گلگت بلتستان میں واقع ’لیلیٰ چوٹی‘ سر کرنے کی کوشش کے دوران حادثے کا شکار ہونے والی جرمن ایتھلیٹ اور کوہ پیما لارا ڈہلمیئر کو مردہ قرار دیتے ہوئے اُن کی تلاش کے لیے کیا جانے والا آپریشن ختم کر دیا گیا ہے۔
پاکستان کے زیرِ انتظام خطے گلگت بلتستان میں واقع ’لیلیٰ چوٹی‘ سر کرنے کی کوشش کے دوران حادثے کا شکار ہونے والی جرمن ایتھلیٹ اور کوہ پیما لارا ڈہلمیئر کو مردہ قرار دیتے ہوئے اُن کی تلاش کے لیے کیا جانے والا آپریشن ختم کر دیا گیا ہے۔
پاکستانی اور غیر ملکی کوہ پیماؤں کی ٹیم کے مطابق، پہاڑ سے بھاری بھر کم پتھروں کے گرنے سے لارا انتہائی خطرناک مقام پر جا گریں تھیں اور فی الحال اُس مقام سے اُن کی میت کو واپس لانا آسان نہیں ہے۔
گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق کے مطابق یہ حادثہ 28 جولائی کو پیش آیا تھا۔ اُن کے مطابق خراب موسم کے باعث 29 جولائی کو ہیلی کاپٹر اُن کی تلاش کے کام کے لیے پرواز نہیں کر سکے تاہم گراونڈ آپریشن کے ذریعے اُن کی تلاش کا کام جاری رہا۔
فیض اللہ فراق کا کہنا ہے کہ لارا پاکستانی اور بین الاقوامی کوہ پیماؤں اُس ٹیم کا حصہ تھیں جنھیں گذشتہ بدھ کے روز ہیلی کاپٹر کے ذریعے لیلی پیک کے بیس کیمپ اُتارا گیا۔
حکومتی ترجمان کے مطابق تلاش کے کام میں حصہ لینے والی ٹیم نے سارا دن سرچ آپریشن کرنے کے بعد بتایا کہ وہ ممکنہ مقام جہاں لارا کو حادثہ پیش آیا ہے وہ لینڈ سلائیڈنگ اور پتھروں کے گرنے کی وجہ سے انتہائی خطرناک ہو چکا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ریسیکو ٹیم کو واپس بیس کیمپ پہنچنے کا کہا گیا تھا۔
’لیلی پیک‘ گلگت بلتستان کی وادی ہوشے میں واقع ہے جس کی بلندی 6094 میٹر ہےلارا ڈہلمیئر کی مینجمنٹ ٹیم کی جانب سے جرمن میڈیا کو جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’عین ممکن ہے کہ وہ 28 جولائی کو ہی ہلاک ہو چکی ہوں۔‘
لارا کی ٹیم کا کہنا تھا کہ اُن کی خواہش تھی، جو کہ تحریری صورت میں موجود ہے، کہ اگر کبھی اُن کو ایسا کوئی حادثہ پیش آ جائے تو اُن کو ریسیکو کرنے کے بجائے پہاڑوں ہی پر چھوڑ دیا جائے اور ان کے لیے کوئی بھی اپنی زندگی کو خطرے میں نہ ڈالے۔
ٹیم کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ موجودہ موسمی حالات میں لیلی پیک پر پتھر گرنے اور لینڈ سلائیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے اور ایسے میں لاش کو ریسیکو کرنا ممکن نہیں۔
واقعہ کیسے پیش آیا؟
الپائن کلب آف پاکستان کے نائب صدر کرار حیدری کے مطابق لارا ڈہلمیئر، جرمنی ہی سے تعلق رکھنے والی خاتون کوہ پیما مرینا ایوا کے ہمراہ بلتستان میں لیلی پیک کی 6094 میٹر بلند چوٹی سر کرنے کی کوشش کر رہی تھیں کہ اس دوران پتھر گرنے اور لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے وہ گِر گئیں۔
اس حادثے میں اُن کی ساتھی کوہ پیما مرینا ایوا محفوظ رہی ہیں جنھوں نے بعدازاں اس حادثے کی اطلاع نیچے بیس کیمپ میں پہنچائی۔
کرار حیدری کے مطابق لیلی پیک پر یہ حادثہ 5,700میٹر کی بلندی پر پیش آیا تھا۔
اُن کا کہنا ہے کہ مرینا ایوا کی جانب سے اطلاع ملتے ہی فوری طور پر ایک ریسیکو ٹیم نے اپنا کام شروع کیا اور پہلے مرحلے میں مرینا ایوا کو محفوظ طریقے سے بیس کیمپ پہنچے میں مدد فراہم کی۔ کرار حیدری کے مطابق مرینا ایوا اس وقت صدمے کی کیفیت میں ہیں۔
لارا ڈہلمیئر کی ٹور کمپنی ’شپٹن ٹریکس اینڈ ٹور‘ کے مطابق لارا ایک شاندار اور سپر اتھلیٹ تھیں اور اس مہم جوئی کے لیے پوری طرح تیار تھیں۔
ان کی ٹیم سے منسلک محمد اقبال کا کہنا ہے کہ 'حادثے سے متعلق مرینا ایوا کا سگنل ملتے ہی گراونڈ پر موجود ریسکیو ٹیم فعال ہو گئی۔'
انھوں نے بتایا کہ لارا ڈہلمیئر 28 جون کو اسلام آباد پہنچی تھیں۔ اقبال کے مطابق، لارا نے کے ٹو بیس کیمپ پر ٹریکنگ اور دیگر مہمات میں حصہ لینے کے بعد لیلی پیک کی مہم جوئی شروع کی تھی۔
کم عمری میں بین الاقوامی اعزازت
لارا ڈہلمیئر ایک جرمن بائیتھلون کھلاڑی تھیں جنھوں نے نہایت کم عمری میں عالمی سطح پر کئی اعزازات اپنے نام کیے۔ وہ 22 اگست 1993 کو جرمنی کے شہر گارمش-پارٹنکرشن میں پیدا ہوئیں۔
اُن کے پروفائل کے مطابق بچپن ہی سے اُن کا رجحان کھیلوں خصوصاً اسکیئنگ اور بائیتھلون کی طرف تھا۔ انھوں نے صرف 12 سال کی عمر میں باقاعدہ بائیتھلون کی تربیت شروع کر دی تھی۔
لارا ڈہلمیئر نے سنہ 2011 میں یورپی یوتھ ونٹر اولمپکس میں تین طلائی تمغے جیت کر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا تھا۔ سنہ2013 میں وہ جونیئر ورلڈ چیمپئن بنیں جہاں انھوں نے انفرادی اور ریلے سپرنٹ کے مقابلوں میں طلائی تمغے حاصل کیے۔
ان کی اصل شناخت سنہ 2015 سے سنہ 2019 کے درمیان بنی جب انھوں نے بائیتھلونورلڈ چیمپئن شپ میں کل 15 تمغے حاصل کیے، جن میں سات طلائی، تین چاندی اور پانچ کانسی کے تمغے شامل ہیں۔
2016–17 کا سیزن ان کے کیریئر کا سب سے کامیاب دور رہا، جس میں انھوں نے ورلڈ کپ کا مجموعی ٹائٹل یعنی ’گرانڈ کرسٹل گلوب‘ جیتا اور ہوفیلزن میں ہونے والی ورلڈ چیمپئن شپ کے چھ مقابلوں میں پانچ طلائی اور ایک چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔
سنہ 2018 کے سرمائی اولمپکس میں انھوں نے جرمنی کے لیے دو طلائی (سپرنٹ اور پرسوٹ) اور ایک کانسی (انفرادی) کا تمغہ جیتا۔
بے شمار اعزازات حاصل کرنے کے بعد، ڈہلمیئر نے مئی 2019 میں صرف 25 سال کی عمر میں پیشہ وارانہ کھیل سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ماحولیاتی تعلیم، کوہ پیمائی اور ماؤنٹین گائیڈ کے طور پر سرگرم رہیں اور ساتھ ہی بطور سپورٹس کمنٹیٹر بھی کام کر رہی تھیں۔
کھیلوں میں اُن کی خدمات کے باعث ان کو جرمنی میں کئی اہم اعزازات سے نوازا گیا جن میں ’سلور لوریل لیف‘ اور ’بیوارین آرڈر آف میرٹ‘ شامل ہیں۔