آپ نے 'اے'، 'بی'، 'او' اور 'آر ایچ' جیسے بلڈ گروپس کے نام سنے ہوں گے۔ مگر دراصل ان کے علاوہ کچھ نایاب بلڈ گروپس بھی ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ایک نایاب بلڈ گروپ کی پہلی بار انڈیا میں دریافت ہوئی ہے۔
آپ نے ’اے‘، ’بی‘، ’او‘ اور ’آر ایچ‘ (پازیٹو یا نیگیٹو) جیسے خون کے گروپس کے نام سنے ہوں گے۔ مگر دراصل ان کے علاوہ کچھ نایاب بلڈ گروپس بھی ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ایک نایاب بلڈ گروپ کی پہلی بار انڈیا میں دریافت ہوئی ہے۔
اس بلڈ گروپ کا نام ’سی آر آئی بی‘ رکھا گیا ہے جس میں ’سی‘ سے مراد کرومر جبکہ آئی اور بی کا مطلب انڈیا کا بنگلورو ہیں۔ سادہ الفاظ میں یہ کہ نیا بلڈ گروپ بنگلورو کے قریب ایک 38 سالہ خاتون میں پایا گیا۔
یہ خون کا گروپ اتنا نایاب ہے کہ اس خاتون کی دل کی سرجری کے دوران ڈاکٹروں نے خون کی منتقلی کے لیے ایک یا دو بوتلیں تیار رکھنے کا معمول بھی نہیں اپنایا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ماہرین خاتون کے خون کے گروپ کی شناخت نہیں کر سکے تھے۔
اس واقعے کے 11 ماہ بعد ڈاکٹر انکت ماتھر سرجری کے دن کو یاد کرتے ہیں۔ انھیں اس بات پر خوشی ہے کہ یہ سرجری بغیر کسی اضافی خون کے کامیاب ہو گئی تھی۔
اس دوران بنگلور بلڈ سینٹر کے ڈاکٹر انکت ماتھر بنگلورو کولار کے آر ایل جلپا ہسپتال کے ڈاکٹروں سے رابطے میں تھے۔ خاتون کو دل کے عارضے کے باعث ہسپتال میں سرجری کی تجویز دی گئی تھی۔
دوسرے بلڈ گروپس سے مختلف
ڈاکٹر انکت ماتھر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’خاتون کا بلڈ گروپ کسی دوسرے گروپ سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس کے بعد ہم نے ان کے خاندان میں تلاش شروع کی۔ ہم نے خاندان کے 20 افراد کے خون کے نمونے لیے۔ سب نے ہمارے ساتھ تعاون کیا۔ پھر بھی کسی کا خون میچ نہیں ہوا۔‘
اس کے بعد اگلا آپشن یہ تھا کہ خون کا نمونہ برطانیہ میں انٹرنیشنل بلڈ گروپ ریفرنس لیبارٹری بھیجا جائے۔
یہی وہ لیبارٹری ہے جہاں دنیا بھر سے خون کے نمونے بھیجے جاتے ہیں تاکہ دیگر بلڈ گروپس سے مطابقت چیک کی جا سکے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے جنوبی انڈیا کے مختلف حصوں سے خون کے نمونے بنگلور اور شمالی انڈیا سے نمونے چندی گڑھ بھیجے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر انکت ماتھر نے کہا تھا کہ ’اس کا مکمل تجزیہ کرنے میں انھیں 10 ماہ لگے۔ فروری-مارچ میں انھوں نے جواب دیا کہ مریضہ کے خون میں ایک نایاب اینٹیجن ہے۔
’اس کے بعد یہ معلومات انٹرنیشنل سوسائٹی آف بلڈ ٹرانسفیوژن کو بھیجی گئیں۔ یہاں ریڈ بلڈ سیل ایمیونوجینیٹکس اینڈ ٹرمنالوجی گروپ کے ماہرین ہیں۔ انھوں نے نئے بلڈ گروپ کے نام سی آر آئی بی کی منظوری دی۔‘
اس کا اعلان رواں سال جون کے دوران اٹلی میں کیا گیا۔
ڈاکٹروں کے مطابق نئے بلڈ گروپ کا مکمل تجزیہ کرنے میں انھیں 10 ماہ لگےنایاب جینز
کسی شخص کا خون کا گروپ اس کے والدین کے جینز (جینیات) پر منحصر ہوتا ہے۔ تو کیا اس خاتون کے کیس میں جینیاتی ڈھانچے میں کوئی مسئلہ تھا؟ اس بارے میں ڈاکٹر ماتھر کہتے ہیں کہ ’ہم نے سوچا کہ خاندان میں کم از کم ایک فرد میں یہ اینٹیجن ہو گا۔ لیکن ہمیں معلوم ہوا کہ کسی میں بھی نہیں تھا۔‘
اینٹیجنز ایک قسم کے پروٹین ہوتے ہیں جو جسم میں ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر ماتھر کے مطابق ’جب جسم میں کوئی چیز بنتی ہے تو اس کی مکمل معلومات یا کوڈنگ دونوں والدین سے آتی ہے۔ نصف معلومات والد کے جینز سے آتی ہیں اور اگر اس میں کوئی کمی ہو تو ماں کی طرف سے پورا کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر ماں کے جینز میں کوئی کمی ہو تو والد کی طرف سے پورا کیا جاتا ہے۔‘
'لیکن اس کیس میں صرف نصف معلومات موجود ہیں۔ اسی لیے ان کا خون کا گروپ بالکل مختلف ہے۔ اس کیس میں وہ اینٹیجن کرومر ہے۔'
ڈاکٹر انکت ماتھر نے کہا کہ 'اب تک کرومر بلڈ گروپ سسٹم میں 20 اینٹیجنز کی شناخت ہو چکی تھی۔ سی آر آئی بی اب اس سسٹم کا 21واں اینٹیجن بن گیا ہے۔'
ایمرجنسی میں ایسے مریضوں کا کیا ہوتا ہے؟
کولار کی اس خاتون جیسے افراد کے لیے ایمرجنسی حالات میں کچھ بھی محفوظ نہیں ہے۔ اگر کسی شخص میں یہ پروٹینز نہ ہوں اور اسے عام طریقے سے خون کی منتقلی کی جائے تو اس کا جسم اسے اجنبی سمجھتا ہے اور اسے ختم کرنے کے لیے اینٹی باڈیز بناتا ہے۔
ڈاکٹر انکت ماتھر کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں کوئی آپشن نہیں ہوتا کہ ’جب تک ہمیں خاندان میں کوئی ایسا فرد نہ ملے جس کا خون کا گروپ بھی سی آر آئی بی ہو۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ایسی صورتوں میں ’دوسرا آپشن یہ ہے کہ ڈاکٹر سرجری سے پہلے مریض کا اپنا خون جمع کر لے تاکہ ایمرجنسی میں اسی خون کو مریض کو دیا جا سکے۔ اسے آٹولوگس بلڈ ٹرانسفیوژن کہتے ہیں۔‘
آٹولوگس بلڈ ٹرانسفیوژن کوئی غیر معمولی طریقہ کار نہیں ہے۔ نایاب خون کے گروپس والے مریضوں میں یہ طریقہ عام طور پر اپنایا جاتا ہے۔
کیا دوسرے خون کے گروپ سے خون لیا یا دیا جا سکتا ہے؟
سی آر آئی بی خون کا گروپ دیگر 47 خون کے گروپ سسٹمز سے مختلف نہیں ہے جن میں 300 اینٹیجنز ہیں۔ لیکن ٹرانسفیوژن صرف اے بی او اور آر ایچ ڈی کی صورت میں کی جاتی ہے۔
ممبئی کے آئی سی ایم آر-این آئی آئی ایچ (نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایمیونوہیماٹولوجی) کی سابق ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر سواتی نے ممبئی بلڈ گروپ ایچ ایچ کی مثال دی جسے ڈاکٹر وائی ایم بھینڈے اور ڈاکٹر ایچ ایم بھاٹیا نے 1952 میں دریافت کیا تھا۔
ایسے لوگوں میں ’او گروپ کی طرح اے اور بی اینٹیجنز نہیں ہوتے۔ مگر او گروپ کے لوگوں کا خون بھی انھیں نہیں دیا جا سکتا۔‘
اسی طرح ’بمبئی بلڈ گروپ‘ ایک نایاب خون کا گروپ ہے جو دنیا میں دس لاکھ افراد میں سے ایک میں پایا جاتا ہے۔ تاہم ممبئی میں اس کی شرح ہر دس ہزار افراد میں ایک بتائی جاتی ہے۔
ڈاکٹر انکت ماتھر کہتے ہیں کہ ’کولار کی مریضہ کے کیس میں بھی یہی صورتحال ہے۔ وہ کسی سے خون نہیں لے سکتیں لیکن دوسروں کو خون دے سکتی ہیں، جیسے بمبئی بلڈ گروپ والے لوگ کر سکتے ہیں۔‘
ڈاکٹر سواتی کلکرنی بتاتی ہیں کہ ’بمبئی بلڈ گروپ اور کرومر بلڈ گروپ سسٹم کے علاوہ انڈین بلڈ گروپ سسٹم بھی انڈیا میں دریافت ہوا تھا۔ اسے آئی سی ایم آر-این آئی آئی ایچ نے 1973 میں دریافت کیا تھا۔‘
نایاب خون کے عطیہ دہندگان کا رجسٹر
ڈاکٹر سواتی کلکرنی کہتی ہیں کہ این آئی ایچ قومی سطح پر نایاب خون کے عطیہ کے لیے ایک رجسٹر بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ ایک ڈیٹا بیس ہوگا جس میں نایاب خون کے گروپوں والے عطیہ دہندگان کی معلومات ہوں گی تاکہ مریضوں کو منظم اور تیزی سے خون مہیا کیا جا سکے۔
وہ کہتی ہیں کہ یہ رجسٹر خاص طور پر ان مریضوں کے لیے مددگار ہو گا جن کے جسم میں مختلف قسم کی اینٹی باڈیز بن چکی ہیں اور انھیں اپنے بلڈ گروپ کی ضرورت ہے۔
یہ رجسٹر ایسی صورتوں میں زیادہ اہم ہے جہاں ریڈ سیل ایلوایمیونائزیشن اور منفی خون کے اینٹیجنز کی ضرورت ہو (جب جسم کا مدافعتی نظام اجنبی عنصر سے لڑنے کے لیے اینٹی باڈیز بنانا شروع کر دیتا ہے)۔
تھیلاسیمیا کے مریضوں میں ایلوایمیونائزیشن کی شرح آٹھ سے 10 فیصد پائی گئی ہے۔ ایسی صورتوں میں مریض کو بار بار خون کی منتقلی کی ضرورت ہوتی ہے۔
ڈاکٹر سواتی کلکرنی کہتی ہیں کہ 'عام آبادی میں ٹرانسفیوژن کی ضرورت والے مریضوں میں اینٹی باڈیز بننے کا امکان تقریباً ایک سے دو فیصد ہے۔ ایلوایمیونائزیشن اور خون کے گروپ اینٹیجنز بننے کی شرح الگ الگ نسلی گروہوں میں مختلف ہو سکتی ہے۔'