اب ایشیا کپ تو چار ہی دن کی دوری پہ ہے اور اس کے ہنگام بھلے پاکستان کی تیاریاں بہت قابلِ رشک نہ سہی، مگر اگلے برس کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ تک یہ نئے چہرے بھی اتنا تجربہ حاصل کر چکے ہوں گے کہ اپنے نتائج کے جواز میں کم از کم ناتجربہ کاری کا لفظ نہیں لا پائیں گے۔

ہار جیت بھلے ہی کھیل کا حصہ ہو، ویسٹ انڈین ٹیم کی ہار مگر صرف کھیل ہی کا حصہ نہیں رہتی۔ یہ گویا ٹیم کے خمیر کا حصہ بن جاتی ہے اور ہزیمت کا سلسلہ کسی لینڈ سلائیڈ کی مانند بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔
اس سیریز سے پہلے ویسٹ انڈیز نے لگاتار پانچ ٹی ٹوئنٹی میچز میں آسٹریلیا سے شکست کھائی اور جن مارجنز سے وہ نتائج آسٹریلیا کے حق میں آئے، وہ کیریبئین کرکٹ کو دھول چٹانے کے مترادف تھے۔
پاکستان کے خلاف یہ سیریز اس اعتماد کی بحالی کا موقع تھا جسے گنوائے ویسٹ انڈیز کو قریب دو سال ہونے کو ہیں۔ یہ پاکستانی الیون بھی آسٹریلیا کی نسبت ایک آسان حریف تھی کہ یہ خود بھی ابھی تازہ تازہ بنگلہ دیش سے سیریز ہار کر آ رہی تھی۔
مگر پاکستانی ناتجربہ کاری بھی کیریبیئن کرکٹ کا زیادہ بھلا نہ کر پائی اور فرق محض مارجنز کا ہی رہا ورنہ دو میچوں کے نتائج تو ان کے لیے پچھلی سیریز سے الگ نہ تھے اور پچھلی سیریز بھی ان کے پچھلے دو سال سے کوئی زیادہ الگ نہ تھی۔
پاکستان نے گو پہلے میچ میں سپن سے اپنی دھاک بٹھائی مگر دوسرے میچ میں شکست نے گویا تیسرے میچ کی منصوبہ بندی پر سائے ڈالے اور بھلے ہی آخری میچ و سیریز پاکستان کے نام رہے ہوں، یہاں صاحبزادہ فرحان اور صائم ایوب کی ساجھے داری بابر و رضوان سے زیادہ مختلف نہ تھی۔
پاکستان بابر اعظم اور محمد رضوان سے آگے بڑھنا ہی اس لیے چاہتا تھا کہ وہ جدید دور کی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ جدید رفتار سے کھیل پائے لیکن تیسرے میچ میں پندرہ اوورز تک پاکستان کی ناقابلِ شکست اوپننگ جوڑی 8.5 کے رن ریٹ سے کھیلتی نظر آئی۔
گو یہ محتاط کرکٹ ایسے دو طرفہ مقابلوں میں تو مثبت نتائج کی ضامن ہو سکتی ہے مگر جب معرکے کا دائرہ پھیلتا ہے اور سٹیج بین الاقوامی ہو جاتا ہے تو وہاں یہی احتیاط اکثر دامن سے لپٹ جاتی ہے اور نتائج کو پلٹ چھوڑتی ہے۔

اس احتیاط کا ایک سبب ڈریسنگ روم کی بے یقینی سے بھی پھوٹتا ہے کہ جو فرد الیون کا مستقل حصہ نہ بن پا رہا ہو، اس کا انفرادی اعداد و شمار سے شغف بڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور بعض اوقات یہ انفرادی شغف ہی اجتماعی ہزیمت کا باعث بھی بن جاتا ہے۔
بالآخر پچھلے برس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے بعد، پاکستان نے اپنے آزمودہ چہروں کی قربانی دے کر آگے بڑھنے کا فیصلہ اسی بنیاد پہ ہی تو کیا تھا۔ ورنہ تو بابر اعظم اور محمد رضوان کی اوپننگ پارٹنرشپ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں اوپننگ جوڑی کے عالمی ریکارڈز بنا چکی تھی۔
پچھلے پانچ ماہ میں پاکستان نے چار ٹی ٹوئنٹی سیریز کھیلی ہیں۔ نیوزی لینڈ اور بنگلہ دیش کے دوروں پہ اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ بنگہ دیش کے خلاف ہوم سیریز اور ویسٹ انڈیز کے حالیہ دورے پہ اسے فتح حاصل ہوئی۔
ریاضیاتی اعتبار سے نتائج کا یہ تناسب 50 فیصد ہے جو بجائے خود قابلِ رشک تو نہیں، لیکن امید افزا بہرحال ہے کہ اب یہ ٹیم بتدریج اس سمت بڑھنے لگی ہے جو جدید دور کی ٹی ٹونٹی کرکٹ میں بقا کا راستہ ہے۔
سلمان آغا بطور کپتان ایک تازہ اپروچ رکھتے ہیں اور صائم ایوب، صاحبزادہ فرحان، حسن نواز و سفیان مقیم وغیرہ کی شکل میں دھیرے دھیرے وہ اپنی ٹیم کا ایک کور گروپ بھی تیار کر رہے ہیں جو اگلے ورلڈ کپ تک ناقابلِ تسخیر بن سکے۔
لیکن میڈیائی حلقوں میں اس کور گروپ کے علاوہ اس نئے کپتان کو بھی تاحال قبولیت کی 'سند' نہیں مل رہی۔ پاکستان میں تو عالم یہ ہے کہ ہر سپر سٹار کا اپنا ایک 'کور میڈیا گروپ' بن جاتا ہے جو ہر دم اس پہ داد و تحسین کے ڈونگرے نچھاور کرنے کو تیار رہتا ہے۔
بات یہاں تک تو شاید کچھ بجا بھی ہو، مگر اس 'کور میڈیا' کا مسئلہ یہ ہے کہ جب اسے تحسین نچھاور کرنے کو اپنے پسندیدہ چہرے دستیاب نہ ہو پائیں تو سلمان آغا جیسے بے لاگ کرکٹرز خواہ مخواہ اس کی تنقید کا نشانہ بننے لگتے ہیں۔
ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش اگرچہ کوئی مسابقتی حریف نہیں تھے کہ جن کے خلاف کارکردگی کو پیمانہ ٹھہرا کر پاکستان اپنی صلاحیتوں کا درست تعین کر سکے۔ تاہم ایک نئی ٹیم کو آپس میں جڑنے کے لیے جو انٹرنیشنل کرکٹ کی مشق درکار ہوتی ہے، وہ بہرحال اسے میسر آتی رہی ہے۔
اب ایشیا کپ تو چار ہی دن کی دوری پہ ہے اور اس کے ہنگام بھلے پاکستان کی تیاریاں بہت قابلِ رشک نہ سہی، مگر اگلے برس کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ تک یہ نئے چہرے بھی اتنا تجربہ حاصل کر چکے ہوں گے کہ اپنے نتائج کے جواز میں کم از کم ناتجربہ کاری کا لفظ نہیں لا پائیں گے۔