“میرا بیٹا تو اب اس دنیا میں نہیں، لیکن اُس کے گردے کسی اور کی زندگی بچا سکتے ہیں“
کراچی کی ایک باہمت ماں نے دکھ، صدمے اور محرومی کے سمندر میں ڈوبتے ہوئے ایک ایسا قدم اٹھایا، جو انسانیت کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ یہ ماں نہ صرف ایک ماہر ڈاکٹر تھیں بلکہ ایک ایسی ماں بھی، جس نے بیٹے کے جانے کے بعد بھی دوسروں کو زندگی دینے کا فیصلہ کیا۔
ڈاکٹر مہر افروز کے بیٹے، سید سلطان ظفر، صرف 20 سال کے تھے۔ گزشتہ ہفتے ایک افسوسناک ٹریفک حادثے میں شدید زخمی ہوئے۔ کئی دن زندگی سے لڑتے رہے، مگر زندگی نے مہلت نہ دی۔ منگل کے روز وہ ایک نجی اسپتال میں دم توڑ گئے۔
ان کی والدہ، جو خود ایس آئی یو ٹی (SIUT) اسپتال میں گردوں کی پروفیسر ہیں، غم کی شدت کے باوجود بیٹے کی میت خود ایمبولینس میں رکھ کر اسپتال پہنچیں۔ انہوں نے بیٹے کے دونوں گردے عطیہ کر دیے، تاکہ جو افراد پیوند کاری کے انتظار میں تھے، اُنہیں نئی سانسیں مل سکیں۔
اس فیصلے نے دو افراد کی زندگیوں کو بچا لیا۔ اسپتال حکام نے ان کے جذبے کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ایک طبی عمل نہیں بلکہ انسانیت کا ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔
ایک ایسا درد جو سینے میں دفن رہا، مگر دوسروں کے لیے روشنی بن گیا۔ ایسی مثالیں وقت کم ہی دکھاتا ہے، مگر جب دکھاتا ہے، تو انسان رک کر سوچتا ضرور ہے: کہ کبھی کبھی، انسان اپنے سب سے گہرے زخم سے دوسروں کے لیے زندگی تراش لیتا ہے۔