یہ وہ مقام ہے جہاں پورا سال پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف جمی رہتی ہے اور اسی لیے یہاں اچانک ایک لاش دیکھنا تمام لوگوں کے لیے حیران کن تھا۔
عمر خان اپنے چند دوستوں کے ہمراہ لیدی ویلی گئے تو وہاں گلیشیئرز اور پہاڑوں کی سیر کے دوران انھیں اچانک ایک لاش نظر آئی۔
کوہستان کے علاقے پالس سے تعلق رکھنے والے عمر خان مال مویشی پالنے اور فروخت کا کام کرتے ہیں اور گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران اکثر لیدی ویلی جاتے ہیں۔
یہ وہ مقام ہے جہاں پورا سال پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف جمی رہتی ہے اور اسی لیے یہاں اچانک ایک لاش دیکھنا تمام لوگوں کے لیے حیران کن تھا۔
عمر خان نے بتایا کہ ’لاش بالکل صحیح سلامت تھی۔ کپڑے بھی پھٹے ہوئے نہیں تھے۔‘ تلاشی لینے پر انھیں ایک شناختی کارڈ ملا جس پر نام ’نصیر الدین‘ درج تھا۔
نصیر الدین کی لاش ملنے کے بارے میں کوائی پالس کے ڈسڑکٹ پولیس افسر امجد حسین نے بتایا ہے کہ یہ 28 سال پرانا ’واقعہ ہے‘ جس میں بظاہر ایک شخص گلیشیئر میں گِر گیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ اس وقت پولیس نے انکوائری مکمل کر کے بند کر دی تھی مگر لواحقین نے نصیر الدین کی گمشدگی سے متعلق کبھی کوئی رپورٹ درج نہیں کرائی تھی۔
مگر وہاں گلیشیئر پر موجود عمر خان کہتے ہیں کہ ’جب نصیر الدین کا شناختی کارڈ نکلا تو میرے ساتھ موجود لوگوں کو فوراً نصیر الدین اور اس کے خاندان کی کہانی یاد آ گئی جنھوں نے (خاندانی) دشمنی کی بنا پر پالس چھوڑا تھا اور پھر اس گلیشیئر میں لاپتہ ہو گئے تھے۔‘
نصیر الدین نے سوگواروں میں دو بچے اور بیوہ چھوڑی تھیں۔
نصیر الدین کون تھے؟
جس وقت نصیر الدین لاپتہ ہوئے تھے تب ان کے ہمراہ گلیشیئر پر ان کے چھوٹے بھائی کثیر الدین بھی تھے۔ کوہستان کے علاقے پالس کے یہ رہائشی ’خاندانی دشمنی کی بنا پر‘ اپنا علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔
کوہستان پولیس کے ریٹائرڈ اہلکار عبدالعزیز سمیت دوسرے مقامی لوگوں نے بی بی سی کو بتایا کہ نصیر الدین کے ایک بھائی گردیز کو مبینہ طور پر غیرت کے نام پر قتل کیا گیا تھا۔
عبدالعزیز کا کہنا ہے کہ ’یہ وہ دور تھا جب پالس تک رسائی بہت مشکل تھی۔ ذرائع موصلات نہیں تھے اور عموماً ایسے واقعات پولیس تک نہیں پہنچتے تھے۔ لوگ بھی ان واقعات کو رپورٹ نہیں کرواتے تھے۔‘
’پولیس کو اپنے ذرائع سے معلومات مل جاتی تھیں اور اگر متاثرہ فریق رپورٹ نہ کرواتا تو پولیس کے لیے ان معاملات میں مداخلت کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا تھا۔‘
عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ جب گردیز اور ایک لڑکی کو مبینہ طور پر نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کیا گیا تو ’گردیز کے والد بہرام نے مقدمہ درج کرانے کی بجائے خود اس کا بدلہ لینے کا اعلان کیا۔ اس پر دوسرے فریق نے بہران اور ان کے دونوں بیٹوں نصیر الدین اور کثیر الدین کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا۔‘
ریٹائرڈ پولیس اہلکار کے مطابق ’والد نے گرفتاری دے دی تھی مگر دونوں بھائی گرفتاری کے خدشے سے مفرور ہو گئے تھے۔ چند سال بعد والد بہرام بری بھی ہو گئے تھے مگر اب اس خاندان کے لیے پالس میں رہنا ممکن نہیں تھا، اس لیے وہ الائی منتقل ہو گئے۔‘
نصیر الدین کے بھائی کثیر الدین کے بقول بعد ازاں وہ اس مقدمے میں 2023 تک مفرور رہے اور 2023 میں خود گرفتاری دی۔ وہ چند ماہ بعد عدالت سے بری ہوگئے تھے۔
نصیر الدین کیسے لاپتہ ہوئے؟
تین اگست 2025 کو جب کثیر الدین اپنے بھائی نصیر الدین کی لاش لینے کے لیے لیدی ویلی روانہ ہوئے تو اس دوران انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اور نصیر الدین الائی سے کوہستان کی سپیٹ ویلی آئے تھے جہاں سے انھوں نے تجارت کے لیے گھوڑے خریدے تھے اور ان گھوڑوں کو واپس الائی پہنچانا تھا۔
دونوں بھائی کوہستال سے مال مویشی اور گھوڑے لا کر الائی میں فروخت کرتے تھے جہاں ان کی ’بہت طلب ہوتی تھی۔‘
الائی سے کوھستان کا راستہ دشوار گزار تھا جو سال میں کئی ماہ تک بند بھی رہتا تھا۔ کثیر الدین کے بقول وہ خاندانی دشمنی کے باعث غیر رویتی راستوں پر سفر کرتے تھے۔
یہ جون 1997 کی بات ہے جب وہ اور ان کا بھائی نصیر الدین کوہستان کی سپیٹ ویلی کا سفر کر رہے تھے اور واپسی کے لیے انھوں نے ایک الگ راستے کا انتخاب کیا۔
’ہم لوگ سپیٹ ویلی سے ناران کاغان پہنچے وہاں رات گزارنے کے بعد الائی کے لیے واپسی کا سفر شروع کیا۔ جب ہم کوہستان کی حدود میں پہنچے تو ہم نے کسی سے راستے پوچھا جس نے ہمیں لیدی ویلی کے پہاڑوں تک پہچنے کا راستہ بتایا۔ ہم گھوڑوں پر سفر کر رہے تھے۔‘
کثیر الدین کہتے ہیں کہ لیدی ویلی پر دوپہر کے سفر کے دوران نصیر الدین گھوڑے پر سوار تھے اور وہ پیدل چل رہے تھے۔ ’جب ہم بالکل اوپر پہنچ گئے تو اچانک فائرنگ کی آواز سنی۔‘
کثیر الدین کے بقول انھیں خدشہ تھا کہ ’فائرنگ دشمن کی جانب سے‘ کی گئی۔ مگر اس معاملے کی آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکی اور نہ ہی کوہستان پولیس کو وہاں فائرنگ کی اطلاع موصول ہوئی۔
مگر کثیر الدین کا اصرار ہے کہ ’فائرنگ کے بعد نصیر الدین ایک غار میں چلے گئے تھے۔ میں واپس مڑا اور اس مقام پر پہنچا جہاں پر میں نے دیکھا کہ بھائی غار کے اندر گیا تھا تو وہاں کچھ نہیں تھا۔ میں نے تھوڑا سا برف کے غار کے اندر جا کر بھی دیکھا مگر کچھ بھی نہیں تھا۔‘
کثیر الدین کے بقول انھوں نے کافی عرصے تک دیگر لوگوں کی مدد سے بھی وہاں اپنے بھائی کو ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہے تھے۔ لہذا انھوں نے خاندان کے مشورے پر ’گلیشیئر پر ہی نصیر الدین کی نماز جنازہ ادا کر دی تھی۔‘
پھر 28 سال بعد لاش گلیشیئر سے ملی
عمر خان کہتے ہیں کہ وہ تقریباً ہر سال اس علاقے میں آ رہے ہیں مگر ’جو میں اس سال دیکھ رہا ہوں وہ ناقابل یقین ہے۔‘
’اس سال گلیشیئر تیزی سے پگھل رہا ہے اور ہم لوگ محسوس کر رہے ہیں کہ اس علاقے میں گرمی بھی بڑھ چکی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جب ممکنہ طور پر نصیر الدین اس گلیشیئر یا غار میں پھنسے ہوں گے تو اس کے بعد ’وہ چند منٹ ہی زندہ رہ سکے ہوں گے۔۔۔ ہمیں وہاں گھوڑے کی باقیات نہیں ملیں۔‘
انھیں لگتا ہے کہ نصیر الدین کی لاش کئی سالوں تک گلیشیئر کے اندر ہی رہی ہو گی اور شاید اسی لیے یہ خراب بھی نہیں ہوئی۔
گلیشیئرز میں محفوظ رہنے والی انسانی لاشیں اکثر حیران کن حد تک صحیح حالت میں پائی جاتی ہیں، حالانکہ صدیوں گزر چکی ہوتی ہیں۔
عمر خان کہتے ہیں کہ انھوں نے ایک دن کا پیدل سفر کر کے ایسے علاقے تک رسائی حاصل کی جہاں پر موبائل سگنل موجود تھے جس کے بعد انھوں نے 'نصیر الدین کے رشتہ داروں کے فون نمبر حاصل کر کے اطلاع دی۔
’ہم لوگوں نے وہ لاش امانتاً دفن کر دی ہے کہ وہ اب گلیشیئر میں نہیں ہے اور اگر امانتا دفن نہ کرتے تو ممکنہ طور پراس کے خراب ہونے کا خدشہ تھا۔‘
کثیر الدین کا کہنا تھا کہ ’ہم لوگ بلیدی کی طرف چل پڑے ہیں۔ میں 28 سال بعد دوبارہ بلیدی کی طرف جا رہا ہوں۔ وہاں جا کر فیصلہ کروں گا کہ بھائی کی لاش کو ادھر ہی دفن رہنے دیا جائے یا اس کو واپس لایا جائے۔‘
’واپس لانے کا فیصلہ اس بنیاد پر بھی ہوگا کہ کیا ہماری جن کے ساتھ دشمنی ہے، پالس کے اندر لاش دفن کرنے کی اجازت دیتے بھی ہیں یا نہیں۔‘
’گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں‘
کامسیٹس یونیورسٹی ایبٹ آباد کے شعبہ ماحولیات کے ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ پروفسیر ڈاکٹر محمد بلال اس کی سائنسی وجوہات بتاتے ہیں کہ ’جب کوئی جسم گلیشیئر میں داخل ہوتا ہے تو وہاں کا شدید سرد درجہ حرارت اسے بہت تیزی سے منجمد کر دیتا ہے۔‘
’یہ اچانک منجمد ہونے کا عمل جسم کو گلنے سڑنے سے روک دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جسم میں موجود قدرتی انزائمز اور بیکٹیریا جو عام حالات میں ٹشوز کو خراب کرتے ہیں، وہ سرد ماحول میں غیر فعال ہو جاتے ہیں۔‘
پروفسیر ڈاکٹر محمد بلال کا کہنا تھا کہ ’گلیشیئر میں آکسیجن کی مقدار بھی بہت کم ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ بیکٹیریا جو آکسیجن کے ذریعے زندہ رہتے ہیں اور جسم کو گلانے کا کام کرتے ہیں، موثر طریقے سے کام نہیں کر پاتے۔ اس کے علاوہ وہاں نمی کی کمی ہوتی ہے جس سے جسم کا پانی خشک ہو جاتا ہے۔ یہ عمل ’ممیفیکیشن‘ کہلاتا ہے جس میں لاش قدرتی طور پر سوکھ جاتی ہے اور لمبے عرصے تک محفوظ رہتی ہے۔‘
ان کے مطابق برف جسم کے اردگرد ایک قدرتی حفاظتی تہہ بنا لیتی ہے۔ ’یہ تہہ جسم کو باہر کے ماحول، جراثیم، کیڑوں اور درجہ حرارت کی تبدیلیوں سے محفوظ رکھتی ہے۔ ان تمام عوامل کی وجہ سے گلیشیئر میں لاش کے خراب ہونے کا عمل نہایت سست ہو جاتا ہے یا مکمل طور پر رُک جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ہزار سال پرانی لاشیں بھی گلیشیئر میں صحیح حالت میں دریافت ہوتی ہیں۔‘
مگر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان لاشوں کا اچانک رونما ہونا ماحولیاتی تبدیلی کی بھی علامت ہے کیونکہ اس سے پتا چلتا ہے کہ گلیشیئر کتنی تیزی سے پگھل رہے ہیں۔
کامیسٹس یونیورسٹی ایبٹ آباد سے منسلک پروفسیر ڈاکٹر عدنان احمد طاہر پاکستان کے گلیشیئرز پر تحقیق کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ لاش کئی سال قبل برف میں دب گئی تھی اور اب لیدی ویلی کے ایک لاش سے برآمد ہوئی ہے۔ ’ہمارے گلیشیئرز غیر معمولی رفتار سے پیچھے ہٹ رہے ہیں یا پگھل رہے ہیں جس کے پیچھے کئی ماحولیاتی عوامل کارفرما ہیں۔‘
وہ فلیش فلڈز اور جھیلیں پھٹنے کے واقعات کی مثالیں دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسی طرح برف میں دبی ہوئی اشیا اور لاشیں برآمد ہونے کے واقعات بھی بڑھے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پچھلے تین سالوں سے ان علاقوں میں برفباری کی مقدار کم ہوئی ہے اور برف جلدی پگھل جاتی ہے جس کے باعث گلیشیئرز سورج کی روشنی کے براہ راست اثر میں آ جاتے ہیں اور زیادہ تیزی سے پگھلتے ہیں۔‘