کراچی میں جوڑے کی لاشیں برآمد ہونے کا واقعہ، پسند کی شادی پر قتل کا شبہ

image

کراچی کے ساحلی علاقے بوٹ بیسن کے قریب واقع چائنا پورٹ سے لڑکے اور لڑکی کی لاشیں برآمد ہونے کا واقعہ ایک معمہ بن گیا ہے۔ دونوں نوجوانوں کا تعلق پنجاب سے تھا جو حال ہی میں کراچی آئے تھے۔

ابتدائی تفتیش میں قتل کی وجوہات تاحال واضح نہیں ہو سکی ہیں تاہم پولیس اور مقتولہ کے والد کے بیانات کی روشنی میں شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس واقعے کی وجہ پسند کی شادی ہے۔

واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر بھی شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے جہاں لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اگر یہ واقعہ عزت یا غیرت کے نام پر قتل کا شاخسانہ ہے تو کب تک نوجوانوں کو ان کی مرضی کے فیصلوں کی سزا موت کی صورت میں دی جاتی رہے گی۔

پولیس کے مطابق مرنے والوں کی شناخت 28 سالہ ساجد مسیح اور 25 سالہ ثنا آصف کے طور پر ہوئی، جو پنجاب کے شہر گوجرانوالہ کے نواحی علاقے دَکھانا لالہ پُل عبداللہ پور کے رہائشی تھے۔

 دونوں نے حال ہی میں پسند کی شادی کی تھی اور کراچی میں نئی زندگی شروع کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

کراچی ضلع جنوبی پولیس کے ترجمان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ابتدائی تفتیش میں معلوم ہوا ہے کہ ساجد مسیح نے کچھ دن قبل ہی اسلام قبول کیا اور اسی دن کراچی کی ایک عدالت میں ثنا آصف کے ساتھ نکاح کیا۔

ثنا کا تعلق مسلمان خاندان سے تھا جبکہ ساجد کا تعلق مسیحی برادری سے تھا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ جائے وقوعہ سے پولیس کو دو 9 ایم ایم پستول کی گولیوں کے خول، ایک موبائل فون، نقدی اور کچھ تصاویر ملی ہیں، جو مقتولین کی تھیں۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق دونوں کو انتہائی قریب سے گولیاں ماری گئیں۔ ساجد اور ثنا کے سروں کے پچھلے حصے پر فائر کیے گئے جو سیدھے دماغ میں گھسے اور دونوں کی موقع پر ہی موت واقع ہو گئی۔

پولیس کےمطابق قتل کی وجہ پسند کی شادی ہو سکتی ہے۔ فوٹو: سکرین گریب

اس قسم کی ہلاکتوں کو پولیس عموماً ’ایکسیکیوشن سٹائل‘ قتل قرار دیتی ہے جو ذاتی دشمنی، بدلے یا منصوبہ بندی کے تحت کیے جاتے ہیں۔

لاشیں چھیپا سرد خانے منتقل کی گئیں اور ورثا کی موجودگی میں ان کی شناخت کی گئی۔

اس واقعے کے بعد گوجرانوالہ پولیس اور کراچی پولیس نے مل کر تفتیش کا آغاز کردیا ہے۔

پولیس نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ مقتولین کو اُن ہی کے جاننے والوں نے بلوا کر قتل کیا۔ اس سلسلے میں ثنا کے بھائی وقاص علی سمیت چار افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔

ساجد کے والد عارف مسیح نے پولیس کو دیے گئے بیان میں بتایا کہ ان کے بیٹے نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اور پھر عدالت میں نکاح کیا، لیکن دونوں خاندانوں کی طرف سے شدید دباؤ اور مخالفت کا سامنا تھا۔

واضح رہے کہ واقعے سے چند دن پہلے گوجرانوالہ میں ثنا کے اہلِ خانہ کی طرف سے ایک ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی جس میں ساجد کو اغوا کار قرار دیا گیا تھا۔

