’ایک ایسی دنیا میں جہاں آپ کا بہت زیادہ جنسی استحصال ہو رہا ہو، ایک بار (پولیس افسر کے ہاتھوں) ریپ ہونا (گینگ کے ہاتھوں) کئی بار ریپ ہونے سے بہت آسان تھا، اور میرے خیال میں وہ (پولیس افسر) یہ جانتا تھا۔‘
’ایک ایسی دنیا میں جہاں آپ کا بہت زیادہ جنسی استحصال ہو رہا ہو، ایک بار ریپ ہونا (گینگ کے ہاتھوں) کئی بار ریپ ہونے سے بہت آسان تھا، اور میرے خیال میں پولیس افسر یہ جانتا تھا‘انتباہ: اس تحریر میں جنسی استحصال سے متعلق بعض تفصیلات قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں۔
پانچ خواتین، جو بچپن میں برطانیہ کے علاقے ’روتھرم‘ میں گرومنگ گینگز کا شکار ہوئیں، نے دعویٰ کیا ہے کہ اُس وقت ٹاؤن میں تعینات پولیس افسران نے بھی اُن کا جنسی استحصال کیا تھا۔
ایک خاتون کا کہنا ہے کہ جب وہ 12 سال کی تھیں تو ایک حاضر سروس پولیس افسر نے پولیس کی ہی گاڑی میں اُن کا ریپ کیا تھا۔ اُن کے مطابق وہ پولیس افسر انھیں دھمکی دیتا تھا کہ اگر وہ اُس کی بات نہیں مانیں گی اور تعاون نہیں کریں گی تو وہ انھیں گینگ کے حوالے کر دے گا۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایک ایسی دنیا میں جہاں آپ کا بہت زیادہ جنسی استحصال ہو رہا ہو، ایک بار (پولیس افسر کے ہاتھوں) ریپ ہونا (گینگ کے ہاتھوں) کئی بار ریپ ہونے سے بہت آسان تھا، اور میرے خیال میں وہ (پولیس افسر) یہ جانتا تھا۔‘
بی بی سی نے ان خواتین کے تحریری بیانات دیکھے ہیں اور گرومنگ گینگز کے 25 دیگر متاثرین کے بیانات بھی، جن میں سے کچھ خواتین نے کہا کہ کرپٹ پولیس افسران یا تو گینگز کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے تھے یا بچوں کے جنسی استحصال کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہے۔
پروفیسر ایلیکسیس جے کی سنہ 2014 کی تاریخی رپورٹ کے مطابق سنہ 1997 سے سنہ 2013 کے درمیان روتھرم میں کم از کم 1400 بچوں کا جنسی استحصال کیا گیا۔
پروفیسر جے نے ہمیں بتایا کہ ’ہم نے جو شواہد پڑھے، دیکھے اور سُنے، اُن سے پتہ چلتا ہے کہ متاثرین نے جنسی استحصال کرنے والوں کی اکثریت کی شناخت بطور پاکستانی نژاد شہریوں کے طور پر کی۔‘
پولیس افسران کی روتھرم گرومنگ سکینڈل میں ملوث ہونے کی ایک نئی فوجداری تفتیش اب ساؤتھ یارکشائر پولیس کے میجر کرائم یونٹ کی سرپرستی میں کی جا رہی ہے اور یہ پولیس واچ ڈاگ کی ہدایات کے مطابق کیا جا رہا ہے۔
پروفیسر جے نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس بات پر ’حیران‘ ہیں کہ ساؤتھ یارکشائر پولیس اپنے سابقہ افسران کی خود تحقیقات کر رہی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ فوجداری تحقیقات کو کسی دوسری فورس یا آزاد ادارے کے حوالے کیا جانا چاہیے۔
جواب میں ساؤتھ یارکشائر پولیس کی اسسٹنٹ چیف کانسٹیبل ہیلی بارنیٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم جانتے ہیں کہ کسی متاثرہ فرد کے لیے، جسے ماضی میں بُری طرح ناکام کیا گیا ہو، آج کی ساؤتھ یارکشائر پولیس پر بھروسہ کرنا کتنا مشکل ہو گا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ متاثرین اِن تحقیقات کا ’مرکز‘ ہیں اور اُن کے بہترین مفاد میں تمام اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
بی بی سی کی جانب سے دیکھے گئے 30 گواہوں کے بیانات میں چونکا دینے والے الزامات کی تفصیلات درج ہیں:
- 1990 کی دہائی کے وسط سے 2000 کی دہائی کے اوائل تک، روتھرم گرومنگ گینگز کے ہاتھوں استحصال کے ساتھ ساتھ، حاضر سروس پولیس افسران کی جانب سے متاثرین کا برسوں تک جنسی استحصال ہوا۔
- زیادہ تر مبینہ متاثرین نوجوان (13 سے 19 سال کے درمیان) تھے لیکن کچھ کی عمر 11 سال تک بھی تھی۔
- ایک خاتون کا کہنا ہے کہ بچپن میں اس نے ایک پولیس افسر کو لڑکیوں کے ساتھ منشیات اور پیسوں کے عوض سیکس کرتے سُنا۔
- ایک اور خاتون نے بتایا کہ بچپن میں اس نے ایک پولیس افسر کو گرومنگ گینگ کو غیر قانونی کلاس اے منشیات فراہم کرتے دیکھا۔
- تین خواتین نے بتایا کہ بچپن میں پولیس افسران نے انھیں مارا پیٹا۔ ایک کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ پولیس سیل میں پیش آیا۔
پروفیسر ایلیکسیس جے کی 2014 کی تاریخی رپورٹ کے مطابق سنہ 1997 سے 2013 کے درمیان روتھرم میں کم از کم 1400 بچوں کا جنسی استحصال کیا گیابی بی سی کی جانب سے دیکھے گئے خواتین کے بیانات کو ان کی شناخت کے تحفظ کے لیے ترمیم کیا گیا ہے۔ یہ بیانات ایک ماہر چائلڈ ایبیوز قانونی فرم ’سویٹالسکیز سولیسیٹرز‘ نے جمع کیے ہیں جو ساؤتھ یارکشائر پولیس کے خلاف ایک الگ سول دعویٰ دائر کرنے اور مبینہ متاثرین کے لیے معاوضہ حاصل کرنے کی کوشش کا حصہ ہیں۔
ایک خاتون ولو (فرضی نام) کا کہنا ہے کہ سنہ 1997 میں 11 سال کی عمر میں گرومنگ گینگ کے ہاتھوں نشانہ بننے کے بعد پانچ سالوں تک سینکڑوں مردوں نے اُن کا ریپ کیا۔
ولو کا کہنا ہے کہ اُن کا ریپ کرنے والوں میں دو پولیس افسران بھی شامل تھے۔ انھوں نے بتایا کہ تین سالوں تک، ایک ساؤتھ یارکشائر پولیس کے افسر بار بار اس کا پتا لگا کر روتھرم ٹاؤن سینٹر سے پولیس گاڑی میں انھیں لے جاتا تھا۔
وہ بی بی سی کو بتاتی ہیں کہ ’وہ جانتا تھا کہ ہم کہاں وقت گزارتے تھے، وہ یا تو اورل سیکس کا مطالبہ کرتا یا پولیس گاڑی کے پچھلے حصے میں ہمارا ریپ کرتا۔‘
ولو کا کہنا ہے کہ اگر وہ اس کے مطالبات سے انکار کرنے کی کوشش کرتیں تو وہ براہ راست گرومنگ گینگ سے رابطہ کر کے انھیں دھمکی دیتا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میرے لیے زیادہ آسان یہ تھا کہ میرا ایک بار ریپ ہو یا میں ایک آدمی کے ساتھ اورل سیکس کروں ۔۔۔ بجائے اس کے کہ مجھے ایسی جگہ لے جایا جائے جہاں 15، 20 لڑکوں کے ساتھ ایک کے بعد ایک میرا ریپ کیا جائے۔‘
انھوں نے بتایا کہ گرومنگ گینگ کے دباؤ میں غیر قانونی اسقاط حمل کروانے کے بعد ایک یوتھ ورکر نے سوشل سروسز اور پولیس سے رابطہ کیا۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ وہ اس وقت مایوسی کا شکار ہوئیں جب ان سے تفتیش کے لیے وہی افسر آیا جو ان کا جنسی استحصال کرتا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ کچھ دنوں بعد اسی افسر نے ان کے سامنے ان کا بیان پھاڑ کر کوڑے دان میں پھینک دیا اور اس کے بعد مزید کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
’کوئی جوابدہی نہیں‘
سویٹالسکیز سولیسیٹرز کو اپنے بیانات دینے والی 30 خواتین میں سے صرف 17 نے اپنی شہادت پولیس کو دینے پر اتفاق کیا ہے۔
وکلا کا کہنا ہے کہ باقی ممکنہ گواہوں میں سے کچھ نے ساؤتھ یارکشائر پولیس کی تحقیقات سے دستبرداری اختیار کر لی ہے اور کچھ کا کہنا ہے کہ وہ اس فورس پر بھروسہ نہیں کرتیں یا پھر اُن کا عدالتی نظام پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔
سویٹالسکیز سولیسیٹرز کی ایمی کلاؤری، جو گذشتہ 10 سال سے روتھرہم میں پولیس کے مبینہ جنسی استحصال، بدعنوانی اور جنسی جرائم کی شہادتوں کو جمع کر رہی ہیں، کہتی ہیں کہ ’ہم نے جو بیانات سنے ہیں، ان کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’شہر میں کوئی جوابدہی نہیں رہی اور جوابدہی کے بغیر، ساؤتھ یارکشائر پولیس پر عدم اعتماد جاری رہے گا۔‘
جواب میں ساؤتھ یارکشائر پولیس نے ہمیں بتایا کہ اس کیس پر ایک ’پولیس افسران کی ٹیم کام کر رہی ہے جو تمام تفتیشی راستوں کو جانچنے کے لیے محنت سے کام کر رہی ہے‘ اور یہ تحقیقات انڈیپینڈنٹ آفس آف پولیس کنڈکٹ (IOPC) کی نگرانی میں ہو رہی ہیں۔
گرومنگ گینگز سے متاثرہ ایما (فرضی نام) کا کہنا ہے کہ سابقہ افسران اور روتھرم سکینڈل میں اُن کے کردار کی موجودہ تحقیقات کو کئی دہائیاں پہلے ہونا چاہیے تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہم وہ بچے ہیں جو بھولے جا چکے ہیں۔ ہم ان کے لیے گندے راز ہیں۔ وہ ہمیں اسی طرح دیکھتے ہیں۔‘
ایما 1990 کی دہائی کے آخر میں چائلڈ کیئر میں تھیں اور اکثر یہاں سے بھاگ جاتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب انھیں ڈھونڈا جاتا، تو ایک پولیس افسر ایک خالی مکان میں لے جا کر ان کا ریپ کرتا۔
وہ کہتی ہیں کہ اس نے چائلڈ کیئر میں رہنے والے بچوں کو نشانہ بنایا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ کمزور ہیں اور انھوں نے ان کے خوف اور سادگی کا فائدہ اٹھایا۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’وہ جانتا تھا کہ ہماری کمی کو محسوس نہیں کیا جائے گا، وہ جانتا تھا کہ ہماری رپورٹ نہیں کی جائے گی۔ وہ جانتا تھا کہ ہم کچھ نہیں کہہ سکیں گے۔ وہ جانتا تھا کہ اس کا پلڑہ بھاری ہے۔‘
پولیس واچ ڈاگ تحقیقات کی نگرانی کر رہا ہے، لیکن اس کے ایک سابق تفتیش کار کا کہنا ہے کہ اسے شک ہے کہ اس کے اچھے نتائج نہیں نکلیں گے۔
گیری ہارپر نے IOPC کے آپریشن لندن پر دو سال کام کیا، جو روتھرم میں سنہ 1997 سے 2013 کے درمیان بچوں کے جنسی استحصال کے الزامات پر ساؤتھ یورکشائر پولیس کے ردعمل کی تحقیقات تھیں۔
ہارپر کہتے ہیں کہ آٹھ سالہ تحقیقات ’شروع سے آخر تک ایک مکمل ناکامی‘ تھیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ساؤتھ یورکشائر پولیس ’تقریباً کسی بھی جوابدہی سے بچنے میں کامیاب رہی۔‘
واچ ڈاگ نے انفرادی افسران کے خلاف 43 شکایات کی تصدیق کی، جن میں سے آٹھ کو جنسی استحصال اور چھ کو سنگین جنسی استحصال کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن کوئی بھی افسر اپنی نوکری سے ہاتھ نہیں دھو بیٹھا اور نہ ہی کسی کو فوجداری الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔
ایک IOPC ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’آپریشن لندن میں 91 تحقیقات شامل تھیں۔ ہم نے 2022 میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس وقت کے دوران ساؤتھ یورکشائر پولیس کمزور بچوں اور نوجوانوں کے تحفظ کے اپنے فرض میں بنیادی طور پر ناکام رہی۔‘
موجودہ فوجداری تحقیقات کے حوالے سے ترجمان نے کہا کہ وہ ’مطمئن ہیں کہ کوئی مفادات کا ٹکراؤ نہیں ہے‘ اور ساؤتھ یورکشائر پولیس نے IOPC کو یقین دلایا ہے کہ ’تفتیش کرنے والے کسی بھی افسر نے نہ تو تحقیقات کے تحت موجود سابقہ افسران کے ساتھ کام کیا تھا، اور نہ ہی وہ خود آپریشن لندن کے حصے کے طور پر تفتیش کا نشانہ بنے تھے۔‘
افسر کی شناخت ظاہر کر دی گئی
ہم مبینہ متاثرین کے بیانات میں ذکر کردہ سابقہ ساؤتھ یورکشائر پولیس کے افسران کے نام نہیں دیکھ سکتے، کیونکہ خواتین کے بیانات کو ترمیم کیا گیا ہے۔
لیکن دسمبر 2024 سے تین سابقہ افسران کو ماضی کے جنسی جرائم کے شبہ میں گرفتار کیا گیا ہے، جن میں ریپ، غیر اخلاقی حملے شامل ہیں۔ یہ جرائم مبینہ طور پر سنہ 1995 سے 2004 کے درمیان اس وقت ہوئے جب یہ افسران پی سی کے طور پر ڈیوٹی پر تھے۔ ان میں سے کسی پر بھی فرد جرم عائد نہیں کی گئی۔
لیکن بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ ایک مبینہ متاثرہ لڑکی ولو نے پولیس کو دی گئی ایک رپورٹ میں پی سی حسان علی کا نام لیا ہے کہ انھوں نے ان کا ریپ کیا تھا۔
وہ ہمیں بتاتی ہیں کہ ’پہلی بار، اس نے لفظی طور پر کہا: ’تم یہ دوسرے افسر کے لیے کرتی ہو۔ تو اب یہ میرے لیے بھی کرو گی۔‘
پی سی علی کی وفات جنوری 2015 میں ایک کار کی ٹکر سے ہوئی۔ جس دن یہ حادثہ ہوا، اس دن انھیں ریپ کے سکینڈل میں مبینہ ریپ کی تحقیقات کی وجہ سے محدود فرائض پر رکھا گیا تھا۔ انھیں کبھی گرفتار نہیں کیا گیا۔
ولو کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے ساتھ زیادتی کرنے والے دونوں افسران، بشمول پی سی علی، منشیات کی فراہمی میں بھی ملوث تھے۔
ایک ساؤتھ یورکشائر پولیس ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ حسان علی کے بارے میں موصول ہونے والی شکایات منشیات سے متعلق نہیں تھیں اور ان کا تعلق ’ایک متاثرہ لڑکی سے بار بار ڈیٹ پر جانے کی درخواست، معلومات شیئر کرنے، اور متاثرین کے تحفظ میں ناکامی کے الزامات‘ سے تھا۔
سابقہ IOPC تفتیش کار گیری ہارپر کا کہنا ہے کہ وہ پی سی علی کے خلاف الزامات سے بھی آگاہ تھے اور وہ کہتے ہیں کہ آپریشن لندن کے دوران IOPC کے اندر افسر کے منظم جرائم کے گروہوں سے روابط پر بات چیت ہوئی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’کئی شکایات تھیں کہ اس نے منشیات فراہم کیں اور استعمال کیں، اور ساتھ ہی کچھ بچ جانے والوں کے ساتھ ریپ بھی کیا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ اس وقت IOPC اور ساؤتھ یورکشائر پولیس ایک دوسرے افسر کے خلاف بچوں کے جنسی استحصال کے الزامات سے آگاہ تھے، لیکن ساؤتھ یورکشائر پولیس نے اس افسر کو ریٹائر ہونے کی اجازت دی۔
’بہترین صورت میں یہ ایک ساکھ بچانے کی مشق تھی۔ یہ میں ان کے لیے بہت فیاضی سے کہہ رہا ہوں۔ بدترین صورت میں، اسے جانے دینا کھلی بدعنوانی تھی۔‘
IOPC نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کے پاس 'کوئی ریکارڈ نہیں' کہ آپریشن لندن میں شامل کسی بھی متاثرہ لڑکی نے پی سی علی کے خلاف اس طرح کے الزامات اٹھائے ہوں۔
اس نے کہا کہ اس نے ایک تیسرے فریق کی رپورٹ کی تحقیقات کی تھیں کہ ایک سابقہ افسر کا ’دو کم عمر کمزور لڑکیوں‘ کے ساتھ جنسی تعلق تھا۔ اس نے مزید کہا کہ ان افراد سے بالغ ہونے پر بات کی گئی تھی اور انھوں نے اس بات سے انکار کیا کہ ایسا کچھ ہوا۔
ساؤتھ یارکشائر پولیس نے بی بی سی کو بتایا کہ موجودہ تحقیقات کا حصہ بننے والے سابقہ افسران میں سے کسی کے خلاف بھی ’ان کی ریٹائرمنٹ کے وقت ریپ کا الزام نہیں تھا۔‘