انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے منگل کی شام پارلیمنٹ میں آپریشن سندور پر بحث کا جواب دیتے ہوئے پہلگام حملے میں سکیورٹی کی ممکنہ غفلت، انڈین جہازوں کے گرنے کی خبروں اور جنگ بندی کرانے کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دعووں کے بارے میں اپوزیشن کے سوالوں کا جواب نہیں دیا۔
انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے منگل کی شام پارلیمنٹ میں آپریشن سندور پر ہونے والی بحث سمیٹتے ہوئے پہلگام حملے میں مبینہ سکیورٹی غفلت، پاکستانی فضائیہ کے ہاتھوں انڈین طیاروں کے نشانہ بنائے جانے کی خبروں اور جنگ بندی کروانے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دعوؤں سے متعلق اپوزیشن کے سوالوں کا جواب نہیں دیا ہے۔
اپنی ایک گھنٹہ 40 منٹ طویل تقریر میں انھوں نے پاکستان سے زیادہ اپوزیشن جماعت کانگریس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا ’کانگریس پاکستان کی ترجمان بن چکی ہے‘۔ انھوں نے کہا کہ انڈیا میں دہشت گردی اور پاکستان اور چین سے متعلق سارے مسائل نہرو، اندرا گاندھی اور منموہن سنگھ کی کمزور اور غیر دانشمندانہ پالیسیوں کے سبب پیدا ہوئے۔
اگرچہ انھوں نے اہم سوالوں کا جواب دینے سے تو گریز کیا مگر ’آپریشن سندور‘ میں اپنے ملک کی فوجی کامیابیوں سے متعلق بہت سے پرانے دعوؤں کو دہرایا اور چند نئے دعوے بھی کیے۔
وزیر اعظم مودی کا کہنا تھا کہ آپریشن سندور نے پاکستان کی فوجی طاقت کو نیست و نابود کر دیا۔ ’اب پاکستان کو پتہ چل چکا ہے کہ اگر اس کی جانب سے دوبارہ کوئی دہشت گردانہ کاروائی ہوئی تو اسے منھ توڑ جواب دیا جائے گا، اِسی لیے آپریشن سیندور کو ختم نہیں کیا گیا ہے بلکہ اسے صرف روکا گیا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان کو اب انڈیا کے مستقبل سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘
وزیر اعظم مودی نے دعویٰ کیا کہ ’فوج نے آپریشن سندور کے دوران 22 منٹ کے اندر اندر سارے طے شدہ مقاصد حاصل کر لیے تھے۔ پہلی بار پاکستان کے کونے کونے میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان کی جوہری دھمکیوں کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔‘
نریندر مودی کے طویل خطاب سے قبل اپوزیشن رہنما راہل گاندھی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے حکومت سے پوچھا تھا کہ کیا پاکستان سے مئی میں ہونے والی جنگ میں انڈین فضائیہ کے کئی جہاز مار گرائے گئے تھے؟ راہل نے مودی سے یہ بھی پوچھا تھا کہ ’اگر صدر ٹرمپ نے جنگ بندی نہیں کرائی تھی تو وہ (مودی) پارلیمنٹ میں اِس کی تردید کریں اور یہ کہیں کہ امریکہ کے صدر جھوٹ بول رہے ہیں۔‘
راہل نے یہ بھی کہا کہ آپریشن سندور نے پاکستان اور چین کو ایک ساتھ لا کھڑا کیا ہے، جو بقول اُن کے، مستقبل میں انڈیا کے لیے بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
مودی نے اپوزیشن کے اس نوعیت کے سبھی سوالوں کو ’پاکستان کا بیانیہ‘ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’کانگریس کے پاس اب کہنے کے لیے کچھ ہے نہیں۔ کانگریس کو پاکستان سے مدعے (ایشوز) درآمد کرنے پڑ رہے ہیں۔ وہ پاکستان کی ترجمان بن چکی ہے۔‘
انھوں نے اس سوال پر کہ انڈیا کو بین الاقوامی سطح پر حمایت نہیں ملی، کہا کہ دنیا کے سبھی ملکوں نے پہلگام حملے کی مذمت کی تھی اور تین ممالک کو چھوڑ کر دنیا کا کوئی بھی ملک پاکستان کے ساتھ نہیں کھڑا ہوا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ کسی بھی ملک نے پاکستان کے خلاف فوجی کاروائی کو روکنے کے لیے نہیں کہا۔
اگرچہ وزیر اعظم مودی نے یہ کہا کہ انھیں کسی بھی عالمی رہنما نے جنگ بندی کے لیے نہیں کہا لیکن انھوں نے اتنا ضرور بتایا کہ امریکہ کے نائب صدر نے انھیں نو مئی کی رات کو فون کیا تھا۔
امریکی نائب صدر کی فون کال کا احوال
انھوں نے پارلیمان کو بتایا کہ ’9 مئی کی رات امریکہ کے نائب صدر مجھ سے بات کرنے کے لیے ایک گھنٹے تک کوشش کرتے رہے۔ میری فوج کے ساتھ میٹنگ چل رہی تو میں فون نہیں اٹھا سکا۔ پھر بعد میں انھیں میں نے کال بیک کیا۔ میں نے کہا کہ آپ کا تین چار بار فون آ گیا، کیا ہوا ہے۔ تو امریکہ کے نائب صدر نے فون پر بتایا کہ پاکستان انڈیا کے خلاف بہت بڑا حملہ کرنے والا ہے۔ میرا یہ جواب تھا کہ اگر پاکستان کا یہ ارادہ ہے تو اسے بہت مہنگا پڑے گا۔ یہ میں نے امریکہ کے نائب صدر کو کہا۔ اگر پاکستان حملہ کرے گا ہم اس کا جواب اس سے بھی بڑے حملے سے دیں گے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اس کے بعد میرا جواب تھا کہ ہم گولی کا جواب گولے سے دیں گے۔ یہ نو تاریخ کی بات ہے اور ہم نے 10 تاریخ کو پاستان کی فوجی طاقت کو نیست و نابود کر دیا۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ اگر انڈین افواج نے پاکستان کے خلاف بہت مؤثر کاروائی کی تھی اور اس کے پورے فضائی دفاعی نظام کو ناکارہ بنا دیا تھا تو پھر اس عسکری ایڈوانٹیج کی صورتحال میں انڈیا جنگ بندی کے لیے کیوں تیار ہوا؟ اس پر مودی نے کانگریس کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو سے لے کر اندرا گاندھی اور منموہن سنگھ کو پاکستان اور چین سے سبھی سرحدی تنازعات اور دہشتگردی کے لیے ذمہ دار قرار دیا۔
انھوں نے کہا کہ ’اگر نہرو نے 1948 میں جب انڈین افواج نے پاکستانی فوج پر غلبہ حاصل کر لیا تھا اپنی فوج کو پیچھے ہٹانے کا حکم نہیں دیا ہوتا تو کشمیر کا مقبوضہ حصہ اسی وقت واپس مل گیا ہوتا۔‘
مودی نے یہ بھی کہا کہ اکسائی چن کا حصہ نہرو کی وجہ سے چین کے پاس چلا گیا کیوںکہ نہرو نے اسے یہ کہ کرواپس لینے کی کوشش نہیں کی کہ سنگلاخ بنجر زمینوں کے لیے تنازع پیدا کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ہمیں 38 ہزار مربع کلومیٹر کھونے پڑے۔‘
مودی نے یہ بھی کہا کہ نہرو کے غیر دانشمندانہ فیصلے کے سبب ہی انڈیا کے بجائے چین اقوام متحدہ کا مستقل رکن بن گیا۔
وزیر اعظم مودی نے اپنی تقریر کے دوران کانگریس کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اسے ’پاکستان کا ترجمان‘ قرار دیااکانگریس پر شدید تنقید
مودی نے کہا کہ کانگریس نے ہمیشہ قومی سلامتی پر سمجھوتہ کیا ہے۔ سنہ1971 کی جنگ کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’انڈین افواج نے پاکستان کی ہزاروں مربع کلومیٹر زمین پر قبضہ کر لیا تھا۔ پاکستان کے 93 ہزار فوجی انڈین افواج کی قید میں تھے، اندرا گاندھی اگر چاہتیں تو ان کے بدلے پاکستانی مقبوضہ کشمیر واپس لے سکتی تھیں، کچھ نہیں تو کرتارپور راہداری ہی لے لیتیں لیکن انھوں نے بلاشرط پاکستان کو سارے فوجی اور زمین لوٹا دی۔‘
انھوں نے منموہن سنگھ کی حکومت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’ممبئی حملے کے بعد جب انھیں پاکستان کے خلاف کاروائی کرنی چاہیے تھی اس وقت وہ پاکستان سے ڈوزیئر اور فوٹوز کا تبادلہ کر رہے تھے۔ وہ پاکستان سے بات چیت کر رہے تھے۔‘
مودی نے سندھ طاس معاہدے کو انڈیا کے مفاد اور وقار کے خلاف ایک بہت بڑا دھوکہ قرار دیا۔ ’اگر یہ معاہدہ نہ ہوتا تو ان دریاؤں پر کئی بڑے پراجکٹ بنے ہوتے۔ ہم نے اس فاش غلطی کو صحیح کیا ہے اور ملک کے مفاد میں اسے معطل کر دیا ہے۔ یہ اس شکل میں نہیں چل سکتا۔‘
مودی نے کہا کہ ’ہم پاکستان کو انڈیا کے مستقبل سے کھیلنے نہیں دیں گے اسی لیے آپریشن سندور کو بند نہیں کیا گیا ہے۔ یہ پاکستان کے لیے نوٹس ہے۔ وہ جب تک انڈیا کے خلاف دہشت گردی کو نہیں روکتا تب تک اس کے خلاف کاروائی جاری رہے گی۔‘
وزیر اعظم کے پارلیمان سے خطاب کے بعد حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی نے خبررساں اداروں سے بات کرتے ہوئے کہا: ’انھوں نے واضح الفاظ میں نہیں کہا کہ ٹرمپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ شاید 29 بار ٹرمپ دعویٰ کیا ہے اس کا انھوں نے جواب نہیں دیا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ پوری تقریر کے دوران وزیر اعظم کے منھ سے لفظ چین نہ نکل سکا۔ سارا ملک جانتا ہے کہ پاکستان کی مدد، ٹیکنیکل مدد، ایئرفورس کی مدد چین نے کی لیکن وزیر اعظم کے منھ سے وزیر دفاع کے منھ سے ایک بار بھی چین لفظ نہیں نکلا۔‘
سوشل میڈیا پر مباحثہ
سوشل میڈیا پر بھی لوگ اِس کا ذکر کر رہے ہیں کہ جہاں وزیر اعظم مودی نے اپنی لمبی تقریر میں 14 بار پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کا ذکر کیا وہیں ایک بار بھی نہ ٹرمپ کا نام لیا، نہ چین کا نام لیا اور نہ ترکی کا۔
پہلگام میں مرنے والے ایک شخص شبھم دویدی کی بیوہ نے خبر رساں اے این آئی سے بات کرتے ہوئے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ وزیر اعظم مودی نے پہلگام حملے میں مرنے والے ایک شخص کا بھی نام نہیں لیا جبکہ انھوں نے اس بات کے لیے راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے مرنے والے 26 لوگوں کے نام لیے۔
ان کے اس بیان کو بہت سے ایکس ہینڈل سے شیئر کیا جا رہا ہے۔
روشن رائے نامی صارف نے لکھا کہ ’وہ (مودی) چین کا نام نہ لے سکے، ترکی کا نام نہ لے سکے، ٹرمپ کا نام نہ لے سکے۔ اُن کی تقریر میں سو فیصد ستائے جانے والا کارڈ، سو فیصدڈرامہ اور صفر فیصد سچ تھا۔ یہ تقریر ان کے معیار سے بھی بہت بُری تھی۔‘
معروف صحافی راجدیپ سردیسائی نے ایکس پر لکھا کہ ’پی ایم مودی نے آپریشن سندور پر اپنی 100 منٹ کی تقریر میں 14 بار سابق وزیر اعظم جواہر لال نہرو کا ذکر کیا، یہ تقریباً ہر سات منٹ میں ایک بار ہے۔ نہرو کی وفات 1964 میں ہوئی، یعنی 61 سال پہلے لیکن اُن کا سایہ اب بھی منڈلا رہا ہے۔ آپریشن سندور مئی 2025 میں ہوا۔ شاید ہمیں ماضی کو کھنگالنے کے بجائے حال اور مستقبل کو مزید دیکھنے کی ضرورت ہے!‘
لوگ کانگریس رہنما سپریا شریناٹے کے بیان کا بھی ذکر کر رہے ہیں اور اسے شیئر کر رہے ہیں۔ جس میں انھوں نے کہا کہ ’مودی جن نے اپنی ایک گھنٹے اور 42 منٹ کی تقریر میں 15 بار نہرو کا اور 50 بار کانگریس کا نام لیا لیکن ایک بار بھی ٹرمپ کا یا چین کا نام نہیں لیا۔‘
کئی لوگ تقریر کا وہ حصہ بھی شیئر کر رہے ہیں جب وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ’میں نے کہہ دیا کہ مہنگا پڑے گا‘ اسی درمیان میں دوسری طرف سے راہل گاندھی کی آواز آتی ہے کہ ’تو کہہ دیجیے نا کہ ٹرمپ جھوٹ بول رہے ہیں۔‘ اور پھر وزیر اعظم پانی پینے لگتے ہیں۔
جیتیش نامی ایک صارف نے لکھا: ’31 ویں بار ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے تجارتی معاہدے کے ذریعے پاکستان انڈیا جنگ روکی اور دھمکی دی کہ اگر وہ باز نہیں آئے تو وہ تجارت نہیں کریں گے۔ ایک بار پھر 5 جیٹ طیاروں کو مار گرائے جانے کا ذکر ہے۔ اور مودی نے پوری تقریر کے دوران ایک بار بھی ان کا ذکر نہیں کیا۔‘
کئی لوگ کانگریس رہنام گرجیت سنگھ اوجلا کی پارلیمان میں تقریر کا وہ حصہ پیش کر رہے ہیں جس میں انھوں نے کہا کہ ’پی ایم مودی کو تمام 35 رافیل طیاروں کی پریڈ کرنی چاہیے تاکہ دنیا کو یہ ثابت کیا جا سکے کہ آپریشن سندور میں ایک بھی طیارہ نہیں گرایا جا سکا۔ کیا مودی ایسا کرنے کی ہمت کریں گے؟‘
سینیئر صحافی وجے ترویدی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ایم مودی نے بھلے ہی پارلیمنٹ میں بات کی ہو، لیکن ابھی تک کئی سوالوں کے جواب نہیں ملے ہیں۔
وجے ترویدی کہتے ہیں: ’پی ایم مودی کی تقریر میں بہت سے سوالات کے جوابات دیے گئے اور کئی سوالوں کے جواب سوالات کی شکل میں دیے گئے۔ حکومت نے اس بات کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا کہ جنگ بندی کیوں کی گئی؟ پہلگام سے پلوامہ تک سکیورٹی میں لاپرواہی کے بارے میں کسی کی طرف سے کوئی واضح جواب نہیں آیا۔ چاہے وہ وزیر دفاع، وزیر داخلہ یا وزیر اعظم ہوں۔‘