پاکستان نے انڈیا کے جدید لڑاکا طیارے کیسے مار گرائے؟

image
6 اور 7 مئی کی درمیانی رات پاکستانی فضائیہ کے آپریشن روم کی سکرین سُرخ ہو گئی جس میں سرحد پار دشمن کے درجنوں لڑکا طیاروں کی انڈیا میں موجود پوزیشنیں واضح تھیں۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو انڈین حملے کے خطرے کے پیشِ نظر کئی روز سے آپریشن روم کے پاس ہی ایک کمرے میں گدے پر سو رہے تھے۔

ایئر چیف مارشل سدھو نے چینی ساختہ جے 10C جنگی طیاروں کو حرکت میں آنے کا حکم دیا۔ پاکستانی فضائیہ (پی اے ایف) کے ایک سینیئر اہلکار، جو آپریشن روم میں موجود تھے، نے بتایا کہ ظہیر احمد بابر سدھو نے اپنے عملے کو فرانسیسی ساختہ لڑاکا طیارے رفال کو نشانہ بنانے کی ہدایت کی جس پر انڈیا فخر کرتا تھا۔

اندھیرے میں ہونے والی ایک گھنٹہ طویل لڑائی میں تقریباً 110 طیارے شامل تھے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہ کئی دہائیوں میں دنیا کی سب سے بڑی فضائی لڑائی ہے۔ روئٹرز نے مئی میں امریکی حکام کے حوالے سے رپورٹ کیا تھا کہ جے 10C نے کم سے کم ایک رفال کو مار گرایا تھا۔ اس نے فوجی حلقوں میں بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا اور چینی ہارڈویئر کے مقابلے میں مغربی فوجی ہارڈویئر کی افادیت کے بارے میں سوالات اٹھائے۔

رفال طیارے بنانے والی کمپنی ڈسالٹ کے شیئرز فائٹر کے مار گرائے جانے کی اطلاعات کے بعد نیچے چلے گئے۔ انڈونیشیا نے رفال طیاروں کا آرڈر دیا تھا، لیکن اس نے کہا ہے کہ وہ اب جے 10C خریدنے پر غور کر رہا ہے۔

تاہم روئٹرز کے دو انڈین اور تین پاکستانی عہدیداروں کے ساتھ انٹرویوز سے پتا چلا کہ رفال کی کارکردگی اہم مسئلہ نہیں تھی بلکہ اس کی وجہ انڈین انٹیلی جنس کی ناکامی تھی۔

انڈین حکام نے کہا کہ ناقص انٹیلی جنس نے رافیل پائلٹوں کو اعتماد کا ایک غلط احساس دلایا کہ وہ پاکستانی فائرنگ رینج سے باہر ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ یہ رینج صرف 150 کلومیٹر کے قریب ہے۔

پی اے ایف کے اہلکار نے مزید کہا کہ ’ہم نے ان پر گھات لگا کر حملہ کیا۔‘ اسلام آباد نے انڈین پائلٹوں کو الجھانے کی کوشش میں دہلی کے سسٹمز پر الیکٹرانک وارفیئر حملہ کیا۔ تاہم انڈین حکام اس سے انکار کرتے ہیں۔

لندن کے رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ کے تھنک ٹینک میں فضائی جنگ کے ماہر جسٹن برونک نے کہا کہ ’انڈینز کو اس کی توقع نہیں تھی۔ اور پی ایل 15 واضح طور پر طویل فاصلے پر مار کرنے بہت قابل ہے۔‘

پاکستانی حکام کے مطابق پی ایل 15 نے تقریباً 200 کلومیٹر کے فاصلے سے رفال کو نشانہ بنایا۔ اس سے یہ میزائل طویل ترین فاصلے کے ہوا سے ہوا میں حملہ کرنے والے میزائلوں میں شامل ہو جائے گا۔

فرانسیسی فضائیہ کے سربراہ نے کہا تھا کہ انہوں نے رفال اور دو دیگر طیاروں کے گرائے جانے کے شواہد دیکھے ہیں (فوٹو: روئٹرز)

دہلی نے رفال کے مار گرائے جانے کا اعتراف نہیں کیا ہے لیکن فرانسیسی فضائیہ کے سربراہ نے جون میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ انہوں نے رفال اور لڑاکا طیارے اور دو دیگر طیاروں کے گرائے جانے کے شواہد دیکھے ہیں جن میں ایک روسی ساختہ سخوئی بھی شامل ہے۔ ڈسالٹ کے ایک اعلیٰ ایگزیکٹو نے اسی مہینے فرانسیسی قانون سازوں کو بھی بتایا تھا کہ انڈیا نے آپریشن میں ایک رفال کھو دیا ہے۔

’صورتحال سے آگاہی‘

روئٹرز نے آٹھ پاکستانی اور دو انڈین عہدیداروں سے بات کی جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر قومی سلامتی کے معاملات پر بات چیت کی۔

پاکستانی اور انڈین حکام نے کہا کہ نہ صرف اسلام آباد کے پاس میزائلوں کی رینج کے حوالے سے حیران کرنے کا عنصر ہے، بلکہ وہ اپنے فوجی ہارڈویئر کو زمین اور فضا میں نگرانی کے لیے زیادہ مؤثر طریقے سے مربوط کرنے میں کامیاب رہا جس سے اسے میدان جنگ کی واضح تصویر فراہم ہوئی۔ اس طرح کے نیٹ ورک کو ’کِل چینز‘ کہا جاتا ہے۔

چار پاکستانی حکام نے کہا کہ انہوں نے ہوا، زمین اور خلائی سینسرز کو جوڑ کر ایک ’کِل چین‘ یا ملٹی ڈومین آپریشن بنایا ہے۔ دو پاکستانی حکام نے بتایا کہ نیٹ ورک میں ایک پاکستانی تیار کردہ سسٹم ڈیٹا لنک 17 شامل تھا جس نے چینی فوجی ہارڈویئر کو دوسرے آلات سے جوڑ دیا۔

اس نظام کے ذریعے انڈین حدود قریب پرواز کرنے والے جے 10C کو نگرانی والے طیارے سے ریڈار فیڈ حاصل کرنے میں مدد ملی یعنی ماہرین کے مطابق چینی ساختہ طیارے اپنے ریڈار کو بند کر سکتے تھے اور بغیر کسی شناخت کے پرواز کر سکتے تھے۔

انڈین حکام نے کہا کہ دہلی اسی طرح کا نیٹ ورک قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کا عمل زیادہ پیچیدہ ہے کیونکہ انڈیا نے برآمد کنندگان کی ایک وسیع رینج سے طیارے حاصل کیے ہیں۔

برطانیہ کے ایئر مارشل ریٹائر گریگ باگ ویل نے کہا کہ اس واقعے نے حتمی طور پر چینی یا مغربی فضائی اثاثوں کی برتری کو ثابت نہیں کیا لیکن اس نے صحیح معلومات رکھنے اور اس کے استعمال کی اہمیت کو ظاہر کیا۔

پانچ پاکستانی عہدیداروں نے کہا کہ انڈین سینسرز اور کمیونیکیشن سسٹم پر الیکٹرانک حملے نے رفال کے پائلٹوں کی حالات سے متعلق آگاہی کو کم کردیا (فوٹو: روئٹرز)

باگ ویل نے کہا کہ ’اس میں فاتح وہ فریق تھا جس کے پاس حالات سے متعلق بہترین آگاہی تھی۔‘

حکمت عملی میں تبدیلی

7 مئی کے اوائل میں انڈیا کی جانب سے پاکستان میں اہداف پر حملہ کرنے کے بعد پاکستانی فضائیہ کے چیف نے اپنے سکواڈرن کو دفاع سے حملے کا حکم دیا۔

پی اے ایف کے پانچ عہدیداروں نے بتایا کہ انڈیا نے تقریباً 70 طیارے تعینات کیے تھے جو ان کی توقع سے زیادہ تھے اور پی ایل 15 کو ہدف سے بھرپور ماحول فراہم کیا تھا۔

7 مئی کی جنگ جدید دور کا پہلا بڑا فضائی مقابلہ تھا جس میں بصری حد سے باہر کے اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے ہتھیاروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ باگ ویل نے کہا کہ انڈیا اور پاکستان دونوں کے طیارے لڑائی کے دوران اپنی فضائی حدود میں رہے۔

پانچ پاکستانی عہدیداروں نے کہا کہ انڈین سینسرز اور کمیونیکیشن سسٹم پر الیکٹرانک حملے نے رفال کے پائلٹوں کی حالات سے متعلق آگاہی کو کم کردیا۔

دو انڈین عہدیداروں نے کہا کہ جھڑپوں کے دوران رفال اور سیٹلائٹس کو جام نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے تسلیم کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان نے سخوئی طیارے میں خلل ڈالا تھا جس کا نظام دہلی اب اپ گریڈ کر رہا ہے۔

جکارتہ میں انڈیا کے دفاعی اتاشی نے یونیورسٹی کے ایک سیمینار کو بتایا کہ دہلی نے کچھ طیارے ’سیاسی قیادت کی طرف سے (پاکستان کے) فوجی اثاثوں اور ان کے فضائی دفاع پر حملہ نہ کرنے کی پابندی کی وجہ سے کھوئے ہیں۔‘

7 مئی کی فضائی جنگ کے بعد انڈیا نے پاکستانی فوجی انفراسٹرکچر کو نشانہ بنانا شروع کر دیا اور فضا پر اپنی طاقت کا دعویٰ کیا۔ دونوں اطراف کے حکام کے مطابق انڈین ساختہ براہموس سپرسونک کروز میزائل بار بار پاکستان میں حملے کرتا رہا۔

 لیفٹیننٹ جنرل راہول سنگھ نے پاکستان پر الزام لگایا کہ وہ کشیدگی کے دوران چین سے ’لائیو ان پٹس‘ حاصل کرتا رہا ہے (فوٹو: دی وائر)

10 مئی کو انڈیا نے کہا کہ اس نے پاکستان میں کم از کم نو فضائی اڈوں اور ریڈار سائٹس کو نشانہ بنایا۔ انڈین اور پاکستانی حکام کے مطابق اس نے جنوبی پاکستان میں ہینگر میں کھڑے ایک نگرانی کرنے والے طیارے کو بھی نشانہ بنایا۔ اس کے بعد امریکی حکام نے دونوں فریقوں سے بات چیت کی اور جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا۔

’لائیو ان پٹس‘

اس واقعہ کے بعد انڈیا کے نائب آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل راہول سنگھ نے پاکستان پر الزام لگایا کہ وہ کشیدگی کے دوران چین سے ’لائیو ان پٹس‘ حاصل کرتا رہا ہے جس میں ریڈار اور سیٹلائٹ فیڈ شامل ہیں۔ انہوں نے ثبوت فراہم نہیں کیے اور اسلام آباد اس الزام کی تردید کرتا ہے۔

پاکستان کے ساتھ بیجنگ کی فوجی شراکت داری کے بارے میں جولائی میں بریفنگ میں پوچھے جانے پر چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ماؤ ننگ نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ کام ’دونوں ممالک کے درمیان معمول کے تعاون کا حصہ ہے اور کسی تیسرے فریق کو نشانہ نہیں بناتا۔‘

 


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow