ہم شکل جڑواں بچوں کی ایک سی عادات ہونا قدرتی عمل ہے یا پرورش اور ماحول کا کرشمہ

ماہرین کے مطابق ’شخصیت کے نمایاں پہلوؤں میں سے ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ساتھ نہ پلنے والے ہم شکل جڑواں بچوں میں اتنی ہی مشابہت ہوتی ہے جتنی کہ ایک ساتھ پلنے والے ہم شکلوں میں۔ چاہے وہ جارحیت کا رجحان ہو یا روایتی سوچ کے پہلووں سے متعلق رجحانات ہوں۔ اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قریبی رشتے دار جو ایک ہی جگہ رہتے ہیں، اُن میں مماثلت کی وجہ ایک سا ماحول نہیں ہوتا بلکہ جینیاتی اثرات ہوتے ہیں۔‘
دو جڑواں بہنیں
Jim Craigmyle/Getty Images

جڑواں بچے عموماً جہاں بہت سے لوگوں کی دلچسپی اور توجہ کا مرکز رہتے ہیں وہیں ایسے کئی سوالات ہیں جن کا سامنا عموما جڑواں بچوں کو رہتا ہے۔ مثلاً اُن سے پوچھا جاتا ہے کہ ’کیا آپ کے ذہنوں میں مطابقت ہے؟ کیا آپ ایک دوسرے کا درد محسوس کر سکتے ہیں؟‘

ایک اور سوال جو عموماً جڑواں بچوں سے کیا جاتا ہے وہ ہے کہ ’کیا آپ نے کبھی ایک دوسرے کی جگہ لی ہے؟‘

دو ایسے افراد جن کی اپنی اپنی انفرادی شخصیت ہو مگر پھر بھی وہ عادتوں یا شکلوں میں ملتے جلتے ہوں تو اس حیرت انگیز مطابقت کے حوالے سے دیومالائی داستانوں میں ہی نہیں بلکہ موسیقی، فلموں اور ادب میں بھی خوب ہی ذکر ملتا ہے۔

بات یہیں تک محدود نہیں بلکہ جڑواں بچے سائنس کے لیے بھی بڑی دلچسپی کا موضوع رہے ہیں۔ ایسے بچے تحقیق کرنے والوں کے لیے ایک نایاب موقع فراہم کرتے ہیں کہ اس بات کو جاننےمیں مدد ملے کہ ہماری خصوصیات اور رویے جینیات (وراثت) سے متاثر ہوتے ہیں یا ماحول سے۔

آخر جو کچھ ہم ہیں اس کے پیچھے فطرت کا عمل دخل ہوتا ہے یا پرورش ہی کسی انسان کی شخصیت ترتیب دیتی ہے۔

جڑواں بچے
BBC
جڑواں بچے عموما ملتے جلتے دکھائی دیتے ہیں یہاں تک کے بعض کی کچھ عادتیں بھی ایک سی ہو سکتی ہیں

تو یہاں پہلے جان لیتے ہیں کہ جڑواں بچوں کی اقسام کے بارے میں سائنس کیا کہتی ہے۔

جڑواں بچوں کی دو اقسام ہوتی ہیں۔ شکلوں میں مختلف یا فرَیٹرنل (Non-identical or fraternal) جڑواں بچے دو الگ الگ انڈوں سے پیدا ہوتے ہیں جو ایک ہی وقت میں خارج ہوئے ہوں اور مختلف سپرمز سے بارآور ہوئے ہوں۔ یہ بچے عموماً ایک دوسرے کے ساتھ اپنے جینز کا آدھا حصہ بانٹتے ہیں بالکل اسی طرح جیسےعام بہن بھائی کرتے ہیں۔

ہم شکل (Identical) جڑواں بچے ایک ہی نر جرثومے اور مادہ بیضے سے وجود میں آتے ہیں، جو حمل ٹھہرنے کے بعد دو ایمبریو میں تقسیم ہوتے ہیں۔ اسی سبب ان کے تقریباً تمام جینز ایک جیسے ہوتے ہیں اور ان کی شکل و صورت بھی اکثر حیرت انگیز طور پر ملتی جلتی ہوتی ہے۔

ایسے جڑواں بچے بہت نایاب ہوتے ہیں اور تقریباً ہر ایک ہزار پیدائش میں سے اوسطاً صرف تین جڑواں بچے ایسے پیدا ہوتے ہیں۔

پروفیسر نینسی سیگل خود بھی ایک فرَیٹرنل جڑواں ہیں اور انھوں نے اپنی پوری پیشہ ورانہ زندگی اسی تحقیق کے لیے وقف کر دی ہے۔ وہ امریکہ کی کیلیفورنیا سٹیٹ یونیورسٹی، فلرٹن میں بطور ماہرِ نفسیات اور جینیاتی رویوں کی ماہر (Behavioural Geneticist) کام کرتی ہیں۔

پروفیسر سیگل کہتی ہیں کہ جڑواں بچے ہمیں یہ جاننے کا موقع دیتے ہیں کہ کسی بھی انسان کی شخصیت پر جینیاتی اور ماحولیاتی اثرات کس طرح مرتب ہوتے ہیں خواہ وہ ذہانت ہو، دوڑنے کی رفتار ہو، شخصیت ہو یا قد و وزن۔‘

تحقیق میں عموماً ہم شکل جڑواں بچوں کا موازنہ غیر ہم شکل جڑواں بچوں سے کیا جاتا ہے۔ اگر ہم شکل جڑواں بچے کی خاص عادت یا شکل و صورت میں زیادہ مماثلت ہو تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس خصوصیت کے پیچھے جینز کا کچھ نہ کچھ کردار ضرور ہوتا ہے۔

شاید یہ بات آپ کے لیے نئی نہ ہو کہ ہمارے قد، وزن یہاں تک کہ ذہانت کی تشکیل میں جینیاتی عوامل بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن جڑواں بچوں پر کی گئی تحقیق میں یہ بات ضرور قابل توجہ ہے کہ ہماری کچھ انتہائی ذاتی صفات اور رویے بھی جینیاتی اثرات کے تابع ہو سکتے ہیں۔

پروفیسر سیگل کے مطابق ’جڑواں بچوں کو مختلف رویوں کے مطالعے کے لیے استعمال کیا گیا ہے جیسا کہ مذہب سے وابستگی، سماجی نظریات، سزائے موت پر یقین، منشیات کا استعمال اور مالی معاملات میں دلچسپی۔‘

مثال کے طور پر امریکہ، نیدرلینڈز اور آسٹریلیا میں کی گئی ایک تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ بلوغت کے بعد مختلف شکلوں والے جڑواں بچوں کی نسبت ہم شکل جڑواں بچوں میں مذہب سے متعلق نظریات زیادہ حد تک ایک جیسے ہوتے ہیں۔ اس سے یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ ایمان یا عقیدے میں بھی جینیات کا کردار ہو سکتا ہے۔

پروفیسر سیگل وضاحت کرتی ہیں کہ ’ایسا نہیں ہے کہ ہماری جینز ہمیں خدا پر یقین کرنے کے لیے مجبور کرتی ہیں بلکہ ذہانت، حساسیت، یا جذباتی ردِعمل جیسی بعض پیچیدہ صفات ہمیں عقیدے یا مذہب کی طرف مائل کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔‘

الزبتھ ہیمل (بائیں) اور این ہنٹ (دائیں) اور پروفیسر نینسی سیگل (درمیان)
Leonard Ortiz/Digital First Media/Orange County Register via Getty Images
الزبتھ ہیمل (بائیں) اور این ہنٹ (دائیں) اکٹھے ہونے سے پہلے 78 سال تک الگ رہیں اور اس بات نے پروفیسر نینسی سیگل (درمیان) کو اپنی تحقیق کے لیے راہ فراہم کی

علیحدہ پرورش پانے والے جڑواں بچے

پروفیسر نینسی سگال نے بعض ایسے جڑواں بہن بھائیوں کو بھی تحقیق میں شامل کیا جو ایک ساتھ نہیں پلے بڑھے تھے اور ان سے حاصل ہونے والے نتائج سب سے حیران کن تھے۔

ان کے مطابق ’شخصیت کے نمایاں پہلوؤں میں سے ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ساتھ نہ پلنے والے ہم شکل جڑواں بچوں میں اتنی ہی مشابہت ہوتی ہے جتنی کہ ایک ساتھ پلنے والے ہم شکلوں میں۔ چاہے وہ جارحیت کا رجحان ہو یا روایتی سوچ کے پہلووں سے متعلق رجحانات ہوں۔ اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قریبی رشتے دار جو ایک ہی جگہ رہتے ہیں، اُن میں مماثلت کی وجہ ایک سا ماحول نہیں ہوتا بلکہ جینیاتی اثرات ہوتے ہیں۔‘

پروفیسر سگال کی سب سے مشہور تحقیق ان ہنٹ (Ann Hunt) اور الزبتھ ہیمل (Elizabeth Hamel) پر کی گئی جو دونوں جڑواں بہنیں تھیں مگر پیدائش کے فوراً بعد ایک دوسرے سے جدا ہو گئی تھیں۔

یہ دونوں 78 سال تک ایک دوسرے سے الگ رہیں جس کی وجہ سے وہ سب سے زیادہ عرصے تک جدا رہنے والی جڑواں بہنوں کے حوالے سے گینیز ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل ہوئیں۔

یہ دونوں بہنیں امریکہ میں دوبارہ ملیں جہاں الزبتھ رہتی تھیں۔ یاد رہے کہ این برطانیہ میں پیدا ہوئیں، وہیں پلی بڑھیں اور وہیں رہائش پذیر تھیں۔

اس تحقیق کے نتائج سے ظاہر ہوا کہ این اور الزبتھ کی شخصیت میں کئی چیزیں ایک سی تھیں۔ یہاں تک کہ دونوں نے جن مردوں سے شادی کی، ان کا نام بھی ’جم‘ تھا۔

دیگر تحقیقاتی کیسز میں تو مماثلتیں اور بھی دلچسپ تھیں۔

پروفیسر سگال بتاتی ہیں کہ ’تحقیق میں ایسے جڑواں لوگوں کی غیر معمولی عادات اور رویے بھی ایک جیسے نکلے۔ مثال کے طور پر ایک جڑواں جوڑے نے ایک خاص سویڈش برانڈ کا ٹوتھ پیسٹ استعمال کیا حالانکہ وہ الگ الگ گھروں میں پلے بڑھے تھے۔‘

ان کے مطابق ’ایک اور جوڑا جب ریاست منیسوٹا کے ایئرپورٹ پر ملا تو دونوں نے سات انگوٹھیاں، تین کنگن اور ایک گھڑی پہن رکھی تھی۔‘

پروفیسر سیگل نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ مشترکہ عادات یہیں ختم نہیں ہوتیں۔

’ایک اور ہم شکل جڑواں جوڑا دونوں کلائی پر ربڑ بینڈ پہنتے تھے اور بیت الخلا کے استعمال سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھوتے تھے۔ شاید وہ جراثیم کے بارے میں بہت حساس تھے یا صفائی کے بارے میں انتہائی ذمہ دار رویہ رکھتے تھے۔‘

ایک اور مثال میں سکاٹ لینڈ میں پرورش پانے والے ہم شکل جڑواں بہن بھائیوں کی عادت تھی کہ وہ ٹوسٹ کو چار ٹکڑوں میں کاٹتے مگر کھاتے صرف تین تھے۔

نینسی سیگل کہتی ہیں کہ شاید یہ عادت خوراک پر قابو پانے یا پلیٹ صاف نہ کرنے کی خواہش کی عکاسی کرتی ہے۔

پروفیسر نینسی سیگل کی تحقیق میں اخذ کیے نتیجے کے مطابق ’یہ سب باتیں بتاتی ہیں کہ یہ محض اتفاق نہیں۔ ہم سب کی کچھ غیر معمولی یا عجیب عادات ہوتی ہیں اور یہ کہیں سے اچانک نہیں آتیں بلکہ کسی نہ کسی حد تک ہماری فطرت کی عکاسی کرتی ہیں۔‘

جڑواں بچوں کی پشت
japatino via Getty Images
ماہرین کے مطابق جڑواں بچوں کی شخصیت کی خصوصیات ماحول اور جینز کے امتزاج کے نتیجے میں ہوتی ہیں

جم نامی دو جڑواں بچے

جڑواں بچوں میں ہم آہنگی کی ایک بہترین مثال امریکہ کی ریاست مینیسوٹا سے ملی جو جم ٹوئنز (Jim twins) کے نام سے پہچان رکھتے ہیں۔

دونوں کا نام ’جم‘ تھا اور وہ دونوں پیدائش کے وقت سے الگ الگ تھے۔ جب وہ 39 سال کی عمر میں دوبارہ ملے تو ان دونوں کو حیرت انگیز طور پر اپنی زندگیوں میں مشابہتیں ملیں۔

دونوں نے پہلے ایک عورت سے شادی کی جس کا نام لنڈا تھا اور پھر دوسری شادی ایک عورت سے کی جس کا نام بیٹی (Betty) تھا۔ دونوں کے پالتو کتے کا نام ٹوائے تھا یہاں تک کے دونوں کے بیٹے کا نام جیمز ایلن تھا۔

دونوں ناخن چباتے تھے اور ایک ہی ساحل پر چھٹیاں منانے جاتے تھے۔

یہ دونوں جڑواں یونیورسٹی آف مینیسوٹا کے ڈاکٹر تھامس بوشارڈ کی تحقیق کا حصہ بنے جہاں ان دونوں کی شخصیت کی چھان بین میں حیرت انگیز طور پر ایک جیسے نتائج حاصل ملے حالانکہ ان دونوں کا زندگی بھر کوئی رابطہ نہیں رہا تھا۔

ان غیر معمولی مثالوں سے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا ہماری پسند، فیصلے اور رویے واقعی ہمارے اپنے اختیار میں ہوتے ہیں یا ہم جتنا سوچتے ہیں اتنا کچھ ہمارے بس میں نہیں؟

پروفیسر سگال اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’صرف اس وجہ سے کہ کوئی چیز جینیاتی اثر رکھتی ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔‘

اس کی مثال وہ طلاق سے دیتی ہیں جو ایک ایسا بڑا فیصلہ ہے جو جینیاتی رجحانات سے متاثر تو ہو سکتا ہے لیکن صرف انھی عوامل سے مشروط نہیں ہوتا۔

’شاید ضد یا اکھڑ مزاجی، پیچیدہ شخصیت جیسے رجحانات جینیاتی طور سے ہم میں منتقل ہوتے ہوں لیکن ہمارے جینز یہ نہیں کہتے کہ ’طلاق دو‘۔ طلاق کا فیصلہ آپ خود کرتے ہیں۔ اس لیے میں نہیں سمجھتی کہ جینیاتی اثرات سے آزاد فیصلوں پر کوئی قدغن لگتی ہے۔‘

پروفیسر سگال کہتی ہیں کہ اصل بات یہ ہے کہ ہمیں سوچ میں انتہاپسندی سے بچنا چاہیے۔ ہماری شخصیت اور عادات کسی ایک قطعی ماخذ سے نہیں بنتیں۔

ان کے مطابق ’لوگ اکثر یہ سوچتے ہیں کہ ہمارا ماحول ہی ہمیں مکمل طور پر تشکیل دیتا ہے۔ لیکن میرے خیال میں یہ بھی غلط فہمی ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow