انڈیا کے شہر ممبئی سے کولکتہ جانے والی فلائٹ میں سفر کرنے والے وہ شخص جنھیں تھپڑ مارا گیا تھا، ان کے اہلِ خانہ نے ان کی شناخت کر لی تاہم واقعے کے بعد سے وہ تاحال لاپتہ ہیں۔
انڈیا کے شہر ممبئی سے کولکتہ جانے والیفلائٹ میں سفر کرنے والے وہ شخص جنھیں تھپڑ مارا گیا تھا، ان کے اہلِ خانہ نے ان کی شناخت کر لی ہے تاہم واقعے کے بعد سے وہ تاحال لاپتہ ہیں۔
تھپڑ کا نشانہ بننے والے شخص کی شناخت 32 سالہ حسین احمد مجمدار کے طور پر کی گئی ہے جو آسام کے کاچھر ضلع کے کٹیگورہ اسمبلی حلقہ کے لاٹھیمارا گاؤں کے رہنے والے ہیں۔
اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے جس میں ٹوپی پہنے ہوئے ایک باریش مسلمان مسافر کو ایک دوسرا مسافر تھپڑ مارتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
سلچر میں بی بی سی کے معاون صحافی وشو کلیان پرکایستھ نے حسین مجمدار کے والد عبدالمنان مجمدار سے بات کی ہے۔ عبدالمنان مجمدار نے وائرل ویڈیو میں متاثرہ شخص کی شناخت اپنے بیٹے کے طور پر کی ہے۔
عبدالمنان مجمدار کا کہنا ہے کہ ’حسین اس واقعے کے بعد سے لاپتہ ہے جس کی وجہ سے ان کا خاندان صدمے اور پریشانی میں مبتلا ہے۔‘
یہ واقعہ جمعرات 31 جولائی کو انڈیگو کی فلائٹ نمبر 6ای-138 میں پیش آیا جو ممبئی سے کولکتہ جا رہی تھی۔ اس ویڈیو پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے شدید ردعمل اور تنقید سامنے آ رہی ہے اور اسے ’اسلاموفوبیا‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جس مسلمان شخص کو تھپڑ مارا گیا وہ بیمار نظر آ رہا تھا اور کیبن کریو اس کی مدد کر رہا تھا۔ اسی دوران ایک دوسرے مسافر نے اسے زوردار تھپڑ مارا۔
انڈیگو ایئرلائنز نے ساتھی مسافر کو تھپڑ مارنے والے شخص پر پرواز کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔
’سچ تب ہی سامنے آئے گا جب وہ گھر واپس آئے گا‘
حسین احمد مجمدار کے اہل خانہ نے سلچر میں بی بی سی کو بتایا: ’ہم نے ویڈیو دیکھی لیکن اس کے بعد کیا ہوا اس کا ہمیں کوئی علم نہیں ہے۔ سچ تب ہی سامنے آئے گا جب وہ گھر واپس آئے گا۔‘
حسین احمد مجمدار کے اہل خانہ نے بتایا کہ حسین ممبئی کے ایک ہوٹل میں کام کرتے ہیں اور وہ گذشتہ سات سال سے وہاں مقیم ہیں۔
ان کے والد عبدالمنان مجمدار کے مطابق ’ممبئی سے سلچر کا یہ شاید ان کا پانچواں سفر تھا، لیکن کل جو ہوا وہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔‘
عبدالمنان کا کہنا ہے کہ انھوں نے حسین کو مارے پیٹے جانے کی وائرل ویڈیو دیکھی اور پھر ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کا موبائل بند تھا۔
انھوں نے کہا: ’ممبئی سے روانہ ہونے سے پہلے انھوں نے ہمیں ایک دوسرے نمبر سے کال کی اور بتایا کہ ان کا فون گم ہو گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ گھر پہنچ کر نیا فون خریدیں گے۔‘
اہل خانہ کا کہنا تھا کہ ’ہمیں صبح ایک ویڈیو ملی جس میں ایک ساتھی مسافر حسین کو تھپڑ مار رہا تھا، ہم فوراً ایئرپورٹ پہنچے، ہمیں امید تھی کہ وہ اتریں گے لیکن وہ نہیں آئے۔‘
اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انڈیگو ایئر لائنز اور ایئرپورٹ انتظامیہ نے حسین کی حالت اور ان کے بارے میں کوئی ٹھوس معلومات نہیں دی ہیں۔
اہل خانہ کا کہنا تھا کہ انھیں ایئرپورٹ پر کوئی مدد نہیں ملی۔ خاندان نے کہا کہ ہم ایئرپورٹ کے احاطے میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے لیکن ہمیں اجازت نہیں دی گئی۔
آسام پولیس نے کیا بتایا؟
پولیس کا کہنا ہے کہ وہ حسین کو تلاش کر رہی ہے اور ان کے خاندان سے رابطے میں ہے لیکن گھر والوں نے ابھی تک گمشدگی کی کوئی باضابطہ شکایت درج نہیں کرائی ہے۔ دوسری جانب اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے تھانے جا کر گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی ہے۔آسام کے کاچھر ضلع کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) نمل مہتا نے کہا کہ وہ کولکتہ پولیس کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ان کے مطابق حسین کو پرواز میں تھپڑ مارنے والے مسافر سے صلح کے بعد دونوں کو31 جولائی کو کولکتہ ایئرپورٹ سے نکلنے کی اجازت دی گئی۔
مہتا نے کہا: ’سی آئی ایس ایف کے اہلکاروں نے حسین اور تھپڑ مارنے والے شخص کے درمیان ملاقات کا اہتمام کیا۔ دونوں فریقوں کے بیانات ریکارڈ کرنے کے بعد انھیں جانے کی اجازت دی گئی۔ حسین کو اگلی صبح کولکتہ سے سلچر کے لیے فلائٹ پکڑنی تھی لیکن وہ شاید فلائٹ نہیں پکڑ سکے۔‘
انھوں نے بتایا کہ حسین نے سنیچر کو کوئی فلائٹ نہیں لی اور نہ ہی اپنے اہل خانہ سے رابطہ کیا۔
مہتا نے کہا: ’خاندان کے افراد کے مطابق ممبئی میں ان کا موبائل فون گم ہو گیا تھا، جس کی وجہ سے وہ ان سے رابطہ نہیں کر پا رہے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ وہ کسی اور طریقے سے سلچر واپس جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے بی بی سی کے معاون صحافی کو بتایا کہ پولیس حسین کو تلاش کر رہی ہے اور ان کے خاندان سے رابطے میں ہے۔ لیکن گھر والوں نے ابھی تک گمشدگی کی کوئی باضابطہ شکایت درج نہیں کرائی ہے۔
دوسری جانب اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے تھانے جا کر گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی ہے۔
ویڈیو میں کیا نظر آرہا ہے؟
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں داڑھی رکھے ٹوپی پہنے شخص تھپڑ کھانے کے بعد پریشان اور روتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ جبکہ ایک اور مسافر کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ’تم نے اسے کیوں مارا؟ تمہیں کسی کو مارنے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘
ویڈیو میں کیبن کریو کے دو ارکان متاثرہ شخص کی مدد کرتے ہوئے اسے طیارے میں آگے لے جاتے ہوئے نظر آ رہے تھے کہ اسی لمحے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے ایک مسافر نے اچانک اسے زوردار تماچہ رسید کر دیا۔ اس پر فلائٹ اٹینڈنٹ نے کہا ’سر، براہ کرم ایسا نہ کریں۔‘
ویڈیو ریکارڈ کرنے والے شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا جاتا ہے کہ ’مار کیوں رہے ہو؟ تم نے ہاتھ کیوں اٹھایا؟‘
اس پر اسے تھپڑ مارنے والے نے جواب دیا کہ ’اس کی وجہ سے ہمیں پرابلم ہو رہی تھی۔‘
جہاز میں بیٹھے ایک اور مسافر نے کہا کہ ’سب کو پرابلم ہو رہی تھی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اسے تھپڑ ماریں گے۔‘
اس کے بعد اس آدمی نے عملے سے کہا کہ وہ اس آدمی کے لیے پانی لے آئے۔ ویڈیو بنانے والے مسافر نے کہا ’اسے پینک اٹیک آر ہا ہے‘ یعنی گھبراہٹ کا دورہ پڑا ہے، ’براہ کرم اس کے لیے پانی لے آئیں۔‘
انڈین میڈیا کے مطابق طیارے کے کولکتہ ايئرپورٹ پر اترنے کے بعد ملزم کو ایئرپورٹ پر سکیورٹی اہلکاروں کے حوالے کر دیا گیا۔
سینٹرل انڈسٹریل سکیورٹی فورس نے اس شخص کو مزید تفتیش کے لیے اپنی تحویل میں لے لیا۔
انڈیگو ایئر لائنز نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا تھا کہ ’مسافر کو تھپڑ مارنے والے شخص کو کولکتہ میں لینڈنگ کے فوراً بعد حکام کے حوالے کر دیا گیا۔‘
ایئر لائنز نے تھپڑ مارنے والے شخص کو ’شرپسند‘ قرار دیا تھا اور کہا کہ طے شدہ پروٹوکول کے مطابق متعلقہ ایوی ایشن سکیورٹی ایجنسیوں کو واقعے سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔
تاہم ’انڈین ایکسپریس‘ نے بدھ نگر پولیس کے ایک سینیئر افسر کے حوالے سے اطلاع دی تھی کہ جس مسافر کو حراست میں لیا گیا تھا اسے بعد میں چھوڑ دیا گیا۔
انڈیگو میں پیش آنے والے واقعے کو انڈیا میں پھیلنے والی منافرت سے جوڑا جا رہا ہےسوشل میڈیا پر رد عمل
اس واقعے پر سوشل میڈیا پر شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے۔
تاج انڈیا نامی ایک صارف نے لکھا: ’معاشرہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔ ایک نفرت پھیلانے والے نے انڈیگو کی فلائٹ میں ایک بیمار مسلمان کو تھپڑ مارا، اسے کسی اصول توڑنے پر نہیں بلکہ مسلمان ہونے کی وجہ سے مارا گيا ہے۔‘
صارف نے اقوام محتدہ کی انسانی حقوق کو ٹیگ کرتے ہوئے انڈیگو سے پوچھا: ’ہیلو انڈیگو کیا یہ نفرت انگیز جرم نہیں ہے؟ آپ نے کیا اقدامات کیے ہیں؟‘
انڈیگو کی جانب سے جاری کردہ وضاحت کو رد کرتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر معروف وکیل سنجے ہیگڑے نےلکھا: ’انڈیگو نے کمزور جواب دیا ہے۔ کیا ساتھی مسافر کے ساتھ بدتمیزی کرنے والے کو نو فلائی لسٹ میں ڈالا گیا ہے؟ کیا انڈیگو نے فلائٹ سے اترنے کے بعد اس کی شکایت پولیس اور متعلقہ حکام کو بھیجی؟ اگر مسافر کو سی آئی ایس ایف کے حوالے کیا گیا تو اس پر کس قانون کے تحت الزامات لگائے گئے؟‘
صحافی رعنا ایوب نے اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ’مجرمانہ عمل ہے اور اس شخص کو نو فلائی لسٹ میں ڈال دیا جانا چاہیے۔‘
ایکس پر ہی ایک صارف نے لکھا ’کب تک اس طرح مارتے رہو گے؟ انڈیگو فلائٹ کا یہ واقعہ انتہائی شرمناک ہے۔ اگر اس قسم کی ذہنیت کے خلاف بروقت کارروائی نہ کی گئی تو یہ معاشرے کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔ پورے ملک میں اسلامو فوبیا کا بڑھتا ہوا رجحان تشویشناک ہے۔‘
صحافی اور مصنف سریوپانی نے ایکس پر لکھا: 'ابھی ایک ریل دیکھی ہے جہاں انڈیگو کی فلائٹ میں ایک مسلمان شخص کو ساتھی مسافر نے تھپڑ مارا۔ عملے نے مداخلت کی اور دوسرے مسافروں نے بھی حملہ آور کو ڈانٹا لیکن اس تھپڑ کے بعد متاثرہ کو پینک اٹیک آيا، جو کہ ہجومی تشدد کے اس ملک میں پوری طرح سے قابل فہم ردعمل ہے۔ ہم اکثریت نے اپنے ملک کو کتنا بگاڑ دیا ہے۔‘
اس کے جواب میں کئی لوگوں نے لکھا کہ متاثر شخص پہلے سے ہی پریشان تھا۔ کسی بیمار کو مار کر کون سا تیر مار لیا۔ اگر کوئی اس سے تندرست ہوتا تو وہ مارنے والے کو جواب دیتا۔
شیوراج یادو نامی صارف نے لکھا: ’انڈیگو فلائٹ کی ویڈیو دیکھ کر میں حیران ہوں! ایئر ہوسٹس ایک بیمار مسلمان مسافر کو سہارا دے کر لے جا رہی تھی کہ ایک شخص نے اسے تھپڑ مار دیا! اب سمجھ نہیں آ رہا کہ تھپڑ صرف داڑھی اور ٹوپی کی وجہ سے مارا گیا تھا یا کوئی معاملہ تھا؟ سچ کے سامنے آنے کا انتظار کریں گے لیکن یہ غلط ہے۔‘
ڈاکٹر شیتل یادو نامی صارف نے لکھا: ’انڈیگو فلائٹ میں جو کچھ ہوا وہ بہت شرمناک ہے۔ مذہب کی بنیاد پر تفریق غلط ہے۔ اسلاموفوبیا اب واقعی باعث تشویش ہے۔‘