے۔

اسماعیل ہنیہ پر یہ حملہ تہران کے قلب میں ہوا تھا۔ اس غیر معمولی واقعے نے پورے خطے کو ہلا کر رکھ دیا اور اقتدار کی پُرامن منتقلی کی ہر امید خاک میں ملا دی۔ یہ واقعہ اسلامی جمہوریہ ایران کی تاریخ کے سب سے ڈرامائی اور غیر یقینی دور کی شروعات ثابت ہوا۔

حلف برداری کی تقریب کے چند گھنٹوں بعد ہی ایک دھماکہ خیز خبر سامنے آئی: حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ جو اس موقع پر مہمانِ خصوصی کے طور پر موجود تھے، اسرائیلی فضائی حملے میں ہلاک ہو گئے۔
Iranian Presidency handout via Getty Images
اسماعیل ہنیہ ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری میں شریک تھے اور اس تقریب کے اختتام کے بعد چند ہی گھنٹوں میں انھیں تہران میں ہوئے اسرائیلی فضائی حملے میں مار دیا گیا

امید سے مشکلات تک کا سفر

مسعود پزشکیان ایک قومی سانحے کے بعد اقتدار میں آئے تھے۔ اُن کے پیش رو سخت گیر صدر ابراہیم رئیسی، ایران کے وزیر خارجہ کے ہمراہ ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاک ہوئے تھے اور اب مسعود ان کی جگہ لے رہے تھے۔

ابراہیم رئیسی کے ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاکت ایک ایسا غیر معمولی واقعہ تھا جس نے ایران کو ہنگامی صدارتی انتخابات کی جانب دھکیل دیا تھا۔

اِسی مختصر وقت میں مسعود پزشکیان جو ایک ماہرِ امراضِ قلب، سابق وزیر صحت اور رکنِ پارلیمان رہ چکے ہیں، نے سیاسی میدان میں تیزی سے مقبولیت حاصل کی۔

ایرانی صدر مسعود پزشکیان 2 جنوری 2025 کو دارالحکومت تہران میں ایک تقریب کے دوران خطاب کر رہے ہیں جو عراق میں امریکی ڈرون حملے میں پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر قاسم سلیمانی کے قتل کی پانچویں سالگرہ کے موقع پر منعقد ہوئی۔
AFP via Getty Images)
ایرانی صدر مسعود پزشکیان 2 جنوری 2025 کو دارالحکومت تہران میں ایک تقریب کے دوران خطاب کر رہے ہیں جو عراق میں امریکی ڈرون حملے میں پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر قاسم سلیمانی کے قتل کی پانچویں سالگرہ کے موقع پر منعقد ہوئی۔

ان کے معتدل لہجے، حجاب کے نفاذ اور سماجی پابندیوں پر نرم رویے اور مغرب کے ساتھ تصادم کی بجائے بات چیت کا وعدہ ایک ایسے ملک کے لیے امید کی کرن بنے جو عالمی پابندیوں کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا۔

لیکن صدارت کے چند ہی مہینوں میں اسرائیل نے ایران پر تباہ کن حملوں کی ایک لہر کا آغاز کیا جس کا اختتام امریکہ کی جانب سے ایران کے جوہری مراکز پر حملے پر ہوا۔

ان معاملات کے باعث ایران کی پہلے سے نازک معیشت مزید کمزور ہو گئی۔ ملک بھر میں توانائی اور پانی کی شدید قلت پیدا ہو گئی۔ مسعود کی بطور صدر تعیناتی کے بعد سنہ 2024 کی گرمیوں میں عارضی طور پر پیدا ہونے والی خوش فہمی اب گہری مایوسی میں بدلتی نظر آ رہی ہے۔

پزشکیان جو ایک ماہرِ امراضِ قلب، سابق وزیر صحت اور رکنِ پارلیمان رہ چکے ہیں، نے سیاسی میدان میں تیزی سے مقبولیت حاصل کی۔
Majid Saeedi / Getty Images
پزشکیان ماضی میں ایران کے وزیر صحت رہ چکے ہیں۔ ابراہیم رئیسی کی ہلاکت کے بعد انھوں نے سیاسی میدان میں تیزی سے مقبولیت حاصل کی تھی

مگر کیا غلط ہوا؟

مختصر جواب یہ ہے کہ ایران میں صدر حکومت چلاتا ہے لیکن وہ حکمرانی نہیں کرتا۔ دوسرے بہت سے ممالک کے برعکس ایران کا صدر ملک کا سب سے طاقتور شخص نہیں ہوتا۔

اسلامی جمہوریہ کے آئین کے تحت اصل اختیار رہبرِ اعلیٰ کے پاس ہے۔ سنہ 1989 سے یہ منصب آیت اللہ علی خامنہ ای کے پاس ہے جو فوج، عدلیہ، خفیہ اداروں اور خاص طور پر خارجہ پالیسی پر حتمی اختیار رکھتے ہیں۔

پزشکیان صدر تو بن گئے لیکن اُن کی طاقت ہمیشہ نظام کے غیر منتخب طاقتور مراکز جیسے پاسدارانِ انقلاب، رہبری شوریٰ اور رہبرِ اعلیٰ کے دفتر کے دائرے میں محدود ہیں۔

یہاں تک کہ صدر کی کی کابینہ کے انتخاب کے لیے بھی اُوپر سے خاموش منظوری درکار ہوتی ہے۔

اور جب بات سفارتکاری کی ہو، چاہے جوہری پروگرام ہو یا خطے میں کشیدگی کا جواب، پزشکیان اکثر فیصلہ ساز کی بجائے ترجمان کا کردار ادا کرتے ہیں اور ایسے فیصلے پیش کرتے ہیں جو کہیں اور لیے گئے ہوں۔

ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای 1989 سے اس عہدے پر فائز ہیں اور فوج، عدلیہ، خفیہ اداروں اور خارجہ پالیسی پر حتمی اختیار رکھتے ہیں۔
Majid Saeedi / Getty Images
اسلامی جمہوریہ کے آئین کے تحت اصل اختیار صدر کے بجائے رہبرِ اعلیٰ کے پاس ہے

امریکی الیکشن اور ایران پر ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے اثرات

ایرانیوں کے درمیان ایک پرانا اور تلخ مذاق عام ہے: ’ہمیں امریکہ کے انتخابات میں ووٹ دینے کا حق ہونا چاہیے کیونکہ اثرات تو ہمیں ہی بھگتنا پڑتے ہیں۔‘

یہ بات نومبر 2024 میں بالکل سچ ثابت ہوئی جب ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھر وائٹ ہاؤس پہنچ گئے اور بہت سے ایرانیوں کے نزدیک یہ تہران کے لیے بدترین ممکنہ منظرنامہ تھا۔

اپنے پہلے دورِ صدارت میں ہی ٹرمپ نے ایران اور امریکہ کے تعلقات کو شدید تناؤ کی نہج پر لا کھڑا کیا تھا: انھوں نے یکطرفہ طور پر برسوں کی محنت سے طے پانے والے جوہری معاہدے سے دستبرداری اختیار کی، سخت اقتصادی پابندیاں عائد کیں اور ایران کے بااثر ترین فوجی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا حکم دیا۔

اُن کی واپسی خطرے کی گھنٹی تھی اور ایران کو اس کا بخوبی اندازہ تھا۔

جلد ہی اسرائیل نے خطے میں ایران کے اتحادی گروپوں کے خلاف فوجی کارروائیوں میں شدت پیدا کر دی: غزہ میں حماس، لبنان میں حزب اللہ اور یمن میں حوثی گروہ نشانے پر آ گئے۔

اس کے بعد پورے سال کشیدگی اور محاذ آرائی کا سلسلہ جاری رہا۔

ایسے وقت میں پزشکیان نے بطور صدر عہدہ سنبھالا۔ ایک معتدل رہنما جو ایک بڑے تنازع کے درمیان صدر بن کر آ گیا تھا مگر اس کے پاس حالات کا رُخ موڑنے کا کوئی اختیار ہی نہیں تھا۔

صدر پزشکیان نے صدارت سنبھالنے کے وقت سفارت کاری کے ذریعے ملک پر دباؤ کم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
Majid Saeedi / Getty Images
صدر پزشکیان نے صدارت سنبھالنے کے وقت سفارتکاری کے ذریعے ملک کو دباؤ سے نکالنے کا وعدہ کیا تھا

’آپ زیلنسکی نہیں ہیں‘

ایران، اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ کے دوران صدر پزشکیان کے رویے نے عوامی مایوسی کو مزید بڑھا دیا۔ یہ جنگ 13 جون 2025 کو اُس وقت شروع ہوئی جب اسرائیل نے پہلی بار براہِ راست ایرانی سرزمین پر بڑے پیمانے پر حملہ کیا جو کہ تاریخ کا ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔

ایران کے کئی شہروں پر شدید فضائی حملے کیے گئے جن میں بڑی تعداد میں عام شہری جان سے گئے۔

ایسے نازک وقت میں جب قوم کو قیادت اور حوصلے کی ضرورت تھی، پزشکیان ایک بااعتماد رہنما کے طور پر سامنے آنے میں ناکام رہے۔

جب شہر تباہ ہو رہے تھے اور اعلیٰ فوجی افسران مارے جا رہے تھے، صدر بھی سپریم لیڈر کی طرح زیادہ تر خاموش رہے۔ نہ کوئی پُرجوش خطاب ہوا، نہ کوئی فیصلہ کن موجودگی دکھائی دی اور نہ ہی عوام کو کوئی واضح پیغام ملا۔

پزشکیان کا انداز دوسرے ممالک کے جنگی حالات میں رہنماؤں کی موجودگی سے بہت مختلف تھا۔ کئی ایرانیوں نے سوشل میڈیا پر لکھا: ’آپ زیلنسکی نہیں ہیں‘: یوکرینی صدر کی طرح ہمت، مزاحمت اور قیادت کی علامت بننے کے بجائے پزشکیان پس منظر میں گم ہو گئے۔

یہ ایک ایسا لمحہ تھا جب قوم کو ہمت بندھانے، رہنمائی دینے اور اعتماد دلانے کی ضرورت تھی لیکن پزشکیان کا انداز خاموش اور بہت سے ایرانیوں کے لیے بے معنی محسوس ہوا۔

حجاب، ظلم و جبر اور سماجی بحران

14 جون 2024 کو تہران میں ایرانی خواتین سے ملاقات کے دوران مسعود پزشکیان بطور صدارتی امیدوار اپنی بیٹی کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں
Atta Kenare / AFP via Getty Images
14 جون 2024 کو تہران میں ایرانی خواتین سے ملاقات کے دوران مسعود پزشکیان بطور صدارتی امیدوار اپنی بیٹی کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں

ایران میں سماجی صورتحال آج بھی اتنی ہی کشیدہ ہے۔ سنہ 2022 میں ملک میں پھیلنے والی ’زن، زندگی، آزادی‘ کی تحریک تو کمزور ہوئی ہے مگر اس کے پیچھے چھپے مطالبات اور غصہ اب بھی برقرار ہے۔

خواتین اب بھی حجاب کے قوانین کی خلاف ورزی کر رہی ہیں جو ان کے لیے ذاتی خطرات کا سبب بنتی ہے۔ سرگرم کارکن، صحافی اور طلبہ گرفتار کیے جا رہے ہیں۔

پزشکیان نے ’قومی مصالحت‘ اور ’باہمی احترام‘ کا مطالبہ کیا ہے۔

انھوں نے عوامی سطح پر کہا: ’میں حیا اور حجاب کے قانون کو نافذ نہیں کر سکتا کیونکہ یہ لوگوں کے لیے مسائل پیدا کرتا ہے اور میں عوام کے خلاف کھڑا نہیں ہوں گا۔‘

لیکن بہت سے ایرانی، خاص طور پر نوجوان، ایسی باتوں کو صرف علامتی اور بعض اوقات بے معنی سمجھتے ہیں۔ اُن کا ماننا ہے کہ جب تک بنیادی تبدیلی نہ آئے، نرم الفاظ کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا۔

ایران کا اگلا بحران باہر سے نہیں آئے گا بلکہ ملک کے اندر ہی جنم لے گا

پزشکیان کی صدارت کے ایک سال بعد، زیادہ تر ایرانیوں کی زندگی میں بہت کم تبدیلی آئی ہے۔

مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، لوڈشیڈنگ جاری ہے اور سیاسی آزادیوں پر اب بھی پابندیاں قائم ہیں۔ ریاست اور معاشرے کے درمیان خلیج اور گہری ہو چکی ہے۔

صدر اتحاد کی بات کر سکتے ہیں لیکن اتحاد کا اعلان صرف الفاظ سے نہیں ہوتا، خاص طور پر جب اصل طاقت ان کے دائرہ اختیار سے بہت دور ہو۔

سفارتی، اقتصادی اور سماجی اعتبار سے ایران کو ایک ایسے بم کا سامنا ہے جو کبھی بھی پھٹ سکتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ایران کی قیادت اپنا راستہ نہیں بدلتی یا بدلنے کا ارادہ نہیں رکھتی تو آئندہ بحران نہ تو فضائی حملوں کی صورت میں آئے گا اور نہ ہی پابندیوں کی وجہ سے بلکہ یہ بحران ملک کے اندر ہی جنم لے گا۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow