’آپریشن مہادیو‘: انڈین سکیورٹی فورسز پہلگام کے مبینہ پاکستانی حملہ آوروں تک کیسے پہنچیں؟

انڈین پولیس اور فوج کے ذرائع نے بتایا کہ مہادیو پہاڑ کے اردگرد ایک ماہ سے انٹیلیجنس آپریشن جاری تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ تکنیکی انٹیلیجنس سے زیادہ معتبر معلومات داچھی گام، دارا اور ہارون میں رہنے والے قبائلی شہریوں سے ملی تھیں۔
انڈین فوج
Getty Images
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے مشہور سیاحتی مقام پہلگام میں رواں سال اپریل میں سیاحوں پر ہونے والے حملے میں 26 افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہو گئے تھے

انڈین وزیر داخلہ امیت شاہ نے منگل کے روز پارلیمنٹ میں دعویٰ کیا کہ انڈیا کے پاس اِس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ پہلگام حملے میں ملوث مبینہ عسکریت پسندوں کو ’آپریشن مہادیو‘ میں ہلاک کر دیا گیا۔

امیت شاہ کا کہنا تھا کہ ’ہم سے پوچھا گیا کہ کیا ثبوت ہیں کہ دہشت گرد پاکستان سے آئے؟ ہمارے پاس ثبوت ہیں جو میں اس ایوان کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ یہ تینوں دہشت گرد پاکستانی تھے۔ ان تین دہشت گردوں میں سے دو کے پاکستانی ووٹر آئی ڈی ہمارے پاس ہیں، اُن کی رائفلیں بھی ہمارے قبضے میں ہیں۔ اُن کے پاس سے جو چاکلیٹس ملیں، وہ بھی پاکستان کی بنائی ہوئی چاکلیٹس ہیں۔‘

یاد رہے کہ انڈین پارلیمنٹ کا اجلاس گزشتہ ہفتے سے جاری تھا اور وزیراعظمنریندر مودی کو پہلگام حملوں کی تحقیقات اور آپریشن سندور سے متعلق پارلیمنٹ سے خطاب کرنا تھا لیکن پیر کی صبح ساڑھے گیارہ بجے انڈین فوج نے داچھی گام میں جھڑپوں کی تصدیق کی۔

فوج نے محض اتنا کہا کہ تین عسکریت پسند مارے گئے ہیں لیکن منگل کے روز وزیر داخلہ نے اس جھڑپ کو پہلگام ہلاکتوں کی تحقیقات سے متعلق بڑا بریک تھُرو قرار دیا۔

انھوں نے کہا کہ ’آپریشن سِندور میں حملہ آوروں کے آقاوٴں کو ٹھکانے لگایا تھا اور آپریشن مہادیو میں حملہ آوروں کو ٹھکانے لگایا گیا۔‘

امیت شاہ کے مطابق ’سرینگر کے قریب ہونے والی جھڑپ کی جگہ سے برآمد ہتھیاروں کی بیلِسٹِک اور فرانزک جانچ کی گئی جبکہ تکنیکی معلومات کے بعد حملہ آوروں کو گھیرنے کے لیے پیرا کمانڈوز کو خصوصی طور جموں سے طلب کیا گیا تھا۔‘

انڈین وزیر داخلہ نے کہا کہ انھیں منگل کی صبح پونے پانچ بجے ہتھیاروں کی بیلسٹک رپورٹ دی گئی جس کے مطابق مارے گئے عسکریت پسندوں سے برآمد ہونے والی بندوقیں اور گولیاں ہو بہو وہی ہیں جو پہلگام حملے میں استعمال ہوئی تھیں۔

امیت شاہ نے اپنے دعوے میں مزید کہا کہ سرینگر کے داچھی گام جنگلات میں مارے گئے تینوں عسکریت پسندوں کی لاشوں کی شناخت، پہلے سے حراست میں لیے گئے دو کشمیریوں نے کی، جن پر الزام ہے کہ انھوں نے اُن کو پناہ دی تھی۔

یاد رہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے مشہور سیاحتی مقام پہلگام میں رواں سال اپریل میں سیاحوں پر ہونے والے حملے میں 26 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ انڈیا نے ان حملوں میں پاکستان کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا جبکہ پاکستان کی جانب سے اس کی سحتی سے تردید کی جاتی رہی ہے۔

حملہ آوروں کی تلاش میں تین ماہ کیوں لگے؟

کشمیر میں سیاحوں کی ہلاکت
Getty Images
بائی سرن ویلی میں مسلح افراد نے 25 مرد سیاحوں کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا

22 اپریل کی دوپہر کو سرینگر کے جنوب میں سیاحتی مقام پہلگام کی بائی سرن ویلی میں مسلح افراد نے 25 مرد سیاحوں کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔ فائرنگ میں ایک مقامی کشمیری گھوڑے بان بھی مارا گیا۔

حملے کے دوسرے ہی روز انڈیا میں انسدادِ دہشت گردی کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (این آئی اے) کی ٹیم پہلگام پہنچی اور تحقیقات شروع ہوئی۔

تحقیقات کے ساتھ ساتھ فوج، پولیس اور نیم فوجی دستوں نے پہلگام کے آس پاس کے جنگلات میں وسیع پیمانے پر تلاشی شروع کر دی۔

اس دوران اننت ناگ اور شوپیاں میں دو الگ الگ جھڑپوں میں چھ مبینہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا۔ اس کے علاوہ نو ایسے روپوش عسکریت پسندوں کے گھروں کو بارود سے اُڑایا گیا، جن کے بارے میں پولیس کا کہنا ہے کہ ’ان کا پہلگام واقعہ کے ساتھ تعلق ہونے کا شبہہ تھا۔‘

تین مہینے سے زیادہ عرصے تک چلنے والی تحقیقات میں کئی اُتار چڑھاوٴ آئے۔ حملے کے 24 گھنٹے کے دوران ہی مقامی پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ سازش پاکستان میں مقیم عسکریت پسندوں نے کی تھی اور اس میں ملوث دو پاکستانیوں اور ایک کشمیری شہری کے تصویری خاکے بھی جاری کردیے تھے۔

این آئی اے نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ ابھی تک حملہ آوروں کی شناخت ممکن نہیں ہو سکی۔

این آئی اے کے تحقیقاتی عمل میں شامل ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’یہ ایک پیچیدہ آپریشن تھا۔ کشمیر گھنے جنگلات اور اونچے پہاڑوں سے گھِرا ہوا ہے۔ چند برس کے دوران دہشت گردوں نے جنگل وارفئیر کے حربے شروع کیے ہیں۔ ایک ہی وقت میں سبھی جنگلات اور سبھی پہاڑوں کا محاصرہ ممکن نہیں تھا، اس لیے دو مرحلوں پر ساتھ ساتھ کام ہوا، ایک تو تلاشی مہم جاری رہی اور دوسرے مرحلے پر تکنیکی انٹیلیجنس پر فوکس کیا گیا۔ اس طرح یہ آپریشن کامیاب ہوا اور سبھی حملہ آوروں کو مار دیا گیا۔‘

آپریشن کا نام ’مہادیو‘ ہی کیوں؟

مہادیو دارصل سرینگر میں داچھی گام اور ہارون جنگلات کے ساتھ ملحقہ ایک بلند ترین چوٹی کا نام ہے۔ یہ پہاڑی ہندو دیومالا کے مطابق ہندووٴں کے بھگوان شِو کے ساتھ منسوب ہے اور یہی بھگوان شِو کا مسکن رہا ہے جہاں سے وہ کشمیر کی روحانی رہنمائی کرتے تھے۔

28 جولائی کو مہادیو پہاڑی پر واقع لیدواس نامی جنگلاتی وادی میں ہی وہ جھڑپ ہوئی تھی جس میں تین مبینہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا۔

تحقیقاتی ٹیم کے افسر نے بتایا کہ ’آپریشن کا نام جغرافیائی مناسبت کی وجہ سے رکھا گیا تھا۔‘

واضح رہے مہادیو پہاڑی پر لیدواس ویلی، جہاں یہ جھڑپ ہوئی، سطح سمندر سے 13 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اس پہاڑی کے ایک جانب کے جنگلات پہلگام سے ملتے ہیں اور دوسری جانب گلمرگ کے ساتھ۔

سیاحتی مقامات ہونے کے ساتھ ساتھ پہلگام اور گلمرگ، فوجی تنصیبات اور پاکستانی سرحد سے ملحقہ ہونے کی وجہ سے بہت اہم ہیں۔ یہی وجہ ہے مہادیو پہاڑی اور اس کے اردگرد جنگلاتی علاقے انڈین فوج کے لیے سٹریٹجِک اہمیت کے حامل ہیں۔

ایک فوجی افسر نے بتایا کہ ’داچھی گام سے پہلگام کا بذریعہ سڑک سفر کریں تو 120 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا ہوتا ہے لیکن یہی سفر اگر جنگلاتی راستے سے کریں تو صرف 30 کلومیٹر کا فاصلہ بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے دوسری جگہوں پر تلاشی مہم کے ساتھ ساتھ دو ماہ سے ان ہی جنگلات پر فوکس کیا گیا۔‘

سکیورٹی اہلکار مبینہ عسکریت پسندوں تک کیسے پہنچے؟

وادی بائی سرن میں تعینات فوج
EPA
وادی بائی سرن تک ہائیکنگ یا گھوڑوں کی مدد سے ہی پہنچا جا سکتا ہے

انڈین پولیس اور فوج کے ذرائع نے بتایا کہ مہادیو پہاڑ کے اردگرد ایک ماہ سے انٹیلیجنس آپریشن جاری تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ تکنیکی انٹیلجنس سے زیادہ معتبر معلومات داچھی گام، دارا اور ہارون میں رہنے والے قبائلی شہریوں سے ملی تھیں۔

’لید واس ویلی کے بعد پہلی آبادی 30 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ جنگل میں کچھ اجنبی لوگ دیکھے گئے، اسی اطلاع کی بنیاد پر تکنیکی آلات اور حرارت کا تعاقب کرنے والے ڈرونز کی مدد سے دہشت گردوں کی لوکیشن کا پتہ لگایا گیا۔‘

سکیورٹی ذرائع کے مطابق محاصرہ مکمل کرنے کے بعد جب خصوصی طور پر جموں سے طلب کیے پیراکمانڈوز نے مبینہ عسکریت پسندوں کا سامنا کیا تو ایک عسکریت پسند چائے بنا رہا تھا اور باقی دو خیمے میں آرام کر رہے تھے۔

’پہلے راوٴنڈ میں صرف ایک دہشت گرد مارا گیا، پھر بعد میں باقی دو کو مارا گیا۔ انھوں نے فائرنگ کرنے کی کوشش کی لیکن یہ ایک سرپرائز آپریشن تھا اس لیے انھیں مزاحمت کا موقع نہیں ملا۔‘

چاکلیٹ ہی کیوں؟

انڈین وزیرداخلہ نے جب یہ دعویٰ کیا کہ عسکریت پسندوں سے پاکستان میں بنے چاکلیٹ بھی برآمد ہوئے تو بعض حلقوں میں یہ بحث چھِڑی کہ انھوں نے چاکلیٹ کیوں رکھے تھے۔

آپریشن سے جڑے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’جنگل وارفئیر ایک الگ طرح کا ٹیکٹِک (حربہ) ہے۔ دہشت گرد جنگلوں میں موجود سرنگوں میں پناہ لیتے ہیں یا کسی پہاڑی درّے میں خیمہ لگاتے ہیں۔ یہ پناہ گاہیں بستیوں اور بازاروں سے بہت دُور ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ لوگ ہائی پروٹین چاکلیٹ، ڈرائی فروٹ (خشک میوہ) خاص طور سے کھجور ساتھ رکھتے ہیں تاکہ کھانے کے لیے زیادہ نقل و حرکت کی ضرورت نہ پڑے۔‘

پہلگام حملے کے بعد گو انڈیا اور پاکستان کے درمیان سفارتی اور فوجی کشیدگی پیدا ہو گئی لیکن انڈیا میں یہ سوال تقویت پا رہا تھا کہ کشمیر میں بے مثال فوجی موجودگی اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے باوجود حملہ آور پکڑے یا مارے کیوں نہیں گئے۔

حملہ آوروں کی روپوشی اور آپریشن سندور کے دوران انڈین فضایہ کو پہنچنے والے مبینہ نقصان سے متعلق کانگریس اور دوسری اپوزیشن جماعتوں نے مودی حکومت کو مجبور کیا تھا کہ وہ پارلیمنٹ میں ان سوالوں کا جواب دیں جس پر مودی حکومت راضی بھی ہو گئی تھی۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow