صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے تحت دونوں ممالک مل کر پاکستان کے تیل کے وسیع ذخائر کو قابل بازیافت ذخائر میں تبدیل کرنے کے لیے مل کر کام کریں گے۔ مگر پاکستان میں تیل کے ذخائر کتنے ہیں، کیا ماضی میں کوئی امریکی کمپنی پاکستان میں ذخائر کی ڈویلپمنٹ پر کام کر چکی ہے اور امریکی پارٹنرشپ کایہ اعلان چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری پر اثرانداز ہو سکتا ہے؟

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان پاکستان کے تیل کے وسیع ذخائر نکالنے کے لیے ایک معاہدہ طے پا گیا ہے۔
اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ’ٹروتھ سوشل‘ پر جاری ایک پیغام میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ واشنگٹن کا اسلام آباد کے ساتھ ایک معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت دونوں ممالک مل کر پاکستان کے تیل کے وسیع ذخائر کو قابل بازیافت ذخائر میں تبدیل کرنے کے لیے مل کر کام کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ فی الحال ’ہم آئل کمپنی کا انتخاب کرنے کے عمل میں ہیں جو اس پارٹنرشپ کو لیڈ کرے گی۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’کون جانتا ہے، شاید وہ کسی دن انڈیا کو تیل بیچ رہے ہوں گے!‘
یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان میں تیل اور گیس کی مقامی پیداوار میں گذشتہ چند سالوں میں مسلسل کمی ریکارڈ کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے مقامی طلب کو پورا کرنے کے لیے بیرون ملک سے ان مصنوعات کی درآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان پٹرولیم انفارمیشن سروسز کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق موجودہ مالی سال کے پہلے نو مہینوں میں تیل کی مقامی پیداوار گیارہ فیصد تک گری ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق اس عرصے کے دوران پاکستان کی بڑی تیل اور گیس کی فیلڈز میں پیداوار میں کمی دیکھی گئی ہے۔ ان فیلڈز میں قادپور فیلڈ، سوئی فیلڈ، اُچ فیلڈ، ماڑی فیلڈ جیسی بڑی فیلڈز کے علاوہ دوسری فیلڈز میں بھی کمی ریکارڈ کی گئی۔ پاکستان میں کام کرنے والی تیل اور گیس کی دریافت اور پیداوار کی بڑی کمپنیوں کی مقامی پیداوار میں بھی کمی ریکارڈ کی گئی۔
ایسے میں امریکی صدر کی جانب سے یہ بیان سامنے آنے کے بعد بہت سے صارفین یہ سوال پوچھتے نظر آ رہے ہیں کہ جن ذخائر کی بات ہو رہی ہے وہ آخر ہیں کہاں؟ یہ بھی کہ پاکستان میں تیل کی دریافت کا کام کن علاقوں میں ہوا ہے اور اس شعبے میں امریکی پارٹنرشپ کا اعلان کیا چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری پر اثرانداز ہو سکتا ہے؟
بی بی سی نے اس رپورٹ میں اس حوالے سے چند بنیادی سوالات کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔
پاکستان کے پاس تیل کے کتنے ذخائر ہیں؟

پاکستان میں تیل کی تلاش کے شعبے میں مختلف کمپنیاں کام کر رہی ہیں تاہمگذشتہ چند دہائیوں میں ملک میں تیل کی تلاش اور اُس کی پیداوار میں کوئی خاطر اضافہ نہیں دیکھا گیا ہے۔ پاکستان پٹرولیم انفارمیشن سروسز کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق دسمبر 2024 تک ملک میں تیل کے ذخائر دو کروڑ 38 لاکھ بیرل تک تھے۔
متعدد تیل کمپنیوں میں اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے والے ماہر أمور توانائی محمد وصی خان نے بی بی سی کو بتایا پاکستان میں مقامی طور پر پیدا ہونے والا تیل ملکی ضرورت کے صرف دس سے پندرہ فیصد حصے کو پورا کرتا ہے جبکہ باقی کا 80 سے 85 فیصد بیرون ملک سے درآمد کیا جاتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ یو ایس انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے جائزے کے مطابق پاکستان میں نو ارب بیرل تک کے پٹرولیم ذخائر موجود ہیں تاہم اُن کے مطابق انھیں اُس وقت تک ثابت شدہ ذخائر نہیں کیا جا سکتا جب تک یہ تجارتی طور پر قابل عمل نہ ہو جائیں۔
وصی نے کہا پاکستان میں ماضی میں تیل کی تلاش کے لیے کی گئی کوششیں زیادہ کامیاب نہیں ہو سکی ہیں جس کی وجہ اس کام میں سرمایہ کاری اور درکار ٹیکنالوجی کی کمی ہے۔ اُن کا کہنا ہے امریکی صدر کی جانب سے ابجو اعلان سامنے آیا ہے اس کے تحت بظاہر ایسا لگتا ہے کہ امریکی حکومت کسی بڑی تیل کمپنی کو کہے گی کہ وہ پاکستان میں تیل کے ذخائر نکالنے کے لیے کام کرے۔
پاکستان میں تیل کی دریافت کا کام کہاں ہو رہا ہے؟
پاکستان میں اس وقت تیل کی دریافت کا کام ملک کے چاروں صوبوں میں ہو رہا ہے۔ اس شعبے کے ماہرین کے مطابق اس حوالے سے سب سے زیادہ کام صوبہ سندھ میں ہو رہا ہے۔
پاکستان کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کی پاکستان میں تیل و گیس کی دریافت و پیداوار کی رپورٹ کے مطابق سندھ میں اس وقت تیل و گیس کے کنوؤں کی مجموعی تعداد 247 ہے،پنجاب میں یہ تعداد 33 ہے جبکہ خیبرپختونخوا میں 15 اور بلوچستان مین چار کنوؤں پر کام ہو رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان کنوؤں میں سے کئی پر کام مکمل ہو چکا ہے، یعنی تیل اور گیس نکالی جا چکی ہے، اور اب وہ ڈرائی ہیں جبکہ دیگر پر کام جاری ہے۔
پاکستان انسٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس میں ماہر توانائی ڈاکٹر عافیہ کے مطابق تکنیکی طور پر دیکھا جائے تو اِس وقت بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں کچھ خاص کام نہیں ہو رہا ہے جس کی بنیادی وجہ سکیورٹی خدشات، ٹیکس اور ریونیو سٹرکچرز وغیرہ ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ صوبوں کو ریونیو شیئرنگ میں زیادہ حصہ دے کر انھیں سکیورٹی کی ذمہ داری پورا کرنے کے لیے کہا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی نے ستمبر 2021 میں خیبرپختونخوا کے ضلع لکی مروت کے ایف آر علاقے بیٹنی اور جون 2022 میں ماڑی پیٹرولیم کمپنی نے شمالی وزیرستان میں واقع بنوں ویسٹ بلاک میں تحصیل شیوا میں گیس اور تیل کے بڑے ذخائر دریافت کیے، جو اس ضمن میں آخری بڑی دریافت تھی۔
پٹرولیم ڈویژن کے پارلیمانی سیکریٹری میاں خان بگٹی نے بی بی سی کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ سندھ میں تو اس وقت اس ضمن میں کافی کام ہو رہا ہے جبکہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں تیل کے ذخائر موجود ہیں جنھیں حکومت نکالنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ انھوں نے امریکی صدر ٹرمپ کے اعلان کے بارے میں کہا کہ ابھی اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے تاہم انھوں نے اس بیان کو ملکی تیل کے شعبے کے لیے ایک مثبت پیش رفت قرار دیا ہے۔
کیا ماضی میں کوئی امریکی کمپنی پاکستان میں ذخائر کی ڈویلپمنٹ پر کام کر چکی ہے؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان میں تیل کےذخائر نکالنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اس شراکت داری کے لیے تیل کمپنی کے انتخاب کے لیے کام ہو رہا ہے۔ تیل ذخائر نکالنے کے لیے کیا ماضی میں امریکی کمپنیوں کے پاکستان میں کام کرنے کے بارے میں وصی خان نے بتایا کہماضی میں کئی امریکی کمپنیاں پاکستان کے تیل و گیس کے شعبے میں سرگرم رہی ہیں۔ خاص طور پر، آکسیڈینٹل پیٹرولیم اور یونین ٹیکساس نے تیل کی تلاش اور ترقیاتی سرگرمیوں میں اہم کردار ادا کیا۔
ان کے مطابق یہ کمپنیاں پاکستان کے تیل و گیس کے اپ اسٹریم شعبے کے ابتدائی ترقی کے مراحلمیں نمایاں تعاون فراہم کرتی رہی ہیں۔ ان کے مطابق اگرچہ وقت کے ساتھ ان کی موجودگی کم ہو گئی ہے، لیکن ایک وقت تھا جب یہ کمپنیاں اس شعبے کی نمایاں کرداروں میں شمار ہوتی تھیں۔
امریکی پارٹنرشپ کا اعلان کیا چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری پر اثرانداز ہو سکتا ہے؟
اس بارے میں وصی خان نے کہا اس پیش رفت کو ایک مثبت تجارتی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ پاکستان کے توانائی کے شعبے میں بین الاقوامی تعاون میں اضافہ مزید سرمایہ کاری، جدید ٹیکنالوجی اور صحت مند مقابلے کو فروغ دے سکتا ہے۔
انھوں نے کہا 'چین پاکستان کاقابلِ اعتماد اور دیرینہ شراکت دار ہے اور امریکی کمپنیوں کی شمولیت اس تعلق کو متاثر نہیں کرتی۔ درحقیقت، یہ موجودہ چینی سرمایہ کاری کی تکمیل کر سکتی ہے کیونکہ یہ مواقع کو متنوع بنانے میں مدد دے گی۔'
انھوں نے کہا 'یہ امکان چین کے لیے بھی یکساں طور پر فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ جیسے جیسے بڑے منصوبے آگے بڑھیں گے، تو چینی کمپنیاں، جن کی پاکستان کے بنیادی ڈھانچے اور توانائی کے شعبے میں مضبوط موجودگی ہے،تعمیرات، انجیینئرنگ یا خدمات جیسے شعبوں میں نئے کردار ادا کر سکتی ہیں۔'
جیو پولیٹیکل اکانومی کے ماہر زاہد حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ ابھی تو امریکی اعلان سامنے آیا ہے اور اس میں کیا طے پایا ہے اس کی تفصیلات سامنے آنا باقی ہیں۔ تاہمان کا کہنا ہے کہ اس امریکی اعلان سے پاکستان میں چین کی سرمایہ کاری اور منصوبوں پر براہ راست تو کوئی اثر نہیں پڑے گا تاہم اس کے ان ڈائریکٹ مضمرات ہو سکتے ہیں۔
میاں خان بگٹی نے اس سلسلے میں کہا کہ چین کے پاکستان کے ساتھ الگ سے معاشیتعاون اور منصوبے ہیں اور اسی طرح پاکستان کے دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ بھی تجارتی اور معاشی تعلقات ہیں جن کا اپنا دائرہ کار ہوتا ہے۔
انھوں نے ایسے امکان کو رد کیا کہ جس سے پاکستان میں امریکہ کی جانب سے تیل کی ذخائر کی تلاش کے اعلان سے چین کے پاکستان میں منصوبوں پر کوئی اثر پڑے۔
پاکستان اور انڈیا میں ردعمل
ٹرمپ کی جانب سے یہ اعلان سامنے آنے کے بعد پاکستانی اور انڈین صارفین اپنی اپنی آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔
ایک صارف حسین ندیم نے کہا ’پاکستان کو ابھی پتہ چلا ہے کہ اس کے پاس تیل کے ذخائر موجود ہیں۔ صدر ٹرمپ کے ٹویٹ کا شکریہ۔ یہ دراصل اب ایک کامیڈی ہے۔‘
تجزیہ کار مائیکل کوگلمین نے سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر لکھا ’امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان اور امریکہ نے پاکستان کے تیل کے بڑے ذخائر کو فروغ دینے کے لیے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں پاکستان نے اپنے تیل کے ذخائر کے بڑھتے ہوئے تخمینے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔‘
فیصل رانجھا نے لکھا ’امریکہ اور پاکستان کے درمیان تجارتی معاہدہ طے پا گیا ہے۔ امریکہ پاکستان کو اس کے تیل کے وسیع ذخائرکی تلاش میں مدد کرے گا اور ایک دن انڈیا کو برآمد کرے گا۔ امریکی صدر ٹرمپ انڈیا کے لوگوں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ یہ مودی جی کی حد درجہ توہین ہے۔ ‘
انڈیا کے سابق سیکریٹری خارجہ کنول سبل نے اس اعلان پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے لکھاکہ یہ بیان ’ٹرمپ کی ذہنیت کو اور بھی واضح طور پر ظاہر کرتا ہے۔ وہ واضح طور پر چاہتے ہیں کہ انڈیا ان کے مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے 25فیصد محصولات اور جرمانے کا فیصلہ قبول کرے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’امریکہ کی خوشی کو دوسروں کے درد پر استوارہونی ہے اور ٹرمپ اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ وہ کس ’خوشی‘ کے حقدار ہیں۔‘
پاکستان کے حوالے سے امریکی صدر کے بیان پر ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کے تیل کے ذخائر میں امریکی سرمایہ کاری کی بات ان کے اس اصرار کے برعکس ہے کہ دوسرے ممالک امریکہ میں سرمایہ کاری کریں۔‘
’امریکہ پہلے ہی تیل پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور تیل پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں اس کے پیداواری مفادات ہیں تو پاکستان میں تیل کی تلاش میں اس کی کیا دلچسپی ہے؟ یہاں تک کہ پاکستان میں موجود اور تیل کے بڑے درآمد کنندہ چین نے بھی پاکستان میں تیل کی پیداوار کے کسی منصوبے کا اعلان نہیں کیا ہے۔‘
کنول سبل نے اپنے پیغام میں انڈیا کا ذکر کرنے کو طنز قرار دیا اور کہا ’پاکستان کی جانب سے ایک دن انڈیا کو تیل فروخت کرنے کے بارے میں یہ مضحکہ خیز طنز کیوں کیا جا رہا ہے جبکہ انڈیا کو ممکنہ طور پر ایران سمیت خطے کے بڑے سپلائرز تک رسائی حاصل ہے۔‘
ایک اور انڈین صارف نے کانسٹیٹ گارڈنر نامی ہینڈل پر لکھا ’درحقیقت نہیں۔۔۔ جیسا کہ اب ہر کوئی جانتا ہے کہ ٹرمپ صرف تجارتی معاہدے پر بات چیت کرنے کے لیے تمام بٹن دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یاد رکھیں، ہم ذہن سازی کی سرزمین ہیں۔ آسانی سے اس سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔‘
ایک پاکستان صارف فرید کا بھی کچھ ایسا ہی خیال ہے۔ انھوں نے ایکس پر لکھا ’مجھے لگتا ہے کہ ٹرمپ یہ سب کچھ (تیل کے غیر موجود ذخائرکا جھوٹ) انڈیا پر دباؤ ڈالنے کے لیے کر رہے ہیں۔ بظاہر انھیں ایسا لگتا ہے کہ اس سوچ کے ساتھ انھیں فوری نتائج مل سکتے ہیں۔‘
انڈیا صحافی ایشان پرکاش کا سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر کہنا تھا ’ایسا لگتا ہے کہ یہ بیان پاکستان کے نئے آئل فیلڈز کی سچ مچ تعمیر سے کہیں زیادہ انڈیا کو پریشان کرنے کے لیے ہے۔