تھانہ نوشہرہ ورکاں میں درج کی گئی اس ایف آئی آر میں یہ کہا گیا تھا کہ ساجد نے ثنا کو زبردستی اغوا کیا۔

پولیس حکام کے مطابق اس کیس کو تمام قانونی پہلوؤں سے دیکھا جا رہا ہے، اور مختلف شواہد جمع کیے جا رہے ہیں جن میں موبائل فون ڈیٹا، جائے وقوعہ کے شواہد اور مقتولین کی تصاویر شامل ہیں۔

یہ قتل نہ صرف قانونی، بلکہ سماجی اور مذہبی طور پر بھی ایک پیچیدہ مسئلے کو ظاہر کرتا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس واقعے پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اس کیس کو ’آنر کلنگ‘ کے زمرے میں لایا جائے اور مجرموں کو عبرتناک سزا دی جائے۔

مختلف تنظیموں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا پاکستان میں آج بھی بالغ افراد کو اپنی پسند سے شادی کرنے یا مذہب تبدیل کرنے کا حق حاصل ہے یا نہیں؟

جامعہ کراچی شعبہ کرمنالوجی کی سربراہ ڈاکٹر نائمہ سعید نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں ہر سال سینکڑوں نوجوان لڑکیاں اور لڑکے پسند کی شادی یا خاندانی رشتوں سے انکار کرنے پر ’غیرت‘ کے نام پر قتل کر دیے جاتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں اگرچہ آنر کلنگ کے خلاف سخت قوانین موجود ہیں، لیکن بیشتر مقدمات میں یا تو خاندان والوں کے درمیان صلح ہو جاتی ہے یا ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے ملزم چھوٹ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے کیسز میں قانون نافذ کرنے والے اداروں، میڈیا، سول سوسائٹی اور عدالتوں کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے۔‘

نائمہ سعید کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ واقعہ صرف ایک جرم نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کا ایک عمومی رویہ ہے جہاں مذہب، ذات، برادری اور سماجی دباؤ کے نام پر نوجوانوں کے بنیادی انسانی حقوق پامال کیے جاتے ہیں۔‘

’ساجد اور ثنا کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ ہماری اجتماعی بے حسی اور قانونی نظام کی خامیوں کی کھلی تصویر ہے۔ اگر واقعی اس ملک کو آئینی طور پر تمام شہریوں کو برابری کا حق دینا ہے تو ایسے جرائم کو محض ذاتی یا خاندانی معاملات کہہ کر دبا دینا بند کرنا ہو گا۔‘

پولیس نے اس کیس کو اہمیت دیتے ہوئے تفتیش تیز کر دی ہے۔ پولیس کی تحقیقاتی ٹیم کے ایک افسر نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ ’حراست میں لیے گئے مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ جاری ہے اور جلد مزید گرفتاریاں متوقع ہیں۔ جائے وقوعہ کے قریب سے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیجز بھی حاصل کی جا رہی ہیں۔‘

تحقیقاتی ٹیم یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ مقتولین چائنا پورٹ جیسے سنسان علاقے میں کیسے پہنچے اور ان کے ساتھ آخری بار کون لوگ رابطے میں تھے۔

ساجد اور ثنا کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ کئی زاویوں سے اہم ہے یہ دو مختلف مذہبی شناخت رکھنے والے افراد کی محبت اور ہمت کی کہانی ہے جو سماجی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے ایک نئی زندگی کا آغاز کرنا چاہتے تھے۔ لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے۔

نائمہ سعید کہتی ہے کہ اگر حکومت پاکستان اور عدالتیں واقعی غیرت کے نام پر قتل کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہیں تو ساجد اور ثنا کے قتل کیس کا تمام پہلوئوں سے جائزہ لینا ہو گا اور یہ قتل اگر غیرت کے نام پر ہوئے ہیں تو اس میں ملوث تمام افراد کو مثالی سزا دی جائے، تاکہ آنے والے وقت میں کوئی اور نوجوان محبت یا مذہب کے نام پر زندگی سے محروم نہ ہو۔

 


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow