سترہ جولائی کی صبح پشتو زبان کے چینل ’خیبر ٹی وی‘ کی ایک میزبان شبانہ لیاقت عرف سپنا خان نے حسبِ معمول اپنے مخصوص انداز میں پروگرام کا ابتدایہ بیان کیا تاہم اس مرتبہ انہوں نے مون سون کی موسلادھار بارشوں اور سیلاب کی صورتحال سے متعلق گفتگو کی۔انہوں نے کہا کہ ’بارش اللہ کی رحمت ہے لیکن بعض اوقات یہ انسان کے لیے زحمت بن جاتی ہے۔ اللہ سب کی خیر کرے۔ ایسے موسموں میں بیماریاں بھی زیادہ پھیلتی ہیں۔ ہم اس لائیو پروگرام میں موسموں سے جڑی بیماریوں کے حوالے سے آپ سے گفتگو کریں گے۔‘شبانہ لیاقت کا پروگرام جس کا نام ’روغ صحت‘ ہے، تقریباً ایک گھنٹے تک آن ایئر رہا اور اپنے اختتامی کلمات میں انہوں نے اپنے ناظرین سے جو کہا وہ کچھ یوں تھا۔’ہمیں اپنے بہت ساری دعاؤں میں یاد رکھیں اور اگر زندگی نے وفا کی تو میں میڈیم حشمت کے ساتھ آئندہ جمعرات کو ’روغ صحت‘ پروگرام میں آپ کے ساتھ ہوں گی۔ تب تک کے لیے اجازت، اللہ حافظ‘مگر اگلے ہفتے جب ان کے پروگرام کا وقت آیا تو پروڈیوسر نے ڈائریکٹر نیوز مبارک علی کو اطلاع دی کہ سپنا خان کا نمبر بند ہے، اور وہ پچھلے ہفتے گلگت بلتستان گئی تھیں جس کے بعد گلگت بلتستان کی حکومت سے رابطہ کیا گیا لیکن ضلع دیامیر کے علاقے بابوسر ٹاپ سے موصول ہونے والی خبریں حوصلہ افزا نہیں تھیں۔سپنا خان کے ناظرین ان کے آخری الفاظ کی بازگشت تب سے سن رہے ہیں جب سے یہ خبر آئی کہ شبانہ لیاقت بابوسر ٹاپ میں دیگر سیاحوں کے ساتھ تاحال لاپتہ ہیں۔ چند دن بعد ان کی گاڑی تو مل گئی ہے مگر ابھی تک ان کے بچوں کی کچھ خبر ہے نہ شوہر کا کچھ پتہ۔سپنا خان کی بہن رابعہ حسن نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کی بہن نے 19 جولائی کو فیملی سمیت ناران کاغان جانا تھا لیکن راستے میں ہی اچانک ارادہ بدلا اور وہ لوگ گلگت بلتستان کی جانب روانہ ہوگئے۔غم سے نڈھال بہن نے سسکتی ہوئی آواز میں بتایا کہ ’یہ ان کا اپنی ماں جیسی بہن سے آخری رابطہ تھا۔ اس کے بعد ان کو میسجز کیے لیکن آج تک جواب نہیں آیا۔ یہ دن یہ لمحے قیامت سے کم نہیں۔ ماں کے بعد وہی تھی جو میرا حوصلہ تھی۔ وہ میری دوست تھی۔میرے گھر میت نہیں لیکن غم بہت بڑا ہے۔۔۔ برداشت سے باہر۔‘انہوں نے کہا کہ ’میں بس کسی معجزے کی دعا کر رہی ہوں۔ میری یہ دعا ہے کہ زمین کے نیچے سے وہ زندہ واپس آ جائے۔ سارا دن گزر جاتا ہے لیکن میری بہن اور ان کے بچوں کے حوالے سے کوئی خبر نہیں آتی۔ معجزے کے انتظار میں بیٹھی ہوں۔‘
واقعے کے وقت 200 سیاحوں کو رسکیو کیا گیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
سپنا خان کے دیور اس وقت بابوسر ٹاپ میں موجود ہیں جہاں آج بھی تلاش کا عمل جاری ہے۔ اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ وہ ملبے تلے دب گئے ہیں یا سیلابی ریلا انہیں بہا لے گیا ہے۔
سپنا خان کی بیٹی ایمان کی عمر 18 برس تھی، بیٹا ایمل 17 سال کا تھا اور سب سے چھوٹا بیٹا 15 سال کا تھا۔ریسکیو ورکرز کو ان کے بچے ایمل خان کا بٹوہ ملا تھا جس میں سپنا خان اور بیٹے کا سکول کارڈ موجود تھا۔رابعہ حسن کے مطابق ’میری بہن روازنہ مجھے آٹھ یا ساڑھے آٹھ بجے ویڈیو کال کرتی تھی کیونکہ 12 سال بعد اللہ نے مجھے بیٹے سے نوازا تھا جو اسے بہت عزیز تھا۔ میرے بچے اسے امی کہتے، انہیں کیا معلوم تھا کہ ایک امی ایسے اچانک غائب ہو جائے گی، جیسے زمین نگل گئی ہو۔‘سپنا خان کی بہن اور دفتر کے ساتھیوں کے مطابق ان کی زندگی آسان نہیں تھی، انہوں نے زندگی میں مشکلات کا سامنا کیا۔ان کی بہن کا کہنا ہے کہ سپنا خان نے ہمیشہ خاندان کا ساتھ دیا اور ہر موقع پر سہارا فراہم کیا۔ ’وہ میرا سہارا تھی اور میں اس کا۔ اس نے ہمارے لیے سب کچھ کیا۔ ہمیشہ سپورٹ کیا۔ اس نے بہت دکھ جھیلے ہیں مگر کبھی شکایت نہیں کی۔‘خیبر نیوز کے ڈاریکٹر نیوز مبارک علی کے مطابق جب انہیں پروڈیوسر نے سپنا خان کے بارے میں بتایا تو انہوں نے فوراً گلگت بلتستان کی حکومت سے رابطہ کیا۔’ہم گلگت بلتستان کی حکومت سے رابطے میں ہیں اور ان سے اپیل کی ہے کہ سپنا خان اور ان کے اہل خانہ کا سراغ لگایا جائے۔ وہ لاپتہ افراد کی تلاش کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’دفتر کا تمام عملہ اور ان کے ساتھی گہرے صدمے میں ہیں۔ سپنا خان ایک نہایت نرم گفتار، مہذب اور بے ضرر انسان تھیں۔‘
سپنا خان اپنے شوہر اور بچوں کے ہمراہ گلگت بلتستان گئیں۔ (فوٹو: بشکریہ خیبر نیوز)
خیبر ٹی وی میں شمولیت سے قبل سپنا خان پاکستان ٹیلی ویژن سے وابستہ تھیں۔ ان کی پہلی شادی 2009 میں عامر وکیل سے ہوئی جو لاہور میں قتل ہوئے تھے۔ انہوں نے دوسری شادی لیاقت نامی شخص سے کی جو پاکستان ایئر فورس میں ملازم تھے۔
21 جولائی کو گلگت بلتستان میں موسلادھار بارشوں کے بعد کئی مقامات پر چھوٹے بڑے سیلابی ریلے آئے تھے لیکن سب سے خطرناک صورتحال بابو سر ٹاپ پر تھی، جہاں شدید سیلابی ریلوں کے نتیجے میں سیاحوں کی متعدد گاڑیاں بہہ گئی تھیں۔سپنا خان کے خاندان کی طرح صوبہ پنجاب کے ضلع لودھراں سے تعلق رکھنے والا ایک ڈاکٹر خاندان بھی سیر و تفریح کے لیے گیا تھا جن میں تین افراد سیلابی ریلے کی نذر ہوگئے۔گلگت بلتستان کی حکومت کے مطابق بابو سر ٹاپ واقعے میں سات افراد کی لاشیں نکال لی گئی ہیں جبکہ 15 اب بھی لاپتہ ہیں۔سیاحوں میں اب بھی دو خاندان ایسے ہیں جو دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کے اہل خانہ بابو سر ٹاپ واقعے کے بعد لاپتہ ہیں۔گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق نے اردو نیوز کو بتایا کہ واقعے کے چھ دن بعد سپنا خان اور ان کے خاندان کے لاپتہ ہونے کا علم ایک کارڈ کے ذریعے ہوا۔ اُس کارڈ سے معلوم ہوا کہ سپنا خان کسی مقامی نیوز چینل سے منسلک تھیں۔انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں چینل کے ڈائریکٹر نیوز نے رابطہ کیا تھا اور ہم نے انہیں بتایا کہ ہمیں ایک کارڈ ملا ہے۔
گلگت بلتستان میں ریسکیو آپریشن کے ساتھ ساتھ بحالی کا کام جاری ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
فیض اللہ فراق نے کہا کہ’سرچ آپریشن جاری ہے، سپنا خان اور فیملی ابھی تک لاپتہ ہیں۔ ملبے سے ان کا بٹوہ ملا ہے جس میں کارڈز ہیں اور ملبے سے ان کی گاڑی بھی ملی ہے۔ ان کا پتا نہیں چل رہا اس لیے ہم انہیں ڈیڈ باڈی بھی نہیں کہہ سکتے ہیں وہ لاپتہ ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بابو سر ٹاپ کے آٹھ کلومیٹر میں سرچ آپریشن کیا جا رہا ہے۔ پانی دریائے سندھ میں بہا کے لے جا سکتا ہے جو 60 کلومیٹر کا علاقہ بنتا ہے۔‘پروگرام ’روغ صحت‘ میں سپنا خان اور ڈاکٹر حشمت مومند کا ساتھ 21 سال تک رہا۔ اس تعلق کو صرف پیشہ ورانہ رشتہ نہیں کہا جا سکتا، وہ کہتی ہیں کہ ہمارا رشتہ ماں اور بیٹی جیسا بن چکا تھا۔ڈاکٹر حشمت مومند نے یاد کرتے ہوئے ہوا کہ ’کورونا کے دوران جب لوگوں کو گھر بٹھایا گیا تو میں نے صاف کہہ دیا کہ اس کے بغیر پروگرام نہیں کروں گی۔ اب جب پروڈیوسر نے جمعرات کو ٹیلی فون کیا کہ سپنا فون نہیں اٹھا رہی تو آپ کیا کریں گی۔ میں نے کہا چلو کر لیتے ہیں مجھے اگلے سنیچر تک یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کے ساتھ کوئی سانحہ پیش آیا ہے۔‘وہ کہتی ہیں کہ اس واقعے نے سب کو بہت اداس کر دیا ہے۔ ’وہ نیک اور شفیق انسان تھیں، بہت زیادہ مددگار انسان تھیں۔ ان کی زندگی خود بھی سانحات سے بھری ہوئی تھی۔‘سپنا خان نے اپنے آخری پروگرام میں کہا تھا کہ ’یہ پروگرام میڈم حشمت کے بغیر ادھورا ہوتا ہے۔‘ اور اسی قسم کے جذبات ڈاکٹر حشمت مومند بھی رکھتی ہیں۔اس پروگرام میں دنیا کے مختلف حصوں سے پختون اپنے طبی مسائل سے متعلق رابطہ کرتے ہیں۔
ڈاکٹر حشمت مومند کے مطابق سپنا خان نے انہیں نے اداس کر دیا ہے۔ (فوٹو: سکرین گریب)
اس المناک حادثے کے بعد پروگرام کے ناظرین میں بھی افسوس اور غم کی کیفیت پائی جاتی ہے۔
خیبر ٹی وی کے میزبان قاضی عارف نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ جو خبریں آ رہی ہیں ان سے ایسا لگ رہا ہے کہ شبانہ شاید اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔’ان کا اور میرا سفر 21 سال پر محیط ہے، جب سنہ 2004 میں خیبر ٹی وی کا آغاز ہوا، میں اس وقت پرڈیوسر تھا، میرے بہت سے پراجیکٹس میں سپنا خان (شبانہ لیاقت) نے کام کیا۔‘قاضی عارف نے کہا ’ہماری جب بھی ان سے گفتگو ہوتی تھی تو ہم ان کا نام نہیں لیا کرتے تھے بلکہ انہیں بھابھی جان کہا کرتے تھے۔ ان کے پہلے شوہر کی موت ہوئی، پھر ان کی صاحبزادی کے چھت سے گرنے کا المناک واقعہ پیش آیا اور وہ اپنی بیٹی کی خدمت میں لگی رہیں۔ ان کی ہمشیرہ ہیں جن کی شبانہ نے بڑی خدمت کی۔ انہوں نے اپنی بہن اور بچوں کے لیے بہت کام کیا۔‘انہوں نے مزید بتایا کہ }ابھی کچھ دن پہلے میری شبانہ سے بات ہوئی، وہ بہت خوش تھیں کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ سیر و تفریح کے لیے جا رہی ہیں۔ لیکن جب ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کا پتا چلا تو میں اور پورا ٹی نیٹ ورک بہت پریشان ہیں، ہم اب بھی کسی معجزے کا انتظار کر رہے ہیں۔‘