تاریخ میں پہلی بار پاکستان کے گندم کے بیج خلا میں قائم انٹرنیشنل سپیس سٹیشن پر سائنسی تجربے کے لیے پہنچ چکے ہیں۔
یہ کارنامہ لاہور سے تعلق رکھنے والے سپیس انجینیئر مہد نیئر کی بدولت ممکن ہوا ہے جو ان دنوں امریکہ میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ وہ اُس بین الاقوامی منصوبے کا حصہ بنے جس کے تحت پاکستانی گندم کے بیج پہلی بار خلا میں بھیجے گئے۔یہ بیج یکم اگست کو فلوریڈا کے کینیڈی سپیس سینٹر سے سپیس ایکس کے کریو 11 مشن کے ذریعے خلا میں روانہ ہوئے، اور اب انٹرنیشنل سپیس سٹیشن پر پہنچ چکے ہیں۔ یہ بیج اسی ماہ کے آخر میں کریو 10 مشن کے ذریعے زمین پر واپس لائے جائیں گے۔یاد رہے کہ دنیا کے 110 سے زائد ممالک اب تک انٹرنیشنل سپیس سٹیشن پر مختلف سائنسی تجربات کر چکے ہیں، لیکن پاکستان ابھی تک اس فہرست کا حصہ نہیں بن سکا تھا۔ البتہ اس سے قبل پاکستانی بیج محدود پیمانے پر چینی خلائی سٹیشن پر تجربات کے لیے ضرور بھیجے گئے تھے۔یہ منصوبہ کیسے ممکن ہوا؟یہ تاریخی تجربہ دو عالمی اداروں ’جگوار سپیس‘ اور ’دی کارمن پروجیکٹ‘ کے اشتراک سے ممکن ہوا، یہ دونوں ادارے نوجوان محققین کو خلا میں تحقیق کے مواقع فراہم کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ یہ منصوبہ ناسا کے تعاون سے تیار ہوا اور ناسا ہی کے لانچ پیڈ سے بین الاقوامی خلائی سٹیشن کی طرف بھیجا گیا۔پاکستانی گندم کی خلا میں شمولیت کیوں اہم ہے؟پاکستان ایک زرعی ملک ہے جہاں گندم نہ صرف خوراک کا بنیادی جز ہے بلکہ زرعی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بھی سمجھی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ مہد نیئر اور اُن کی ٹیم نے گندم کو اس سائنسی تحقیق کے لیے منتخب کیا۔ اُن کا ماننا ہے کہ خلا میں بیجوں پر کیے جانے والے تجربات زمین پر فصل کی پیداوار، معیار، اور موسمی اثرات کے خلاف مزاحمت میں انقلابی بہتری لا سکتے ہیں۔
پاکستان میں گندم زرعی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بھی سمجھی جاتی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
مہد نیئر کو خلا میں بیج بھیجنے کا موقع کیسے ملا؟
مہد نیئر ایک فعال خلائی محقق ہیں اور بین الاقوامی تنظیم ’کارمن‘ کا حصہ ہیں، جو دنیا بھر سے نوجوان سائنسدانوں کو تحقیق کا پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے۔کارمن فیلوشپ میں اس وقت 150 ممالک سے تعلق رکھنے والے سائنسدان شامل ہیں۔ رواں برس فروری تا مارچ ان تمام اراکین کو دعوت دی گئی کہ وہ اپنے سائنسی پروپوزل جمع کروائیں۔منتخب ہونے والے پروپوزلز کو خلا میں تحقیق کا موقع دیا گیا، اور فیصلہ کیا گیا کہ منتخب ممالک کی زرعی فصلوں کے بیج بھی خلا میں بھیجے جائیں گے۔پاکستانی ٹیم کی تشکیل اور کامیابیاس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مہد نیئر نے اپنی یونیورسٹی سے ایک اور پاکستانی طالب علم محمد ہارون کو بھی ٹیم میں شامل کیا، جو زرعی سائنس میں مہارت رکھتے ہیں اور اس منصوبے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔اُنہوں نے اُردو نیوز سے گفتگو میں بتایا ہے کہ ’ہم دونوں نے مل کر ایک تفصیلی پروپوزل تیار کیا، جس میں پاکستانی گندم کے بیجوں پر خلا میں مائیکروگریویٹی کے اثرات کا مطالعہ شامل تھا۔ یہ پروپوزل کارمن اور جگوار سپیس کو بھیجا گیا، جہاں سے منظوری کے بعد اسے ناسا کے مشن کا حصہ بنا دیا گیا۔یوں 150 ممبران میں سے مہد نیئر کو نہ صرف پاکستان کی نمائندگی کا موقع ملا بلکہ پاکستانی گندم کو پہلی بار انٹرنیشنل سپیس سٹیشن میں بھیجنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔‘
ناسا میں مختلف ممالک کے خلاباز تجربات کرتے ہیں۔ (فوٹو: ناسا)
دیگر ممالک کی شرکتف
پاکستان کے ساتھ ساتھ تین دیگر ممالک مصر، آرمینیا اور نائیجیریا کو بھی اپنی فصلوں کے بیج خلا میں بھیجنے کا موقع ملا ہے۔مصر کی جانب سے کپاس، آرمینیا کی جانب سے انار اور نائیجیریا کی جانب سے ایگوسی خربوزے کے بیج شامل کیے گئے ہیں، جبکہ پاکستان نے گندم کے بیجوں کے ذریعے نمائندگی کی۔خلا میں بیج کیسے رکھے جاتے ہیں؟مہد نیئر کے مطابق، بیجوں کو ایک خاص قسم کی ٹیسٹ ٹیوب میں رکھا جاتا ہے جس کی گنجائش محدود ہوتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ پاکستانی گندم کے اوسطاً آٹھ سے 10 بیج خلا میں بھیجے گئے ہیں، جنہیں مائیکروگریویٹی میں رکھا جائے گا تاکہ یہ جانچا جا سکے کہ کششِ ثقل سے آزاد ماحول میں ان کی افزائش پر کیا اثرات پڑتے ہیں۔
خلاباز کئی دن سپیس سٹیشن میں تجربات پر لگا دیتے ہیں۔ (فوٹو: ناسا)
ماہرین کی رائے
انسٹیٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی اسلام آباد کے پروفیسر ڈاکٹر قمرالاسلام نے پاکستانی گندم کے بیج خلا میں بھیجے جانے کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ خلا میں خاص طور پر مائیکروگریویٹی کے ماحول میں فصلوں کے جینیاتی ردعمل، بیماریوں کے خلاف مزاحمت اور مستقبل میں خلائی بستیاں بسانے کے لیے خوراک کے نئے ذرائع تلاش کرنے میں مدد ملے گی۔ڈاکٹر قمر الاسلام کے مطابق، پاکستانی گندم پر کیے جانے والے تجربات زمین پر بھی فصلوں کی بہتری کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