چینی کا نام کھانے پینے تک محدود نہیں بلکہ اسے پاکستانی سیاست، اس میں سرگرم اہم شخصیات اور خاندانوں سے بھی جوڑا جاتا ہے۔ اس رپورٹ میں جانتے ہیں کہ پاکستان میں کتنی شوگر ملز ہیں، ان کے مالکان کون ہیں اور کیا شوگر انڈسٹری حکومتی فیصلوں پر اثرانداز ہوتی ہے؟

پاکستان میں پارلیمنٹ کی پبلک اکاونٹس کمیٹی نے ملک میں چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے معامل پر بلائے گئے اجلاس میں گزشتہ مالی سال میں اس کی برآمد اور موجودہ مالی سال کے پہلے مہینے میں حکومت کی جانب سے اس کی درآمد کی اجازت کی پالیسی پر تشویش کا اظہار کیا۔
اجلاس میں گزشتہ مالی سال میں چینی برآمد کرنے والی شوگر ملوں کی تفصیلات بھی جمع کرائی گئیں اور ملک میں چینی کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے شوگر ملوں کو منافع کی تفصیلات سے بھی اجلاس کے شرکا کو آگاہ کیا گیا۔
کمیٹی کے چیئرمین جنید اکبر اور دوسرے اراکین کی جانب سے شوگر ملوں کے مالکان کے نام کی تفصیلات بھی مانگی گئیں تاہم حکومتی اداروں کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا۔
پاکستان میں گزشتہ چند مہینوں میں چین کی قیمت میں نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اس اضافے کی وجہ ملک سے چینی کی برآمد کو قرار دیا گیا تھا جب گزشتہ سال ساڑھے سات لاکھ ٹن کے لگ بھگ چینی برآمد کی گئی۔
حکومت کی جانب سے چینی برآمد کی وجہ اس کے سرپلس اسٹاک کو قرار دیا گیا تھا تاہم اس برآمد کے بعد مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور ملک کے کچھ حصوں میں چینی کی قیمت دو سو روپے فی کلو تک پہنچ گئی۔
چینی کی قیمت میں اضافے سے شوگر ملوں نے کیسے 300 ارب روپے کا منافع کمایا؟
پی اے سی اجلاس میں ملک میں چینی کی برآمد کی تفصیلات جمع کرائی گئیں جس میں بتایا گیا کہ 67 شوگر ملوں نے چالیس کروڑ ڈالر یعنی 112 ارب روپے کی چینی برآمد کی تو دوسری جانب اجلاس میں نشاندہی کی گئی کہ مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں اضافے سے شوگر ملوںنے 300 ارب روپے کا منافع کمایا۔
پبلک اکاونٹس کمیٹی کے اجلاسوں کی کوریج کرنے والے سینیئر صحافی ریاض الحق جو آخری اجلاس میں بھی موجود تھے، نے بی بی سی کو بتایا کہ اجلاس میں حکومت کی جانب سے چینی برآمد کرنے والی شوگر ملوں کی تفصیلات جمع کرائی گئیں اور اس سے کمائے جانے والے زرمبادلہ کی تفصیلات بھی جمع کرائی گئیں۔
ریاض نے بتایا کہ اجلاس کے دوران آڈیٹر جنرل نے یہ ریمارکس دیے کہ مقامی قیمت میں اضافے کی وجہ سے شوگر ملوں نے تین سو ارب روپے کا منافع کمایا۔
چینی کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے شوگر ملوں کو تین سو ارب روپے کے منافع کے بارے میں پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن سے رابطہ کیا گیا ۔ آڈیٹر جنرل کے ریمارکس کے بارے میں ایسوسی ایشن کے ترجمان نے اپنے مختصر جواب میں کہا کہ تین سو ارب روپے کے منافع کی بات صحیح نہیں ہے اور یہ بغیر کسی ثبوت کے ہے۔

کون سی شوگر ملوں نے چینی برآمد کی؟
پی اے سی اجلاس میں چینی کی برآمد کے متعلقجمع کرائی سرکاری دستاویزات کے مطابق جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز سب سے بڑی برآمد کنندہ کے طور پر سامنے آئی، جس نے 73,090 میٹرک ٹن (73.09 ملین کلوگرام) چینی برآمد کی، جس کی مالیت 11.1 ارب روپے تھی۔ اس کے بعد ٹنڈلیانوالہ شوگر ملز ہےجس نے 41,412 میٹرک ٹن (5.98 ارب روپے) چینی برآمد کی۔ حمزہ شوگر ملز نے 32,486 میٹرک ٹن (5.03 ارب روپے) چینی برآمد کی۔
دیگر بڑی برآمد کنندگان میں تھل انڈسٹریز کارپوریشن لمیٹڈ نے 29,107 میٹرک ٹن (4.55 ارب روپے)، المویز انڈسٹریزنے 29,453 میٹرک ٹن (4.32 ارب روپے)، جے کے شوگر ملزنے 29,969 میٹرک ٹن (4.09 ارب روپے)، مدینہ شوگر ملزنے 18,869 میٹرک ٹن (2.79 ارب روپے)، فاطمہ شوگر ملزنے 17,365 میٹرک ٹن (2.68 ارب روپے)، ڈہرکی شوگر ملز: 16,533 میٹرک ٹن (2.45 ارب روپے)، رمضان شوگر ملزنے 16,116 میٹرک ٹن (2.41 ارب روپے، )، انڈس شوگر ملزنے 14,047 میٹرک ٹن (2.10 ارب روپے)، اشرف شوگر ملزنے 11,317 میٹرک ٹن (1.67 ارب روپے)، شکرگنج لمیٹڈ نے 7,867 میٹرک ٹن (1.13 ارب روپے) ، یونی کول لمیٹڈ نے 6,857 میٹرک ٹن (1.02 ارب روپے)، حبیب شوگر ملزنے 6,253 میٹرک ٹن (960 ملین روپے) کی چینی برآمد کی
شوگر ملز مالکان کون ہیں؟
پی اے سی اجلاس میں حکومتی اداروں سے ملک میں شوگر ملوں کے مالکان کے تفصیلات معلوم کی گئیں تاہم یہ تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
ریاض الحق نے بتایا کہ اجلاس میں بار بار مالکان کے نام پوچھنے کے باوجود حکومتی اداروں کی جانب سے مالکان کے ناموں کی تفصیلات نہیں دی گئیں۔
پاکستان کے صنعتی شعبے میں شوگر انڈسٹری کا حصہ قریب ساڑھے تین فیصد ہے۔
پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کی ویب سائٹ کے مطابق اس تنظیم کے 48 ارکان ہیں تاہم ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان نامی سرکاری ادارے کے مطابق اس وقت مجموعی طور پر 72 شو گر ملز کام کر رہی ہیں۔
جبکہ پنجاب فوڈ ڈپارٹمنٹ کی ویب سائٹ کے مطابق ان کی تعداد 85 ہے جن کی اکثریت یعنی 45 شوگر ملز پنجاب میں قائم ہیں جبکہ سندھ میں ان کی تعداد 32 اور خیبر پختونخوا میں آٹھ ہے۔
چینی سے جڑے تنازعات پر اکثر شوگر ملز مالکان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ حکومتی پالیسی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کے منافع کی قیمت عام صارفین کو چکانی پڑتی ہے۔
درحقیقت ملک میں قائم کئی شوگر ملز کاروباری افراد کے علاوہ بااثر سیاسی شخصیات اور خاندانوں کی ملکیت میں بھی ہیں تاہم ہم نے اس حوالے سے کچھ جانچ پڑتال کی ہے۔
پاکستان میں شوگر ملز کی ملکیت خالصتاً کاروباری افراد، جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، کے ساتھ ساتھ سیاسی افراد کے پاس بھی ہے۔
پاکستان میں شوگر ملز کے مالکان کون ہیں اس بارے میںبی بی سی نے تحقیقات کی ہیں۔
جمالدین والی شوگر مل اور جہانگیر ترین
جمالدین والی شوگر مل کی ویب سائٹ پر موجودہ معلومات کے مطابق جہانگیر ترین جے ڈی ڈبلیو گروپ کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے رکن ہیں جس کی ملکیت میں تین شوگر ملز ہیں۔ ان میں دو پنجاب کے ضلع رحیم یار خان اور ایک سندھ کے ضلع گھوٹکی میں موجود ہے۔
اس گروپ کے بورڈ کے ڈائریکٹر اور چیئرمین مخدوم احمد محمود ہیں جو سابق گورنر پنجاب ہیں۔ اسی طرح ان کے بیٹے سید مصطفی محمود بھی ایک بورڈ کے ایک ڈائریکٹر ہیں جو رحیم یار خان سے پی پی پی کے ٹکٹ پر ایم این اے ہیں۔
رحیم یار خان گروپ
رحیم یار خان گروپ کی ویب سائٹ پر موجودہ معلومات کے مطابق اس کی ملکیت شوگر مل رحیم یار خان میں واقع ہے۔ اس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر مخدوم عمر شہر یار ہیں جو سابق وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی ہیں۔
الیکشن کمیشن میں جمع اثاثوں کے تفصیلات کے مطابق اس گروپ کے مالکان میں کیسکیڈ ٹیک کمپنی بھی شامل ہے جس میں چوہدری مونس الہی شیئر ہولڈرز ہیں۔ وہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہی کے بیٹے ہیں۔
یہی رحیم یار خان شوگر ملز، الائنس شوگر ملز کی بھی مالک ہے۔ اشرف گروپ آف انڈسٹریز کی ویب سائٹ کے مطابق ضلع بہاولپور میں واقع اشرف شوگر ملز چوہدری ذکا اشرف کی ملکیت ہے جو پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین اور صدر آصف زرداری کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔
شریف گروپ اور سیاست دانوں کی شوگر ملز
شریف گروپ کی ویب سائٹ کے مطابق اس کی ملکیت میں دو شوگر ملز ہیں جن میں سے ایک رمضان شوگر مل اور دوسری العربیہ شوگر مل ہے۔
شریف گروپ کی بنیاد میاں محمد شریف نے رکھی تھی جو سابق وزیر اعظم نواز شریف اور موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کے والد ہیں۔
اسی طرح کشمیر شوگر مل الشفیع گروپ کی ملکیت ہے جو شریف فیملی کے رشتہ دار ہیں۔
حسیب وقاص گروپ تین شوگر ملوں کا مالک ہے۔ گروپ کی ویب سائٹ پر دی گئی تفصیلات کے مطابق اس کی ملکیت میں حسیب وقاص شوگرملز، یوسف شوگر ملز اور عبداللہ شوگر ملز ہیں۔ حسیب وقاص گروپ میاں الیاس معراج کی ملکیت ہے جو میاں نواز شریف اور میاں شہاز شریف کے کزن ہیں۔
ملتان میں قائم فاطمہ شوگر مل کی ویب سائٹ پر معلومات کے مطابق اس کے چیف ایگزیکٹو آفیسر فیصل مختار ہیں جو ملتان کے سابق ضلع ناظم ہیں۔
نون شوگر ملز کے بورڈ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیف اللہ خان نون ہیں جو معروف سیاسی خاندان نون فیملی کا حصہ ہیں۔
راجن پور کا دریشک خاندان انڈس شوگر ملز راجن پور میں حصہ دار ہے۔ 2018 کے انتخابات میں راجن پور سے ممبر پنجاب اسمبلی منتخب ہونے والے سردار حسنین بہادر خان دریشک ماضی میں صوبے کے وزیر خزانہ اور لائیو سٹاک کے صوبائی وزیر بھی رہے۔ ان کے الیکشن کمیشن میں جمع اثاثوں کی تفصیلات کے مطابق وہ اس مل میں حصہ دار ہیں۔
تاندلیانوالہ شوگر ملز کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق اس کی ملکیت میں دوسرے افراد کے ساتھ ہمایوں اختر خان بھی شامل ہیں جو سابق وفاقی وزیر ہیں جبکہ ان کے ساتھ ان کے بھائی ہارون اختر خان بھی ہیں جو اس وقت وزیر اعظم کے معاون خصوصی ہیں۔
سندھ کی شوگر ملز اور اومنی گروپ
سندھ میں شوگر ملز کی ملکیت کو دیکھا جائے تو اومنی گروپ کی ویب سائٹ پر فراہم معلومات کے مطابق یہ گروپ نو شوگر ملز کی مالک ہے جن میں انصاری شوگر ملز، باوانی شوگرملز، چمبر شوگر ملز، خوسکی شوگر ملز، لاڑ شوگر ملز، نو ڈیرو شوگر ملز، نیو دادو شوگر ملز، نیو ٹھٹھہ شوگر ملز اور ٹنڈو اللہ یار شوگر ملز شامل ہیں۔
اومنی گروپ انور مجید کی ملکیت ہے جو اگرچہ براہ راست سیاست میں شامل نہیں تاہم ان کا شمار صدر آصف زرداری کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ انور مجید کو آصف زرداری کے ساتھ جعلی بینک اکاونٹس کیس میں شریک ملزم قرار دیا گیا تھا۔
سندھ کے ضلع بدین میں قائم مرزا شوگر ملز کی سٹاک مارکیٹ پر دی گئی آخری معلومات کے مطابق اس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا شامل ہیں جو سندھ کے سابق وزیر داخلہ اور سابق سپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کے شوہر ہیں۔
خیبر پختونخوا کی شوگر ملز
خیبر پختونخوا میں قائم شوگر ملز میں پریمیئر شوگر ملز اور چشمہ شوگر ملز عباس سرفراز خان کی ملکیت ہیں جو سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی وفاقی کابینہ کا حصہ تھے۔
اسی طرح تاندلیانوالہ شوگر ملز کا ایک یونٹ ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی ہے جو اختر فیملی کی ملکیت ہے۔
چینی، سیاست اور سکینڈلز
چائے سے لے کر مشروبات اور مٹھائیوں کی تیاری تک پاکستان میں چینی کا استعمال خوراک کا اہم جزو ہے مگر اس کی قیمت میں اتار چڑھاؤ پاکستانیوں کے کھانے پینے کی چیزوں پر اٹھنے والے اخراجات پر اثر اانداز ہوتا ہے۔ محتاط اندازوں کے مطابق ہر پاکستانی سالانہ تقریباً 28 کلو گرام چینی استعمال کرتا ہے۔
مگر چینی کا نام کھانے پینے تک محدود نہیں بلکہ اسے پاکستانی سیاست، اس میں سرگرم اہم شخصیات اور خاندانوں سے بھی جوڑا جاتا ہے۔ اس کی قیمت بھی ایک ایسا معاملہ ہے جس پر ہر چند برس بعد بحران جیسی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔
گذشتہ ماہ پاکستان میں چینی کی درآمد کے حکومتی فیصلے پر خاصی تنقید ہوئی۔ ناقدین یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ حکومت نے شوگر ملز کو گذشتہ مالی سال کے دوران چینی برآمد کرنے کی اجازت ہی کیوں دی تھی۔
2 جولائی کو نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق لاکھوں ٹن چینی درآمد کرنے کی اجازت اس لیے دی گئی تاکہ ’مقامی مارکیٹ میں مناسب سپلائی اور قیمتوں میں استحکام کو یقینی بنایا جاسکے۔‘
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ مالی سال کے دوران پاکستان نے ساڑھے سات لاکھ ٹن سے زائد چینی کی برآمد کی تھی جبکہ اب حکومت نے اتنی ہی مقدار درآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔
چینی کی امپورٹ ایکسپورٹ کے علاوہ ہر سال ملک میں گنے کے کرشنگ سیزن کے وقت قیمت کے تعین سے لے کر کسانوں کو ادائیگی میں تاخیر تک، مختلف نوعیت کے تنازعات جنم لیتے رہتے ہیں۔
بعض مبصرین جہاں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان میں شوگر ملز ایک کارٹیل کی طرح کام کرتے ہیں وہیں ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ تاثر اس لیے قائم ہوا کیونکہ ملک میں شوگر ملز کی ایک بڑی تعداد سیاسی افراد کی ملکیت ہیں اور اسی لیے یہ خدشہ پایا جاتا ہے کہ وہ اس صنعت سے متعلق حکومتی پالیسی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

چینی کی برآمد اور پھر درآمد پر تنازع کیوں کھڑا ہوتا ہے؟
موجودہ دور میں بحران نے اس وقت جنم لیا جب حکومت نے 750000 ٹن چینی درآمد کرنے کا کیا جبکہ گذشتہ مالی سال کے دوران حکومت نے 750000 ٹن سے زائد چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی۔
ملک میں اس وقت چینی کی قیمت بعض شہروں میں 190 روپے فی کلو سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔
پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق گذشتہ ہفتے چینی کی فی کلو ریٹیل قیمت 182 فی کلو تھی جو گذشتہ سال 143 روپے تھی۔ چینی کی قیمتوں میں کمی لانے کے لیے حکومت نے چینی کی درآمد کا فیصلہ کیا ہے۔
تاہم 30 جون 2025 کو ختم ہونے والے مالی سال میں 750000 ٹن چینی کی برآمد کے فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جس کے ذریعے شوگر ملز نے چینی برآمد کر کے غیر ملکی زرمبادلہ کی صورت میں آمدنی حاصل کی۔ دوسری جانب مقامی مارکیٹ میں صارفین کے لیے اس کی قیمت بڑھ گئی۔
موجودہ حکومت سے پہلے پاکستان تحریک انصاف کے دور میں بھی ایسا ہی ایک تنازع پیدا ہوتا تھا۔ اپوزیشن کی تنقید کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر ایف آئی اے نے ایک انکوائری بھی کی جس میں ملک میں چینی کی قلت اور اس کی قیمت میں اضافے کا ذمہ دار شوگر ملز کو قرار دیا گیا تھا۔
ایف آئی اے کی اس انکوائری رپورٹ میں جے ڈی ڈبلیو یعنی جمالدین والی گروپ، رحیم یار خان گروپ، اومنی گروپ، شامین احمد خان گروپ کی شوگر ملز کو اس وقت چینی بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔
اس انکوائری میں ملز کو چینی کی برآمد کے لیے برآمدی سبسڈی سے فائدہ اٹھا کر منافع کمانے کے ساتھ مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں اضافے سے زیادہ منافع کمانے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔
واضح رہے کہ اس وقت بھی چینی کی برآمد کی وجہ سے اس کی قیمت مقامی منڈی میں کافی اوپر چلی گئی تھی۔

کیا پاکستان میں شوگر مل بنانا آسان ہے؟
ہم نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صنعت و پیداوار ہارون اختر خان سے پوچھا کہ پاکستان میں شوگر مل کیسے قائم کی جا سکتی ہے اور اس کے لیے لائسنس کیسے حاصل کیا جاتا ہے تو انھوں نے بتایا کہ یہ ایک صوبائی معاملہ ہے۔
ان کے مطابق پنجاب میں اس وقت نئی شوگر مل یا کسی موجودہ شوگر مل کے قیام میں توسیع کی اجازت نہیں ہے۔
دوسری جانب سندھ اور خیبر پختونخواہ میں نئی شوگر مل صرف اس صورت میں قائم کی جا سکتی ہے اگر صوبائی حکومت اس کی اجازت دے جبکہ بلوچستان میں گنے کی فصل نہیں ہوتی اور اسی لیے وہاں اس کی ضرورت نہیں۔
مسابقتی کمیشن آف پاکستان کی شوگر سیکٹر پر 2010 میں بنائی جانے والی ایک رپورٹ کےمطابق اگر حکومت کی جانب سے کوئی پابندی نہ بھی ہو تو کسی علاقے میں شوگر مل لگانے کے لیے اس علاقے کی سیاسی اور سماجی اشرافیہ کی غیر رسمی منظوری ضروری ہوتی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق شوگر مل لگانے کے لیے سیاسی بنیادوں پر لائسنس کی ایک طویل تاریخ ہے اور معاشی اور کمرشل بنیادوں کے بجائے سیاسی بنیادوں پر شوگر مل لگانے کی وجہ سے اس شعبے میں حالات خراب ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق 1948 سے شوگر انڈسٹری کی شروعات سے لے کر اب تک کئی اتار چڑھاؤ آئے ہیں۔ 1948 میں دو شوگر ملز سے شروع ہونے والی انڈسٹری 1960 چھ شوگر ملز پر مشتمل تھی۔ 1961 سے 1970 تک شوگر ملوں کی تعداد 20 ہو گئی اور 1980 تک یہ تعداد 34 ہو چکی تھی۔
اسی کی دہائی میں 26 نئی شوگر ملز کے قیام کے بعد ان کی تعداد 60 تک جا پہنچی۔ تاہم 1990 کے بعد سے موجودہ صدی کی پہلی دہائی تک نئی شوگر ملز کے قیام کی رفتار سست رہی اور اس عرصے میں صرف 19 نئی شوگر ملز لگائی گئیں۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں شوگر مل لگانے میں سیاست کا کلیدی کردار ہے، چاہے شوگر مل لگانی ہو یا اس کے لیے فنانسنگ اور اسے آپریٹ کرنے کے لیے سیاسی پشت پناہی ضروری ہے۔
سیاسی افراد کا پاکستان میں چینی کی حکومتی پالیسیوں پر کتنا اثر و رسوخ ہے؟
پاکستان میں خالصتاً کاروباری گروپوں کے علاوہ سیاسی افراد شوگر ملز کے مالک یا ان میں حصے دار ہیں۔
پاکستان میں چینی کی تجارت اور قیمتوں سے متعلق حکومتی پالیسیوں پر ان کے اثرانداز ہونے کے بارے میں پاکستان کے سابق مشیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ حقیقت ہے کہ جب شوگر ملز کو سبسڈی چاہیے تو انھیں مل جاتی ہے، جب برآمد کرنے کی اجازت چاہیے وہ بھی مل جاتی ہے اور جب چینی درآمد کرنے کی اجازت چاہیے تو وہ بھی مل جاتی ہے۔‘
ان کے مطابق اس کا مطلب ہے کہ شوگر ملز مالکان کا ’حکومتی پالیسیوں پر اثر و نفوذ ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ یہ پالیسیاں ’عوام کی نظر سے نہیں بلکہ شوگر ملز مالکان کے نکتہ نظر سے بنائی جاتی ہیں۔‘ سابق مشیر خزانہ نے کہا کہ ’یہ ایک قسم کا کارٹیل ہے اور ان کی ایسوسی ایشن بھی بہت طاقتور ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’چینی ایک ضروری آئٹم بن چکا ہے اور اس میں شوگر ملز کو کسی مسابقت کا سامنا نہیں ہے کیونکہ یہ اس کی پیداوار سے لے کر اس کی مارکیٹ میں فروخت تک، ہر چیز پر اثر انداز ہوتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس شعبے میں حکومتی مداخلت بہت زیادہ ہے، اس لیے آئے دن شوگر سکینڈل ہوتے ہیں۔‘ ان کے مطابق ’جب تک حکومتی مداخلت ختم نہیں ہوتی، یہ سکینڈل آتے رہیں گے۔‘
ڈاکٹر سلمان شاہ نے کہا کہ ’کرشنگ سے لے کر چینی کی قیمت مقرر کرنے اور چینی کی درآمد و برآمد ہر جگہ حکومتی مداخلت چینی کے بحرانوں کو جنم دیتی ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ اس سیکٹر کو ڈی ریگولیٹ کیا جائے۔‘
ان کی تجویز ہے کہ ’حکومتی مداخلت کے بجائے مارکیٹ فورسز چینی کی قیمت اور اس کی طلب و رسد کا تعین کریں۔‘

شوگر ملز ایسوسی ایشن کا موقف
پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین سکندر خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے چینی شعبے کو ڈی ریگولیٹ کرنے کی حمایت کی تاکہ ’ذخیرہ اندوزی، کارٹیلائزیشن اور قیمتوں پر ناجائز منافع خوری کو روکا جا سکے۔‘
جب چینی کے شعبے میں سیاسی افراد کی جانب سے اثرانداز ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’ایسے الزامات سامنے آتے رہتے ہیں۔‘ تاہم انھوں نے کہا ’اس شعبے کے لیے ضروری ہے کہ اسے ڈی ریگولیٹ کر دیا جائے تاکہ ایسے بحرانوں سے بچا جا سکے۔‘
انھوں نے کہا کہ گھریلو صارفین کے لیے اگر چینی پر سیلز ٹیکس ختم کر دیا جائے تو حکموت کے ریونیو پر کوئی فرق نہ پڑے گا کیونکہ زیادہ مقدار میں چینی انڈسٹری میں استعمال ہوتی ہے۔ ’تاہم گھریلو صارفین کے لیے سیلز ٹیکس کے چینی پر خاتمے سے اس کی قیمت کو نیچے لایا جا سکتا ہے۔‘
پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین چوہدری ذکا اشرف نے اس سلسلے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ چینی کے ایشو پر صرف شوگر ملز والے ہی خراب بندے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جب کچھ صحیح چل رہا ہو تو حکومت کہتی ہے کہ ان کی پالیسی ہے اور جب کچھ غلط ہو جائے تو کسی نہ کسی کو قربانی کا بکرا بنانا ہوتا ہے۔‘
انھوں نے اس تاثر کی بھی نفی کی کہ شوگر ملز مالکان کا سیاسی اثر و رسوخ ہے جس کی بنیاد پر وہ پالیسیوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ ذکا اشرف پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’سوائے چند ملز کے باقی شوگر مالکان خالصتاً کاروباری افراد ہیں۔‘
ذکا اشرف نے کہا کہ ’عمران خان کے دور کا چینی بحران ہو یا موجودہ دور کا، اس میں شوگر ملز مالکان نے حکومت کو جو تجاویز دیں اس کے بر خلاف ہی پالیسی بنائی گئی جس کا جب خراب نتیجہ نکلتا ہے تو شوگر انڈسٹری کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔‘
حکومت کا اس بارے میں کیا موقف ہے؟
پاکستان میں شوگر انڈسٹری کے حکومتی ایوانوں میں اثر و رسوخ اور پالیسیوں پر اثرانداز ہونے کے بارے میں بی بی سی نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صنعت و پیداوار ہارون اختر خان سے رابطہ کیا جن کا اپنا خاندان شوگر انڈسٹری میں سرگرم ہے۔
ہارون اختر نے اس بات کی تردید کی کہ شوگر انڈسٹری مالکان حکومتی پالیسیوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’شوگر انڈسٹری کے افراد کا پالیسی میں کوئی کردار نہیں ہے۔‘
ان کے مطابق ’شوگر انڈسٹری بھی دوسرے شعبوں کی طرح لابنگ کرتی ہے تاہم یہ بات صحیح نہیں ہے کہ وہ حکومتی پالیسی پر اثرانداز ہوتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ ایک اچھی خاصی انڈسٹری ہے جسے سیاست زدہ کرنے کی کوششوں نے اس کی ترقی کو متاثر کیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پچاس فیصد شوگر ملز دیوالیہ ہو چکی ہیں۔‘ ان کے مطابق شوگر ملز مالکان کی اکثریت غیر سیاسی افراد پر مشتمل ہے۔
ہارون اختر کا کہنا تھا کہ ’کسی زمانے میں بڑے بڑے کاروباری گروپ شوگر ملز کے مالک تھے۔ لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ صرف وسطی پنجاب میں 20-25 فیصد شوگر ملز کے مالکان تبدیلی ہو چکے ہیں۔‘
شوگر انڈسٹری کے حکومتی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کے دعوؤں پر ان کا کہنا تھا کہ بعض ماہرین کی رائے ماضی پر محیط ہے تاہم ’اب ایسا نہیں ہوتا۔‘
انھوں نے کہا کہ وہ شوگر ملز کے علاوہ دوسرے صعنتی شعبوں کے سٹیک ہولڈرز سے ملتے ہیں جس میں ’شوگر انڈسٹری سمیت سب اپنے لیے لابی کرتے ہیں تاہم ایسا نہیں ہے کہ وہ حکومتی پالیسی کو بدل سکیں۔‘
انھوں نے اس بات کی تائید کی کہ چینی کے شعبے کو بھی ڈی ریگولیٹ ہونا چاہیے کیونکہ صوبائی سطح پر یہ بہت زیادہ ریگولیٹڈ سیکٹر ہے۔
ہارون اختر نے بتایا کہ ایک زمانے میں چاول ریگولیٹڈ شعبہ تھا اور اس میں مسائل درپیش ہوتے تھے تاہم جب سے یہ شعبہ ڈی ریگولیٹ ہوا ہے تو اس میں کوئی بحران نہیں ہوتا۔
انھوں نے کہا کہ ’چینی کے شعبے کو ڈی ریگولیٹ کرنے کے بعد بھی حکومت کو پانچ لاکھ ٹن تک بفر سٹاک رکھنا چاہیے تاکہ چینی کی قیمتوں کو مستحکم رکھا جا سکے۔‘